آصف جاوید
ائر کموڈور ریٹائرڈ محمّد محمود عالم (ستارہِ جراءت ) جن کو دنیا ایم ایم عالم کے نام سے جانتی ہے۔ ستمبر 1965 میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کےہیرو تھے۔ ایم ایم عالم نے ستمبر 1965 کی جنگ میں ایک فضائی جھڑپ کے دوران ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں ایک ڈاگ فائِٹ میں انڈیا کے پانچ جنگی ہنٹر طیّارے ایک ساتھ تباہ کرکے ، عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ جس کے بعد ایم ایم عالم لٹِل ڈریگون کے نام بھی سے بھی مشہور ہوئے۔ ائیر فورس میں ان کے دوست، پستہ قد ہونے کی بناء پر انہیں پی نٹ بھی کہتے تھے۔
ستمبر 1965 میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں ایم ایم عالم نے بہت شہرت کمائی، ان کی پوسٹنگ سرگودھا میں تھی اور وہ ونگ 33 کے اسکواڈران 11 کے لیڈر تھے۔ اور دورانِ جنگ ،جب وہ اپنے ایف -86 سیبر جیٹ لڑاکا جہاز سے انڈیا کے جہازوں کے ساتھ فضاء میں ڈاگ فائِٹ کرتے تھے ، تو دشمن کو ناک سے چنے چبوا دیتے تھے۔ دوران جنگ اکیلے ایم ایم عالم نے انڈیا کے 9 جنگی طیّارے گرائے تھے ، جن میں پانچ وہ طیّارے ہیں جو ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں گرائے تھے۔
ایم ایم عالم 6 جولائی 1935 کو غیر منقسم انڈیا کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ایم ایم عالم کے بزرگ بنگال میں بہاری کہلاتے تھے، کیونکہ وہ لوگ پٹنہ سے کلکتہ آئے تھے۔ بنگالی بولنے کے باوجود بنگالی، انھیں بہاری ہی کہتے تھے۔ جب 1947 میں پاکستان بنا تو ان کے ماں باپ کلکتہ سے ڈھاکہ شفٹ ہو گئے۔ اور یہاں وہ پھر سے بنگالی ہوگئے۔
ایم ایم عالم نے 1952ء میں پاکستان ائیرفورس جوائن کی، 1953ء میں ایم ایم عالم کو کمیشن ملا ۔
ستمبر 1965 میں جب پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو بھارت نے 6 ستمبر کو لاہور پر حملہ کر دیا، پاک فضائیہ کو 7 ستمبر کو بھارت پر حملے کا حکم ملا ، ایم ایم عالم اِس وقت پی اے ایف سرگودھا میں اسکواڈران لیڈر کے عہدے پر تعینات تھے، جب ایم ایم عالم حملے کے لیے روانہ ہوئے اور بھارتی سرحد پر پہنچے، تو ان کی مڈ بھیڑ بھارت کے ہنٹر طیاروں کے ایک غول سے ہو گئی۔
بھارتی طیارے ان کے ایف 86 سیبر پر کتّوں کی طرح پِل پڑے، مگر انھوں نے کل 45 منٹ میں انڈیا کے پانچ طیارے مار گرائے، یہ پورا آپریشن ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں مکمّل ہوا اور ایم ایم عالم اطمینان سے واپس پلٹ کر سرگودھا ائیر بیس پر اتر گئے۔ یہ ورلڈ ریکارڈ تھا، اور آج تک قائم ہے، اور یوں ایک بنگالی پاکستان کا ہیرو بن گیا۔
چونکہ وہ بنگالی تھے، اور مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے ساتھ مغربی پاکستانیوں کے ناروا سلوک سے اچھّی طرح واقف تھے ، لہذا وہ بنگالیوں کی حق تلفی اور مشرقی پاکستان کے حالات سے دل برداشتہ ہو کر کھل کر بنگالیوں کے حق میں باتیں کرتے تھے۔ ۔
ایم ایم عالم ڈرنے والے آدمی نہیں تھے۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھےکہ ، بنگالیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا۔ لیکن ان کے خیالات کو تعصّب اور لسّانیت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ وہ 1969ء میں اسٹاف کالج میں تھے لیکن ان کے ’’باغیانہ‘‘ خیالات کی وجہ سے انھیں اسٹاف کالج سے بھی فارغ کر دیا گیا تھا۔
جب 16 دسمبر 1971ء میں پاکستان ٹوٹا تو ایم ایم عالم کا پورا خاندان ڈھاکہ میں تھا، 1971 کی جنگ کے بعد ایم ایم عالم کو بنگلہ دیش کی جانب سے بنگلہ دیش کی فضائیہ کی سربراہی کی پیشکش بھی ہوئی تھی۔ اور ایم ایم عالم کے ساتھیوں کا یہ خیال بھی تھا کہ ایم ایم عالم پاکستان ائیر فورس چھوڑ کر بنگلہ دیش چلے جائیں گے۔
