بلوچستان میں آگ اور خون کے منا ظرہر آنے وا لے دن کے ساتھ مدھم پڑ نے کی بجا ئے مزید گہرے اور وسیع ہو تے نظر آ تے ہیں ،ان خونی منا ظر کو خوفناک بنا نے میں مذ ہبی و فر قہ وا را نہ شدت پسندی بڑھ چڑھ کر کر دار ادا کر رہی ہے ،لیکن ان حا لات سے دو چار ہو نے وا لوں کا کہنا ہے کہ مذ ہبی و فر قہ وا را نہ شدت پسند حملے ہوں یا اس کے جواب میں فورسز کی کاروائیاں ،دونوں میں نشا نہ عام طور پر عوام ہی بنتے ہیں۔
آٹھ8،اگست 2016ء کو کو ئٹہ ہسپتال میں ہو نے وا لے خود کش حملے میں وکلاء کی بھا ری تعداد سمیت در جنوں عام بے گناہ لوگ ما رے گئے جس کی ذمہ دا ری کالعدم مذ ہبی شدت پسند تنظیم نے قبول کی تھی ،مگر اس حملے کے ذمہ داروں کی تلاش اور انہیں کیفر کر دار تک پہنچا نے کے نام سے فورسز نے بلو چستان کے طول و عرض میں جس’’ کو مبنگ آپریشن ‘‘کا آ غاز کیا ہے اس میں عام آبا دیاں بری طرح متا ثر ہو رہی ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ بلوچ اکثر یتی آبا دی وا لے علا قوں کو نشانہ بنایا گیا ۔متا ثرین کے مطا بق یہ وہ بلوچ آبا دیاں ہیں جہاں آئے روز مختلف نا موں سے سیکورٹی ادا رے آپریشن در آپریشن کرتے چلے آ رہے ہیں ،جن میں نہ صرف چا در اور چار دیواری کے تقدس کو پا مال کیا جا تا ہے بلکہ مکینوں کو تشدد کا نشا نہ بنا نے اور حراساں کر نے کے ساتھ ساتھ عام لو گوں کو شہید اور گرفتار کر کے انہیں دہشت گرد قرار دیا جا تا ہے۔
جبکہ حراست میں لئے جا نے وا لوں کو لا پتہ کر کے ان کے لوا حقین کو اپنے پیاروں کی خبرگیری سے مکمل محروم کر دیا جا تا ہے ،جن کی بعد میں کسی ویرا نے سے تشدد زدہ لا شیں پڑی ملتی ہیں ، آج کل تو زیر حراست بلوچ کے قتل عام کو جعلی مقابلوں کا نام دیا جاتا ہے۔ متا ثرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سیکورٹی اداروں کی نظر میں ہر بلوچ دہشت گرد ہے ،اسی لئے وہ بلا تفریق و تحقیق بلوچ آبا دیوں کے ہر گھر اور ہر مکین پر دھا وا بول رہی ہیں ۔
اس سلسلے میں بلوچ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکو مت سا نحہ کو ئٹہ کی آڑلے کر مذ ہبی شدت پسندی کی اصل پناہ گاہوں کو چھوڑ کران علا قوں میں ریاستی طا قت کے استعمال میں شدت لا رہی ہے جہاں بلوچ جہد آ جو ئی سے گہری سما جی وابستگی پا ئی جا تی ہے،جن کے دل و دماغ کو حکمران قو تیں فتح نہیں کر سکی ہیں ،حا لا نکہ یہ وہ آبا دیاں ہیں جہاں مذ ہبی و فر قہ وارا نہ شدت پسندی کی ایسی کوئی بنیاد نہیں جو انہیں یر غمال بنا سکے لیکن کو مبنگ آپریشن کا نشا نہ ان آبا دیوں کو ایسے بنا یاجا رہا ہے جیسے مذ ہبی انتہا پسندی کے یہ اصل مر ا کز ہوں ۔
لوگوں کے مطا بق مذ ہبی و فرقہ وارا نہ شدت پسندوں پر مشتمل بھا نت بھانت کی جہادی فصل کے بیج بلوچ قو می تر قی پسند سا مراج دشمن سیاست اور تحریک کے بوئے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ حکمرانوں اور ان کے عا لمی سامرا جی اتحادیوں کی بوئی ہوئی اپنی فصل ہے ، جس کی سزا بلوچ سماج کو ایک طرف مذ ہبی و فر قہ وا را نہ انتہا پسندی کے پھیلاو اور شدت پسند حملوں اور دوسری طرف ان کیخلاف آپریشن کے نام پر فورسز کی پے در پے کارروائیوں کی صورت میں بھگتنی پڑ رہی ہے ۔
