بیرسٹر حمید باشانی
ملالہ کے کشمیر بارے بیان پر سخت اور دلچسب رد عمل سامنے آیا ہے۔ایک رد عمل ان لوگوں کا ہے جو کل تک ملالہ کو بھارت اور مغرب کا ایجنٹ قرار دینے پر بضد تھے۔یہ لوگ اس بات پر اپنا سارا زور قلم صرف کر رہے تھے کہ ملالہ بنیادی طور پر ہی ایک جھوٹ اور فریب کا نام ہے۔یہاں تک کہ یہ لوگ اس ناقابل تردید حقیقت کی بھی تردید کرتے تھے کہ ملالہ کو گولی لگی تھی۔وہ یہ دور کی کوڑی لاتے تھے کہ یہ سب ایجنسیوں کا ڈرامہ تھا۔اس ڈرامے کے زریعے ملالہ کا کرادر تخلیق کیا گیا تاکہ اسے طالبان کے فرضی جرائم کو عالمی سطح پر پیش کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
ہ وہ لوگ ہیں جو نفرت میں اندھے ہو جاتے ہیں اور حقائق کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سہارے پاکستان میں ساری سازشی تھیوریاں چلتی ہیں۔ان میں ایسی نا قابل یقین تھیوریاں بھی شامل ہیں جیسے نائن الیون ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ ٹاور خود امریکیوں نے گرائے تھے۔ یا پھر یہ یہودیوں کی سازش تھ
ان ہی لوگوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کی تھیوری یہ تھی کہ ملالہ کو گولی اس لیے لگی تھی کہ اس کا طالبان کے ساتھ ذاتی جھگڑا تھا۔ملالہ کا خاندانی کارو بار اور ذریعہ آمدن نجی سکول تھے جو طالبان بند کرا رہے تھے۔ چنانچہ اس نے اپنے والد کا کاروبار بچانے کے لیے طالبان کے خلاف بولنا شروع کیا اور اسے بچیوں کی تعلیم کے نوبل کاز کے ساتھ جوڑ دیا حالانکہ یہ اس کا ذاتی اور کاروباری مسئلہ تھا۔
اس طرح کی کہانیاں گھڑ کر یہ لوگ ملالہ کے خلاف زہر اگلنے میں لگے رہتے تھے۔ لیکن ملالہ کا کشمیر پر بیان آتے ہی یہ لوگ اپنا سارہ دکھ بھول گئے اور ملالہ راتوں رات ان کے لیے ایک حقیقی ہیرو اور پاکستان کی عظیم بیٹی بن گئی۔دوسری طرف وہ لوگ تھے جنہوں نے گولی لگنے کے بعد ملالہ کو ایک ہیرو اور زندگی سے بڑا کردار بنا کر پیش کیا تھا۔ملالہ نے جو نوبل پرائز ایک بھارتی کے ساتھ شئیر کیا تھا اس کو انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور دوستی کی طرف ایک بڑی پیش رفت قرار دیا تھا۔
ملالہ کے کشمیر بیان کے بعد ان لوگوں نے ملالہ کی شخصیت کو چھوٹا بنا کر دکھانے کے لیے پاپڑ بیلنے شروع کر دئیے۔ان کا خیال ہے کہ ملالہ در اصل ایک انتہائی نا پختہ ذہن لڑکی ہے۔ کشمیر کے سوال پر وہ حقائق سے بالکل نابلد ہے۔کشمیر پر بیان اس کی جہالت کا اظہار ہے۔وہ سخت قسم کے تضادات کا شکار ہے۔ ایک طرف تو وہ طالبان کی مخالفت کرتی ہے اور دوسری طرف وہ کشمیر میں ان لوگوں کی حمایت کرتی ہے جو طالبان کے دوست اور ہمدرد ہیں۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ ملالہ کو نعام دیکر نوبل کمیٹی نے شدید غلطی کی ہے۔ان سب ہی قسم کے لوگوں کے دلائل اور پینترے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کس قسم کے لوگ رائے عامہ کو بنانے اور بگاڑنے کے عمل میں مصروف ہیں۔ اور جب تک ایسے لوگ رائے سازی کے عمل کے اجارہ دار رہیں گے تب تک اس خطے میں کسی بڑی تبدیلی کی کتنی گنجائش ہے۔
ملالہ کو اس طر ح آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹکنے اور زمین سے اٹھا کر اسمان پر بٹھانے سے پہلے اگر اس کا بیان زرہ غور سے پڑھ لیا جاتا تو شائد اس دھنیگا مشتی کی ضرورت نہ رہتی۔اس کے بیان کا لب لباب یہ ہے کہ کشمیر سمیت دنیا کے کسی خطے میں ریاست کو عوام پر تشدد کرنے کا ا ختیار نہیں ہے۔ دوسرا کشمیریوں کے بنیادی حقوق کا احترام ہونا چاہیے۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستان ،بھارت اور کشمیریوں کا مل جل کر اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔
یہ تینوں ایسی عام اور بنیادی باتیں ہیں جس پر پاکستان و بھارت کے ارباب ا ختیار اور کشمیری عوام کافی حد تک اتفاق کرتے ہیں۔ ان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسئلہ تفصیلات میں ہے۔تفصیل میں جاتے وقت پاکستان اور بھارت کے موقف میں فرق آ جاتا ہے۔ اور یہی اصل مسئلہ ہے جس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔جس پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔یہ بات کہ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے گفت شنید کریں ہزاروں بار دھرائی جا چکی ہے۔
دنیا کا ہر قابل ذکر شخص کسی نہ کسی انداز میں کہیں نہ کہیںیہ بات کر چکا ہے۔اب ضرورت اس سے آگے بڑھنے کی ہے۔ اب ضرورت یہ بات کرنے کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے ؟ اور پاکستان اور بھارت کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر کا یہ حل ہے اور یہ دونوں اس حل پر اتفاق کریں۔
چنانچہ ملالہ نے جو کچھ کہا اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ایک بے ضرر بیان ہے۔اس بیان کی بنیاد پر اسے ہیرو بنانا یا اس کی کردار کشی کی مہم شروع کر دینا ایک غیر ضروری رد عمل ہے۔
♠