لیاقت علی ایڈووکیٹ
گذشتہ چند دنوں سے کامریڈ احسان اللہ خان ’ادھر تم ادھر ہم ‘ کے حوالے سے سوشل میڈیا میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ۔کامریڈ نے آئی ۔ آے ۔رحمن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روزنامہ ’آزاد‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ کے حیات رکن کی حیثیت سے وضاحت کریں کہ بھٹو نے اپنے جلسے منعقدہ لاہور میں یہ کچھ نہیں کہا تھا اور یہ بالکل فرضی سرخی تھی ۔ان کا موقف ہے کہ اس سرخی سے بھٹو کی ذات ، سیاست اور پیپلز پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور ضرورت ہے کہ تاریخی ریکارڈ کی درستی کی خاطراس کی وضاحت کی جائے ۔
کامریڈ نے لکھا ہے کہ آپ اس رپورٹنگ ٹیم کا حصہ تھا جس نے اس جلسے کو رپورٹ کیا تھااور اس جلسے میں بھٹو نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی تھی ۔ روزنامہ ’آزاد ‘ کے اسٹاف میں شامل ہونے کی بنا پر آپ یہ بھی جانتے ہوں گے یہ سرخی روزنامہ ’آزاد‘ کے نیوز ایڈیٹر عباس اطہر کےذہن رسا کی پیدوار تھی اور مرحوم ایسی سرخیاں تراشنے کے ماہر تھے ۔
اپنی وفات سے قبل انھوں نے ایک نوجوان صحافی شہزاد اکمل گھمن کو ایک انٹر ویو میں اس سرخی کا دفاع کیا اور کہا کہ انھوں نے یہ سرخی بھٹو کی تقریر سے اخذ کی تھی( میڈیا منڈی از شہزاد اکمل گھمن) ۔ یہ ضروری نہیں کہ مقرر جو کچھ کہتا ہے اسے ہو بہو ویسا ہی لکھا جائے۔ یہ نیوز ایڈیٹر کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ اس سے کیا سرخی نکالتا ہے ۔
ویسے کیا آپ اس حقیقت سے انکار کریں گے کہ 1970کے انتخابات کے بعد بھٹو نے کچھ اسی قسم کا موقف اختیار کیا تھا جو کہ اس سرخی کا مدعا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ میں مغربی پاکستان کا منتخب نمائندہ ہوں اور مجیب الرحمان مشرقی پاکستان کا منتخب نمائندہ ہے۔ حالانکہ مغربی پاکستان نام کا کوئی صوبہ اس وقت پاکستان کے وفاق میں شامل نہیں تھا ۔
بھٹو صاحب کو صوبہ سرحد سے ایک نشست قومی اسمبلی میں ملی تھی اور وہ تھی مردان سے عبد الخالق کی جو وفاقی سیکرٹری داخلہ روئیداد خا ں کے بھائی تھے جب کہ بلوچستان سے انھیں ایک بھی نشست نہیں ملی تھی ۔وہ دو صوبوں کے نمائندہ تھے نہ کہ مغربی پاکستان کے جو کوئی صوبہ نہیں تھا۔
روزنامہ’ آزاد‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ میں دو ارکان عبداللہ ملک اور حمید اختر بھی شامل تھے اور وہ دونوں آئی ۔ائے رحمن سے سنیئر تھے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کا شمار روز نامہ’ آزاد‘ کے مالکان ‘ میں ہوتا تھا ۔
عبداللہ ملک کو فوت ہوئے ایک دہائی سے زیادہ سے عرصہ بیت چکا ہے ( 2003 )۔ سویڈن جانے سے قبل وہ اور آپ ایک ہی شہر لاہور کے باسی تھے کیا کبھی آپ نے ان سے اس بارے میں وضاحت مانگی تھی ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو ان کا اس حوالے سے جواب کیا تھا ؟اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟
حمید اختر ( متوفی اکتوبر2011)کی وفات کو زیادہ عرصہ نہیں بیتا۔ وہ اپنی وفات تک علمی فکری طور پر متحرک زندگی گذارتے رہے اور ایک معروف اردو اخبار میں کالم لکھتے تھے جس میں وہ ماضی اور حال کے سبھی واقعات پر خامہ فرسائی کیا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات تو وہ اپنی ہی لکھی ہوئی باتوں کو دوہراتے رہتے تھے ۔