بلوچ قومی تحریک کے سرخیل سردار خیر بخش مری کے آبا ئی علا قے کا ہان سمیت کوہستان مری ،ڈیرہ بگٹی ،کو ئٹہ ،مستونگ ،چا غی ،مکران اور دیگر علاقوں میں فورسز نے متعدد کارروائیاں کی ہیں ،جن میں انسا نی حقوق کی پا ما لی کے واقعات سامنے آئے۔اگست کے مہینے میں فورسز نے 106 آپریشن کئے جس میں63 گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ لوٹ مار کی گئی۔175لاشیں ملیں ،جس میں 69افراد شہید کے گئے جن میں بڑی تعداد ڈیرہ بگٹی میں فوجی آپریشن وآواران،ڈیرہ بگٹی حراستی قتل عام تھی جبکہ کوئٹہ کا المناک واقعہ جس میں54 وکیلوں کے ساتھ 74 افراد کو جانے کس جرم میں شہید کیا گیا۔ 14لاشوں کے محرکات سامنے نہ آ سکے،دوران آپریشنز661افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا گیا۔
خود فورسز کے ترجمان کے اعترافی بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں اور ادارہ سنگر کے پاس وہ تمام اخبارات بطور سند محفوظ ہیں۔مشتبہ قرار دے کر بعد از گرفتاری کسی کے بارے میڈیا میں کچھ بھی نہیں لایا جاتا ہے یہ سلسلے سالوں سے بلوچستان میں جاری ہے،خوف زدہ صحافی بھی اس بارے کسی سوال کرنے سے گریزاں ہیں۔
مقا می و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران در جنوں عام لوگوں کو حراست میں لیا گیا ،جن کے بارے میں لوا حقین کو نہیں بتا یا جا رہا ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں ،لوگوں کے مطا بق جن لو گوں کو نشا نہ بنا تے ہو ئے شہید کیا گیا وہ بھی عام لوگ تھے ، یہ حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ کیسی مسلح جھڑ پیں ہیں جن میں فورسز کے کسی اہلکار کو خراش تک نہیں آتی اور ’’مسلح جنگجو ‘‘بڑی تعداد میں ما رے جا تے ہیں۔
یہ حلقے حکومتی دعوؤں کو مشکوک قرار دیتے ہوئے ان واقعات کی غیر سر کاری آزاد و غیر جانبدار ذرائع سے تحقیقات کا مطا لبہ بھی کر رہے ہیں ،جس میں متاثرہ علاقوں تک آزاد و غیر جانبدار مبصرین اور ذرائع ابلاغ کی آزاد ا نہ رسا ئی کی ما نگ بھی شا مل ہے، فورسز اہلکاروں کی کارروائیاں غیر آئینی و غیر قا نو نی اور سنگین جرائم کے زمرے میں آ تی ہیں جن کی طرف نہ صرف مقا می اور بلوچ سیاسی و سما جی حلقے بلکہ انسا نی حقوق کے پاکستا نی و بین الاقوا می ادارے بھی تو جہ دلا رہے ہیں مگر انصاف اور جمہوریت کے داعی ایوانوں میں کوئی سننے والا دکھائی نہیں دیتا۔
بعض لوگوں کے خیال میں یہی وہ بے حسی و بیگانگی ہے جو بلوچوں کو بندوق اٹھا کر طاقت کا جواب طاقت سے دینے اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری سے انصاف اور مدد کی فراہمی کی اپیل پر مجبور کر رہی ہے ، ان لوگوں کے مطابق مخصوص علاقوں میں بار بار آپریشن کیا اس امر کا ثبوت نہیں ہے کہ انہیں وہ سب کچھ ملنے میں ناکامی ہوئی ہے، جس کیلئے وہ ان آبادیوں کو تہس نہس کر رہے ہیں ۔
