آصف جاوید
نوشہرہ ، خیر آباد پر، اٹک پُل کے قریب گذشتہ روز ایک وقعہ پیش آیا ، جس کے مطابق سادہ کپڑوں اور پرائیویٹ گاڑیوں میں سوار فوج کے دو کیپٹن کو رانگ سائیڈ تیز رفتار گاڑی چلانے پر موٹر وے پولیس نے روکا اور چالان کر نے کی کوشش کی۔
موٹروے پولیس کے ذرائع کے مطابق دو گاڑیاں نہایت تیز رفتاری سے خطرناک ڈرائیونگ کرتی ہوئی جا رہی تھیں۔ موٹر وے پولیس نے انہیں رکنے کا واضح اشارہ کیا، مگر وہ نہ رکیں۔ اس پر موٹر وے پولیس نے ان کا تعاقّب کیا۔ موٹر وے پولیس کو آگے جا کر جہانگیرہ کے مقام پر ان کی گاڑیوں کے سامنے اپنی گاڑی لا کر ان کو رکنے پر مجبور کرنا پڑا۔
دونوں نوجوانوں نے اپنی گاڑیوں سے باہر نکلتے ہی پولیس سے جھگڑنا شروع کر دیا۔ گاڑیوں میں کیپٹن قاسم اور کیپٹن دانیال نام کے دو فوجی افسر سادہ کپڑوں میں تھے۔ پولیس کے بیان کے مطابق جب تیز رفتاری کے جرم پر ان کا چالان کرنے کی کوشش کی گئی تو دونوں فوجی افسران لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے پر تُل گئے۔
کیپٹن قاسم نے نائن ایم ایم کا پستول نکال کر موٹر وے پولیس افسران پر تان لیا۔ کیپٹن دانیال نے فون پر اپنی ہائی کمانڈ کو اطلاع دی، اور مدد کے لئے فوج طلب کرلی، کچھ ہی دیر میں ایک میجر صاحب کی کمان میں فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے پچیس کے قریب جدید اسلحہ سے لیس کمانڈوز وہاں پہنچ گئے اور موٹروے پولیس کے افسران کو شدید زد و کوب کرنا شروع کردیا۔
فوجیوں کی مارپیٹ کا نشانہ بننے والے موٹروے پولیس اہلکاروں میں سب انسپکٹر عاطف خٹک، سب انسپکٹر محسن طوری، اسسٹنٹ پٹرول آفیسر جلال شاہ اور کیشیر شازیب شیر شامل ہیں۔
پولیس کے ان افسران کو مارنے پیٹنے کے بعد ایس ایس جی کمانڈوز ان پولیس افسران کو مارتے پیٹتے اپنی گاڑی میں ڈال کر اٹک قلعے میں لے گئے، جہاں ان کو مزید تشدّد کا نشانہ بنایا گیا۔ انھیں ذہنی تشدد کی غرض سے ایک گھنٹے دھوپ میں بھی کھڑا رکھا گیا، جس کے بعد انھیں چار گھنٹے تک ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔
واقعہ کی اطلاع ملنے پر موٹروے پولیس کے سنیئر اہلکاروں نے مداخلت کی، آئی جی موٹروے پولیس کی مداخلت پر زخمی پولیس اہلکاروں کو فوجی گاڑیوں میں ڈال کر واپس ان کے دفتر چھوڑوادیا گیا۔ جس کے بعد زخمی اہلکاروں کو نوشہرہ ہسپتال لے جایا گیا۔
موٹروے پولیس کے ذرائع کے مطابق دونوں فریق کے درمیان صلح صفائی کی کوشش میں شروع میں واقعہ کو دبانے کی کوشش کی گئی، مگر دو افسران کی تشویشناک حالت کے تحت مجبورا“مقدمہ درج کروانا پڑا۔ اکھوڑہ تھانے میں فوج کے اہلکاروں کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کو سِیل کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہِ تعلقات عامہ نے پاکستان موٹروے پولیس اور فوج کے دو افسران کے درمیان ہونے والے تصادم میں فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے اہل کاروں کی جانب سے پولیس پر تشدّد کی تصدیق کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ قانون کے مطابق انصاف کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے فوج و رینجرز سے متعلّق مہاجر و بلوچ زیرِ حراست ملزمان پر بہیمانہ تشدّد اور ماوارائے عدالت قتل سے متعلّق انکوائریز کے بیانات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ مگر نتائج کبھی سامنے نہیں آسکے۔