ان سے آپ نے اس ضمن میں پو چھاہوتاکہ حضور اس غلطی کا ازالہ کریں اور عوام کو بتائیں کہ ’ادھر تم ، ادھر ہم ‘ کی سرخی فرضی اور جعلی تھی ۔کیا آپ نے کبھی ان سے بھی یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس سرخی کی وضاحت کریں ۔عباس اطہر جو اس سرخی کے خالق تھے ان کی وفات (مئی 2013) تو کل کی بات ہے اور انھوں نے اس سرخی کے حوالے سے کئی انٹرویوز دیئے اور کالم بھی لکھے جن میں انھوں نے اس حوالے سے اپنا موقف بیان کیا اور اس کا بھرپور دفاع کیا ۔ ان سے آپ نے اس بابت استفسار کیوں نہ کیا ؟ پینتالیس سال بعدیہ وضاحت آپ آئی ۔ ائے رحمن ہی سے کیوں چاہتے ہیں ؟
میرے خیال میں آئی ۔ائے رحمن اور آپ کے مابین کدورت( معذرت کے ساتھ مناسب لفظ نہیں مل سکا ) کی وجوہ کچھ اور ہیں ۔ یہ سرخی اور اس بارے میں وضاحت تو محض بہانہ ہے ( میں غلط ہو سکتا ہوں )یہ سارا قصہ اقبال مسیح کے قتل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال میں پیوست ہے ۔
پاکستان میں بانڈڈ لیبر کے حوالے سے آپ کی جدو جہد سے انکار ممکن نہیں اور آپ کی خدمات قابل ستائش ہیں اور ان کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے ۔اقبال مسیح قتل کیس کے حوالے سے آپ کی تنظیم اور انسانی حقوق کمیشن کے موقف میں بہت زیادہ تضادتھا اور دونوں اس حوالے سے متحارب تھے ۔
آپ اقبال مسیح کو ’بچہ ‘ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اسے کارپٹ مافیا نے قتل کروادیا ہے جب کہ کمیشن اس کو ’بچہ ‘ تسلیم کرنے سے انکاری تھا اور اسے تھیلیسیما کا مریض قرار دیتا تھا ۔کمیشن کا یہ بھی موقف تھا کہ اس کا قتل کارپٹ مافیا کی کار ستانی نہیں بلکہ ایک مقامی جھگڑے کا نتیجہ ہے ۔
یہ دونوں تنظیموں کی مفادات کی لڑائی تھی جس میں نظریات کا سہارا لیا جارہا تھا ۔ میرے خیال میں یہ نظریاتی سے زیادہ فنڈنگ کا جھگڑا تھا ۔ اگر اقبال مسیح کو ’بچہ ‘ ثابت کر دیا جاتا تو آپ کی تنظیم کے لئے بین الاقوامی ڈونرز ایجنسیوں سے بھاری مقدار میں فنڈنگ ملنے کے امکانات بڑھ جاتے اور اگر اس کو تھیلیسیما کا مریض مان لیا جاتا تو کمیشن کا پلڑا بھاری ہوجاتا اور وہ ڈونرز ایجنسیوں سے زیادہ فنڈ نگ بٹورنے میں کامیاب ہوجاتا۔
ویسے بانڈڈ لیبر یشن فرنٹ اور کمیشن کوئی رضاکار تنظیمیں ہیں جن سے نظریات کی پاسداری کی توقع رکھی جائے ان کا ایجنڈا تو ڈونر ڈرئیون ہے جو ڈونر ز نے کہا وہی کچھ کر دیا۔ نوکر کیہ تے نخرہ کیہ ۔ جناب خان صاحب چھوڑیں تاریخ کی درستگی کی باتیں، پاکستان میں تاریخ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور اس کی درستگی کی بات تو ویسے ہی یہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
جہاں بیٹھے ہیں وہاں بیٹھ کر اگر مثبت کنٹری بیوشن کر سکتے ہیں تو ضرور کریں ،پرانے لڑائی جھگڑوں سے باہر آجائیں اور بدلہ چکانے کا روگ نہ پالیں۔ غصہ تھوک دیں ۔ سعید احمد نامی شخص نے جو’ دھمکیاں‘ دی ہیں ان کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے والی بات ہے ۔
♦
3 Comments