جہاں تک بلوچ مزاحمت کاروں کی طاقت توڑنے کا سوال ہے تو یہ تنازعہ نہ تو طاقت اور نہ ہی عام بلوچ آبادیوں پر چڑھائی کرنے سے حل ہو سکتا ہے ، بلکہ اس کے بر عکس فورسز کی ایسی ہر کارروائی ہر ملنے والی لاش اور ہر گرفتاری و گمشدگی کے واقعہ کے بعد مزاحمتی قوتوں کو مزید توانائی اور حمایت مل رہی ہے ،جس سے ان کی طاقت میں تمام تر آپریشنز کے باوجود کوئی ایسی کمی نہیں آئی جس سے وہ اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے مفلوج ہو کر رہ گئے ہوں ۔
ان قوتوں کی موجودگی کا احساس بلوچستان میں جاری ان کی سرگرمیوں میں واضح طور پر ہوتا ہے ، اسی لئے مبصرین اور تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد اس امر پر زور دیتی آئی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ ایک سیاسی تنازعہ ہے،جسے سیاسی طور پر ہی بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا ہے ، طاقت کا استعمال عارضی طور پرمسئلے کو دبا تو سکتا ہے لیکن اس کا جڑ سے خاتمہ نہیں ہو سکتا ، اگر ریاستی طاقت کا استعمال کارگر اور موثر ہوتا تو بلوچستان میں پہلے فوجی آپریشن کے بعد مزید آپریشنز کی ضرورت پیش نہ آتی اور نہ ہی آج بلوچ تحریک آجوئی کا ابھار دیکھنے کو ملتا ۔
جبکہ طاقت کے استعمال کے ہر تجربے نے ثابت کیاہے کہ وہ نئی مزاحمت اور تحریک کے بیج بوتا ہے ،جس سے جنم لینے والی مزاحمتی و تحریکی فصل پہلے سے زیادہ پھل دار ہوتی ہے ، بلوچ مسئلے کا موجودہ ابھار اس کا منہ بولتا ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے ،لہٰذا حکمرانوں کا یہ گمان کرنا کہ وہ ریاستی طاقت کے ذریعے تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھنکنے میں کامیاب ہو جائیں گے شروع دن سے ہی مشکوک رہا ہے،۔
البتہ غیر سیاسی ذرائع کو نظر انداز کرنے سے بحران مزید بڑھتا اور پیچیدہ ہو رہا ہے ، اور اب یہ پاکستان کی سیاسی حدود سے نکل کر علاقائی اور عالمی سیاست میں داخل ہو چکا ہے ، جو پاکستانی حکمرانوں کیلئے نئے مسائل اور چیلنجز سامنے لائے گا ، جو خطے میں جاری کشیدگی اور ٹکراؤ میں شدت پیدا ہونے کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں ۔
اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا ، بلوچستان کا تنازعہ جتنی طوالت اختیار کرے گا اتنا ہی یہ پاکستان کے داخلی سیاسی ومعاشی بحران اور خطے کے عدم استحکام کو بد سے بد ترین بناتا رہے گا۔یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ بلوچ قوم کو انکی تاریخی آزادی اور سرزمین کا مالک جب تک تصور نہ کیا جائے گا،پاکستان بزور فوجی و مذہبی طاقت بلوچ قوم کی شعوری جدو جہد کو زیر نہیں کر سکتا۔
البتہ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان مستقبل میں ایک بہترین مضبوط معاشی ملک کا ہمسایہ بن سکتا ہے۔ورنہ بلوچستان کی آزاد شناخت کے درمیان بلا تفریق فوجی آپریشنز لوگوں کا قتل عام ریاست کو آنے والے وقتوں میں ایک ہمسایہ سے دور کر سکتا ہے۔
♦