شہریوں اور پولیس کے ساتھ فوج اور رینجرز کی بدسلوکیوں کی تو سینکڑوں داستانیں موجود ہیں، مگر محض ایک پانچ سو روپے کے چالان سے بچنے کی خاطر دو احمق فوجی افسران ، اور 25 ایس ایس جی کمانڈوز کی بدمعاشی پر پردہ ڈالنے اور واقعے کو دبا کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوئی بھی کوشش ساڑھے تیرہ لاکھ ریگولر اور پیرا ملٹری فورس کا وقار داو پر لگا نے کے مترادف ثابت ہوگی۔
فوج ہمیشہ بلّی کے گُو پر مٹّی ڈالنے کی عادت کے تحت اپنی بداعمالیوں کو چھپاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی فوج کے ایک کیپٹِن کی جانب سے ڈاکٹر شازیہ کی آبروریزی کے معاملے پر مٹّی ڈال کر اپنے فوجی کیپٹن کو بچالیا تھا اور ڈاکٹر شازیہ کو کینیڈا میں پناہ حاصل کرنی پڑی تھی۔
اور جنرل کیانی نے بھی خروٹ آباد کے واقعے پر ، پردہ ڈال کر بے قصور حاملہ عورت کو رات کی تاریکی میں دفن کروادیا تھا ۔ فوج کی یہ روایت ہے کہ رائے عامہ اور عوامی جذبات کو قطعاً نظرانداز کرتے ہوئے غیرشفاف طریقے سے اپنے ملزمان بچا لیتی ہے۔
مگر یاد رہے کہ یہ واقعات فوج کے لیے ایک مستقل بدنامی کا باعث بن چکے ہیں۔ فوج ملکی آئین و قوانین سے بالا تر ادارہ نہیں ہےاور نہ ہی فوج کوئی مقدّس ادارہ ہے کہ جس کی بداعمالیوں پر بات کرنا گناہ ہے۔
پاکستان میں ملکی قوانین کا نفاذ پولیس کی ذمّہ داری ہے، پولیس پر فوج کے تشدّد سے پولیس کا مورال ڈاون کرکے ملک میں قانون کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا ہے، فوج کہاں کہاں لڑے گی؟، سرحدوں کی حفاظت کرے گی؟، آپریشن ضربِ عضب کرے گی؟، آپریشن کراچی کرے گی؟آپریشن بلوچستان کرے گی؟، یا پھر پولیس کو بے توقیر کرکے پورے پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر قانون کا نفاذ کرے گی؟
فوج کے پاس اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، سوشل میڈیا پر اس واقعہ کو بہت اہمیت مل رہی ہے۔ عوام واضح طور پر پولیس پر فوج کے تشدّد کی مذمّت میں فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ عوام میں فوج اور رینجرز کے خلاف غم و غصّہ پہلے سے موجود ہے۔
خوف کی وجہ سے عوامی ردِّ عمل سامنے کے امکانات تو واضح نہیں ہیں، مگر اتنا طے ہے کہ اگر معاشی بدحالی اور خطّے کی سیاست کی وجہ سے پاکستان میں کوئی بیرونی فوجی مداخلت ہوئی یا فوج نے اپنی پرانی عادت کے مطابق پاکستان میں مارشل لاء لگانے کی کوئی کوشش کی تو، یہی خوفزدہ اور خاموش عوام اس فوج کا وہ حال کریں گے جو ترکی کے عوام نے طیّب اردگان کو اقتدار سے ہٹانے کی فوجی کوشش پر کیا تھا۔
فوج کے خلاف نفرت کی فضاء قائم ہوچکی ہے، نفرت کی یہ آگ اگر بھڑک اٹھی تو نہ بانس رہے گا اور نہ بانسری۔ فوج کو اپنے مواخذے، اپنے احتساب اور اپنے ادارے کو آئینی اور قانونی حدود میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
اےے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقت احتساب ہے آیا
اللہ اکبر
4 Comments