عظمیٰ ناصر
دس ستمبر کو ایک ا فسوسناک واقعہ پیش آیا جس نے سوشل میڈیا پر ایک شور برپا کر دیا ۔
مو ٹروے پر موٹروے پولیس اور د و فوجی افسران کی لڑائی مو ضوع بحث ہے ۔اس حوالے سے دو طرح کے موقف سامنے آرہے ہیں ایک فوج کی حمایت میں اور دوسرا موٹروے پولیس کی طرف داری میں۔
مگر اس واقعے میں یہ بالکل واضح ہے کہ فوج کی حمایت میں بو لنے والے کم ہیں۔خاص طور پر اس لڑائی کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری ہونے کے بعد فوج کے حمایتیوں میں خاصی کمی ہوئی ہے ۔اس معاملے کی شدت کو دیکھتے ہو ئے آئی ایس پی آر نے اپنا موقف جاری کیا ہے کہ موٹروے پو لیس کے افسران اور دو فوجی افسران کے درمیان جھگڑے کے معاملے پر انکو ائر ی کی جا رہی ہے اور قانون کے مطابق انصاف کیا جائے گا ۔
اس واقعہ کے بعد شک و شبہ سے بالا تر ہو کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں بنائی گئی فوج کی ساکھ کو ان کے دو افسران نے محض 500 کے چالان سے بچنے کے لیے داؤ پر لگا دیا ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے وہ یہ پیغام دینا چاہا رہے ہوں کہ اس ملک کی فوج پر اس ملک کے قانون لا گو نہیں ہوتے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف اس معاملے کو کیسے لیتے ہیں کیا وہ جنرل مشرف کے دور میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ہونے والے انتہائی شرمناک واقعہکی طرح اور جنرل کیانی کے اخروٹ آباد وا لے واقعہ کی طرح ر ائے عامہ کو نظر انداز کر کے اپنے افسران کا دفا ع کریں گے یا میرٹ پر فیصلہ کریں گے ۔
اگر جان کی اما ن پاؤں تو پاک فوج کی ساری تار یخ نا انصافیوں کے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔جس میں شاید ہی کسی فوجی افسر کو سزا دی گئی ۔ورنہ اسی ملک میں،1992 میں ٹنڈو بہاول ،حیدر آباد میں میجر ارشد جمیل نے نو ے گناہ دیہاتیوں کو ایک ذاتی جھگڑے کی وجہ سے دہشت گرد قرار دے کر مار دیا گیا تھا ۔مگر پھر بھی بلڈی سویلین نے ہمیشہ پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے اور ہمیشہ ہر میدان جنگ میں فوج کے شانہ بشانہ لڑ تے پا ئے گئے۔
اس عقیدت کے باوجود فوج اور عوام کے درمیان ایک فاصلہ رہا جو کہ شعوری طور پر پختہ لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال ہمیشہ جواب کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے ۔اس کی وجہ شاید خاکی وردی کا خوف ہے جو ایک عام شہری کے دماغ میں سرایت کر چکا ہے ۔
اس کی بڑی وجہ ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں جن کے مظالم کی نہ ختم ہونے والی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں ۔ ا س کا کچھ کریڈٹ جمہوری حکومتوں کو بھی جاتا ہے جنہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے خفیہ ایجنسیوں سے مدد حاصل کی اور فوج نے بھی محاذ پر تو جنگ لڑنے اور جیتنے کی بھر پور کو شش کی مگر عوام کے دل جیتنے میں ناکام رہے۔
وہ بلڈی سویلین کو چھڑی کے زور پر تو زندہ باد کے نعرے لگانے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے مگر اس خوف کو ختم کرنے میں ناکام رہے جو فوج اور عوام میں فاصلہ بڑھانے کی وجہ بنا۔ موٹروے پولیس کے افسران کو جس طرح اٹک قلعہ میں لے جایا گیااور جو سلوک موٹروے پولیس کے افسران کے ساتھ کیا گیا، اس سے بطور ادارہ فوج پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج اپنی سمت کا تعین کرے ماضی میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے جن سے کچھ سیکھنے کی زحمت نہیں کی گئی اوکاڑہ فارمز کی مثال موجود ہے جہاں کئی بار غریب مزارعین پر ہلہ بولا گیا جس پر کبھی کسی سیاسی اور فوجی قیادت نے فوج کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے مسائل میں اضافہ ہوا اور فوج کے ادارے پر سوالیہ نشان لگے۔
جنرل راحیل کو اب موجودہ واقعہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس پر سخت اقدامات اٹھانے چا ہیں اور ان افسران کا کھلی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہییاور قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے کہ ان کے ادارے سے وابستہ لوگ وردی کی حرمت کو جانیں اور خود کو ہر قانون اور قاعدے سے بالا تر نہ سمجھیں ۔ وہ عوام کو بلڈی سویلین نہیں پاکستانی سمجھ کر سلوک کریں جن کا دفاع ان کی ڈیو ٹی ہے ۔
5 Comments