ہندوستانی مسلمان اور تین طلاق کا مسئلہ

بھارتی پریس سے : ظفر آغا

_89139266_gettyimages-489749606

مجھے اپنے کالم میں شعر لکھنا عموماً پسند نہیں لیکن اس بار نہ جانے کیوں ایک خبر پڑھ کر بے ساختہ غالب کا یہ شعر بہت یاد آیا اور وہ آپ کی نذر ہے:۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خون نہ نکلا

اب ذرا خبر ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ اس مضمون کے ساتھ غالب کا یہ شعر کیوں ضروری ہوگیا۔ مشہور انگریزی اخبار ’’ ٹائمز آف انڈیا ‘‘ نے 24اگسٹ کے شمارہ میں ایک خبر شائع کی جس کی سرخی تھی ’’ تین طلاق کا اثر ؟۔ 1000 عورتوں میں 5 طلاق شدہ ‘‘۔

دراصل یہ خبر ایک سروے پر مبنی ہے جس میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کے کس مذہب میں طلاق کا کس قدر چلن ہے، اب ذرا اس سروے کو جو ’ ٹائمز آف انڈیا‘ کے بقول نتائج آئے وہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے۔ ان نتائج کو اخبار نے ایک ٹیبل کی شکل میں پیش کیا ہے جس کا من و عن ترجمہ پیش خدمت ہے۔

f2آپ نے غورکیا ہوگاکہ ان اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں میں فی ہزار طلاق شدہ عورتوں کی تعداد پانچ سے بھی

کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تعداد ہندوؤں سے زیادہ ہے۔ لیکن ہندوؤں میں بیوگی اور شوہر کا زوجہ سے الگ ہوجانے کا رواج مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر بھی شور ہے تو مسلمانوں کے تین طلاق کا۔

شاہ بانو کیس جو سال 1986 میں سپریم کورٹ میں طئے ہوا تھا تب سے آج تک ہندوستان کے اخبار، ٹی وی، عدالتیں اور سماجی و سیاسی تنظیمیں مسلم سماج میں تین طلاق کے نام پر مسلم عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف جنگ آزما ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان دنوں پھر سے سپریم کورٹ میں تین طلاق کا معاملہ زیر بحث ہے۔

ذریعہ: ہندوستانی مردم شماری، یہ تعداد فی ہزار ہے

پچھلی تین دہائیوں سے یہ معاملہ رہ رہ کر جس طرح موضوع بحث رہا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں ہر دوسری عورت کو جسے طلاق طلاق طلاق کہہ کر اس کا شوہر طلاق دے دیتا ہے اور اس طرح مسلم عورت بے پردہ مددگار اپنے حقوق سے محروم ہوکر دردر کی ٹھوکر کھاتی پھرتی ہے۔

لیکن تازہ ترین ہندوستانی مردم شماری کے اعداد و شمار مذہب کی بنیاد پر مختلف مذاہب میں طلاق شدہ عورتوں کا جو تناسب پیش کررہے ہیں وہ تین طلاق کے معاملے میں ہورہے شور شرابہ کے منافی ہیں کیونکہ مسلمانوں میں فی ہزار پانچ عورتیں طلاق شدہ ہیں جبکہ یہ تعداد بدھوں میں اس سے کہیں زیادہ ہے اور ہندوؤں و کرسچنوں میں زوجہ سے الگ ہونے کا تناسب مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اعداد و شمار سے بڑا سچ کوئی اور نہیں ہے، اور سرکاری اعداد و شمار یہ بتارہے ہیں کہ مسلم سماج میں طلاق کوئی ایسی لعنت نہیں ہے کہ جس کو اتنا بڑا مسئلہ مانا جائے کہ پورا ملک آئے دن اس مسئلہ پر بحث کرتا رہے اور سپریم کورٹ ایک نہیں بلکہ وقفہ وقفہ سے اس پر اپنا فیصلہ صادر کرتا رہے۔

پچھلی تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے مسلمانوں میں تین طلاق کے مسئلہ پر کچھ ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ آخر کیوں؟ سوال تو یہ ہے کہ آیا اس ملک کے مسلمانوں کا طلاق زیادہ بڑا مسئلہ ہے یا پھر آئے دن کے فساداور ان فسادات میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل و غارت گری زیادہ بڑا مسئلہ ہے یا شاہ بانو کیس اور اس سے جڑا تین طلاق کا مسئلہ، اور ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کے قیام کا مسئلہ کم و بیش ساتھ ہی ساتھ 1980 کی دہائی میں ایک ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔

