منیر سامی۔ ٹورنٹو
پاکستان اور دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی اسلامی قدامت پرستی اور خصوصاً نقابوں اور برقعوں کی بڑھتی ہوئی بہار کے ساتھ لازم تھا کہ برقعے اور نقاب ہمارے رگ و پے میں سرایت کر جا ئیں۔ شاید دانشمند پاکستانی کبھی اس بات پر غور کرتے ہوں کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے نقاب پہن کر نقب کیوں لگاتے ہیں، اور ان پر پتھر برساتے ہوئے شہری بھی کیوں نقاب اوڑھ لیتے ہیں۔
جس معاشر ے میں شہری چاہے وہ قانون نافذ کرنے والوں میں سے ہوں یا عوام میں سے، جب ایک دوسرے سے منھ چھپاتے پھریں ، تو ایسے معاشرہ میں اتفاق اور محبت کی توقع عبث ہو جاتی ہے۔ یہ لکھتے لکھتے ہمیں غالب کا ایک شعر یاد آگیا، ’’رگ و پے میں جب اترے زہرِ غم تب دیکھیے کیا ہو۔۔۔ابھی تو تلخئیِ کام ودہن کی آزمائش ہے‘‘۔پاکستانی امور پر سوچتے وقت ہمیں یہ شعر اکثر یاد آتا ہے۔
پاکستان کے قیام سے اب تک وہاں کے شہریوں پر بارہا نظریہ ضرورت کے تحت حکومت کی گئی ہے۔ اگر آپ آئینی امور کے ماہر قانون داں نہیں ہیں تو شاید آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ ’نظریہ ضرورت‘ ازمنہ وسطیٰ کے ایک قانون داں ہنری ڈی بریکٹن کے نظریات پر مبنی ہے جس کے تحت کسی ریاست میں امن و امان یا استحکام نافذ کرنے کے لیئے بالائے قانون طریقے یا اختیارات استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
شاید آپ یہ جان کر اور بھی حیران ہوں کہ اس قدیم اور خفتہ نظریہ کو 1954میں زندہ کرکے ، پاکستان کے جسٹس منیر ؔ نے وہاں گورنر غلام محمد کے غیر آئینی اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیئے استعمال کیا۔ اپنے ایک اہم تاریخی فیصلے میں جسٹس منیر نے بریکٹن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’جو عمل بذاتِ خود غیر قانونی ہو، اسے ضرورت کے تحت قانونی قرار دیا جاسکتا ہے‘، (تفہیم راقم الحروف کی ہے)۔
پھر تو یہ رِیت چل پڑی، اور اس حوالے اور اس نظریہ کو پاکستان میں بار بار غیر قانونی اور غیر آیئنی اقدامات کو قانون کا لبادہ پہنانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ یو ں یہ زہر ہمارے وطن کی رگوں میں سرایت کرتا چلا گیا۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ اس کے بعد یہ نظریہ دیگر ممالک میں آمریتوں کو قائم رکھنے کے لیئے استعمال کیا گیا ،جس کی مثال گریناڈا اور نایئجیریا وغیرہ میں ملتی ہے۔
اب سے چند سال پہلے جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف ایک تاریخی فیصلے میں پاکستان میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے پاکستان میں ’نظریہ ضرورت‘ کو ایک بدی اور پاکستان کے نام پر ایک داغ قرار دیا۔ اور اس کے بعد بار بار یہ لکھا جانے لگا کہ ’پاکستان میں نظریہ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا ہے ‘۔۔ اس فیصلے کے چند سال بعد پاکستان کے ایک قانون داں’ٹیپو سلمان مخدوم‘ نے یہ پوچھا تھا کہ ’کیا نظریہ ضرورت واقعی مر چکا ہے ؟
چند ماہ پہلے پاکستان میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ پاکستان میں متوازی فوجی عدالتوں کوآئینی تحفظ دیا گیا۔ اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کے بعد سینیٹ کے چیئر مین محترم رضا ربانی ، زار و قطار روئے ۔ کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ اے ‘گریہ کناں نادان‘ آپ کو اس غیر قانونی قانون کے حق میں ووٹ نہ ڈالنے سے کس نے روکا تھا۔؟یہی سوال ان کی جماعت اور ان دیگر جماعتوں سے بھی پوچھا جاسکتا ہے جو پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے وقت آئین اور قانون شکنی کا رونا روتی ہیں۔
جب اس آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو ایک اکثریتی فیصلہ میں اس وقت کے چیف جسٹس نصیر الملک نے اس ترمیم کو قانونی قرار دیا۔ اگر اس فیصلے پر غور کیا جائے تو اس میں بھی ہمیں ’نظریہ ضروت کا مردہ‘ پسِ پردہ رقصا ں نظر آئے گا۔
پاکستان میں فوجی عدالتوں کو آئینی اور عدالتی تحفط ملنے کے بعد بہت لوگ آہ وہ زاری کر رہے تھے کہ ’ اب وکیلِ صفائی اور شہادت کے بغیر ‘ لوگوں کو پھانسی چڑھایا جائے گا‘۔ انہیں یہ طفل تسلیاں دی گیئں کہ نہیں ایسا نہیں ہوگا ، کیونکہ فوجی عدالتیں انسانی حقوق کی پاسداری کرتی ہیں۔‘۔ اس کے بعد کئی لوگوں کو فوجی عدالتوں سے موت کی سزائیں دی گیئں۔ چند کی سزائیں روک دی گئیں ، اور ان پر پھر سے کاروائی کا حکم دیا گیا ۔
اب حال ہی میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے سولہ ملزمان کے ایک مقدمہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے چیف جسٹس جمالیؔ کی سربراہی میں ایک فیصلہ میں فوجی عدالتوں کے پسِ پردہ فیصلوں کو برقرار رکھا گیا اور ان ملزمان کو سزا کی توثیق کی گئی۔ اس طرح ایک بار پھر خفتہ و مردہ نظریہٗ ضرورت پسِ پردہ حرکت میں نظر آیا ۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ نظریہ ضرورت برقعوں کے پیچھے کار فرما ہے ، اور رہے گا، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی برقعے عزت مآب منصفین کے چغوں کی صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر کسی بھی ملک میں عوام کے باہمی اور سماجی معاہدے دیانت پر مبنی نہ ہوں اور غیر پختہ ہوں ، تو ان ملکوں کے عوام پر ہمیشہ بدی پر مبنی نظریہ ہائے ضرورت کے تحت جبر کی حکمرانی جاری رہے گی۔ غالب نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ، ’’قدو گیسو میں قیس و کوہ کَن کی ٓزمائش ہے۔۔۔ جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی ٓزمائش ہے‘‘۔۔۔
♥