لیکن وہ ایک سچّے محبِّ وطن پاکستانی تھے۔ انھوں نے نہ صرف بنگلہ دیش کی فضائیہ کا سربراہ بننے سے انکار کردیا، بلکہ پاکستان بھی چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اور وہ اپنے خاندان کو بھی بنگلہ دیش سے پاکستان لے آئے۔ یوں انکے خاندان نے سو سال میں تین ہجرتوں کے دکھ سہے۔
مشرقی پاکستان کے سانحے نے ایم ایم عالم کے ذہن پر بہت بُرے اثرات مرتب کیے تھے۔ ان کی زبان کی کڑواہٹ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا اور وہ شدید مذہبی بھی ہوگئے تھے۔ وہ ببانگِ دہل کہتے تھے کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا، اگر ہم نے یہ غلطیاں ابھی، بھی جاری رکھیں، تو ہم ہم باقی ماندہ پاکستان بھی کھو دیں گے۔
وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بھی خلاف تھے، اور جنرل ضیاء الحق کو بہت برا بھلا کہتے تھے۔ خفیہ اداروں نے ان کی گفتگو ریکارڈ کر کے ضیاء الحق تک پہنچا دی۔ ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایم ایم عالم کی گفتگو کی ریکارڈنگ سن کر ایم ایم عالم کو ائیر فورس سے فارغ کرنے کا حکم دے دیا اور یوں پاکستان کے ہیرو اور ائیر فورس کی تاریخ کے ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ایم ایم عالم کو 1982ء میں قبل از وقت ریٹائر کر دیاگیا۔
ریٹائرمنٹ کے وقت ایم ایم عالم ائیر کموڈور کے عہدے پر فائز تھے۔ ضیاء الحق ایک کینہ پرور آدمی تھا، اس نے انتقامی کارروائی کے طور پر ایم ایم عالم کی پنشن سمیت تمام مراعات بھی روک لی تھیں ، ایم ایم عالم درویش صفت انسان تھے، دنیا میں ان کا کوئی گھر نہیں تھا، شادی انھوں نے کی نہیں تھی، لہٰذا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد چک لالہ ائیر بیس کے میس میں مقیم ہو گئے تھے ۔
وہ ایک کمرے تک محدود رہتے تھے، بس وہ تھے، اور ان کی کتابیں تھیں، عبادت تھی اور ان کی تلخ باتیں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایم ایم عالم نے نے روس کے خلاف افغان جہاد میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس کے بعد ایم ایم عالم درویشی کی زندگی گزارنے لگے تھے۔ ۔ کتب پڑھنا اور ہم خیالوں سے گفتگو کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس گفتگو کی بعد میں ان کو قیمت بھی ادا کرنا پڑی تھی۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایم ایم عالم صاحب نے ان پر بھی تنقید شروع کر دی، وہ فوج کے سیاسی کردار اور کرپشن کو ملک کی تباہی کا اصل ذمّے دار قرار دیتے تھے۔ خفیہ اداروں نے ایک بار پھر ان کی گفتگو ٹیپ کرلی اور صدر جنرل پرویز مشرف کو پیش کر دی ۔
صدر نے ائیر چیف کو طلب کیا، ٹیپ سنائی اور ان سے کہا، چک لالہ حسّاس علاقہ ہے، یہ شخص ہماری ناک کے نیچے بیٹھ کر ہمارے خلاف گفتگو کر تاہے، اس سے فوج میں بغاوت پھیلنے کا خدشہ ہے۔ چنانچہ ایم ایم عالم صاحب کا سامان باندھا گیا اور انھیں راولپنڈی سے کراچی پہنچا دیا گیا، ان کا اگلا ٹھکانہ فیصل بیس تھا، پی اے ایف بیس فیصل میں فالکن 2 بلاک میں کونے والے ویران کمرے میں ، اس شاہین کا بسیرا تھا۔ اور یہ انتقال تک فیصل بیس میں ہی رہے۔
اور 18 مارچ 2013ء کو پاکستان نیوی کے اسپتال پی این ایس شفاء میں دم توڑ گئے ۔ آخری وقت میں انکے سرہانے اسپتال کے عملے کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ ان کے جنازے میں بھی چند خدا ترسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اور یوں جنگِ ستمبر کا یہ ہیرو ، سچ بولنے پر زیرو ہوگیا۔
اللہُّ باقی من کلِّ فانی
9 Comments