بابری مسجد شہید کئے جانے کے وقت (1992) سے لیکر آج تک اس ملک میں فسادات میں بے گناہ مسلمان زیادہ مارے گئے یا تین طلاق کے ذریعہ مسلم عورتوں کے طلاق زیادہ ہوئے، میرے پاس فسادات میں مارے جانے والوں کے اعداد و شمار فی الوقت موجود نہیں ہیں لیکن بابری مسجد شہید کئے جانے کے وقت، پھر بمبئی فسادات کے دوران اور اس کے بعد 2002 میں گجرات فسادات میں کم و بیش 10 ہزار لوگ مارے گئے۔ لیکن سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ ایسا درپیش نہیں ہے کہ آخر حکومتیں آئین کی بنیادی شق یعنی ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کا فریضہ پورا کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔؟

ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایسا کوئی معاملہ زیر بحث نہیں ہے جبکہ تین طلاق کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تین طلاق کے مسئلہ پر جو بحث ہوتی ہے اس میں نیت کا کھوٹ ہے۔ بحث کرنے والوں کو مسلم سماج میں اصلاح سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ ان کو مسلم پرسنل لا سے بیرہے۔

اگر تین طلاق مسئلہ میں سماج کی اصلاح کا خیال ہوتا تو اس مسئلہ پر شور مچانے والوں کو اس بات کی فکر زیادہ ہوتی کہ مسلمان فسادات میں کیوں مارے جارہے ہیں یا مسلم بچوں کو حکومت تعلیم کیوں نہیں مہیا کروارہی ہے، مسلمانوں میں اس قدر بے روزگاری کیوں ہے۔ ظاہر ہے کہ نیت ٹھیک نہیں۔ دکھ طلاق کا نہیں ہے لیکن اس کے یہ معنی قطعاً نہیں ہیں کہ تین طلاق مسلم سماج کا اہم مسئلہ نہیں ہے۔

تین طلاق مسلم سماج کی ایک لعنت ہے جو ہر حال میں ختم ہونی چاہیئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تین طلاق کا جو طریقہ مسلم سماج میں رائج ہے وہ قرآن اور شریعت کے منافی ہے تب ہی تو پاکستان اور سعودی عرب جیسے ممالک میں اس طرح کے طلاق پر پابندی ہے۔ حد یہ ہے کہ ہندوستان کا مسلم پرسنل لا بورڈ بھی اس طلاق کو ’ طلاق بدعت‘ تسلیم کرتا ہے اور اس سلسلہ میں اصلاح کے حق میں ہے لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ اس سلسلہ میں محض مگر مچھ کے آنسو بہاتا ہے۔

اگر مسلم پرسنل لا بورڈ اس غیر شرعی طلاق کے رواج کو ختم کرچکا ہوتا تو آج مسلمانوں کو اس سلسلہ میں ہونے والے بیجا پروپیگنڈہ کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پورا مسلم معاشرہ ایک بلا وجہ مسئلہ کا سپریم کورٹ سے لیکر اخبار و ٹی وی تک کو جواب دیتا پھر رہا ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ دونوں طرف نیت میں کھوٹ ہے۔ تین طلاق پر شور مچانے والوں کو مسلم سماج میں اصلاح اور مسلم عورتوں کے حقوق سے کم اور مسلمانوں کو ایک پچھڑی اور غیر ترقی یافتہ قوم ثابت کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ اِدھر مسلم پرسنل لا بورڈ اس سلسلہ میں اصلاح معاشرہ کی بات تو کرتا ہے لیکن کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتا۔

اس طرح ہر مسلم مسئلہ کی طرح اس معاملہ میں بھی عام مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پستا رہتا ہے۔ اس ملک کے مسلمانوں کا المیہ یہی ہے کہ وہ چاہے غیر ہوں یا اپنے سب ان کے بے وجہ مسائل پر شور مچاتے ہیں لیکن کسی کو ان کے بنیادی مسائل مثلاً فسادات، جہالت اور بے روزگاری کی فکر نہیں ہے۔ ان حالات میں آپ غالب کی طرح سر نہ دھنیئے تو اور کیا کیجئے۔

روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا

Comments are closed.