نراجیت کا شکار، لیبیا ، دو پارلیمنٹیں اور تین حکومتیں

asaf jilaniآصف جیلانی

برطانوی پارلیمنٹ کی امور خارجہ کی سلیکٹ کمیٹی نے یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ لیبیا کی تباہی اور معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد تیل سے مالا مال ملک میں موجودہ نراجیت کے تسلط اور داعش کے قدم جمانے کے اصل مجرم برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ہیں۔ یوں ، کیمرون ایک اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کی صف میں شامل ہوگئے ہیں جنہیں عراق کی تباہ کن جنگ کاور کئی لاکھ عراقیوں کی ہلاکتوں کا مجرم قرار دیا جاتا ہے ۔ 

پارلیمنٹ کی رکنیت سے کیمرون کے استعفیٰ کے اعلان کے دو روز بعد شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011میں لیبیا میں معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے برطانیہ کی فوجی مداخلت ہر پہلو سے ناکام رہی ہے، اور اس ناکامی کا دوش ڈیوڈ کیمرون کے کندھوں پر جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی مداخلت سے پہلے ، صحیح انٹیلی جنس تجزیہ مفقود تھا، فوجی مداخلت شروع ہوتے ہی اس کے مقصد کو تبدیل کر دیا گیا اور یہ اتنی عجلت میں ہوا کہ معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کی صورت حال کیلئے کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا گیاتھا۔ 

یہ ستم ظریفی ہے کہ امور خارجہ کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور تمام اراکین ،ان 557اراکین پارلیمنٹ میں شامل تھے جنہوں نے لیبیا میں فوجی مداخلت کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ صرف 13اراکین پارلیمنٹ نے مداخلت کی مخالفت کی تھی جن میں لیبر پارٹی کے موجودہ سربراہ جیریمی کوربن بھی شامل تھے۔ 

بہر حال پارلیمانی کمیٹی کا اب کہنا ہے کہ بن غازی پر حملے اور شہریوں کے قتل عام کے بارے میں معمر قذافی پر الزام ، مبالغہ پر مبنی تھا۔ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بن غازی کے شہریوں کے دفاع کے لیے فوجی مداخلت کا مقصد، مداخلت کے دوران تبدیل کردیا گیا اور مشن ، معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کا قرار دیا گیا، جب کہ بن غازی کے شہریوں کے دفاع کا مقصد مارچ 2011میں چوبیس گھنٹوں میں حاصل ہو گیا تھا۔

لیکن کیمرون نے قذافی کے خاتمے کے لیے تباہ کن آپریشن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور قذافی کی ہلاکت کے بعد کیمرون اور فرانس کے صدر سارکوزی ، فاتحوں کی طرح بن غازی گئے لیکن انہوں نے لیبیا میں خانہ جنگی اور نراجیت کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ فوجی مداخلت کے دوران برطانیہ اور فرانس نے لیبیا میں اس قدر اسلحہ تقسیم کیا تھا کہ اس اسلحہ کے بل پر ہر علاقہ میں مسلح گروپ منظم ہوگئے۔

اس وقت عالم یہ ہے کہ ملک میں 1700مسلح گروپ ہیں جو اپنی من مانی کاروائی کر رہے ہیں ۔ برطانیہ اور فرانس کی قیادت میں بین الاقوامی فوجی مداخلت کے بعد لیبیا اس قدر لا قانونیت کا شکار ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اب مغربی طاقتوں کو سخت تشویش ہے کہ اس لا قانونیت کے نتیجہ میں داعش نے نہ صرف لیبیا میں بلکہ پورے شمالی افریقہ میں قدم جما لیے ہیں۔ لیبیا ایسا ملک اس وقت کرہ ارض پر نہیں ملتا جہاں ، دو متحارب پارلیمنٹیں ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف، تین حکومتیں ہیں جن میں اس وقت جنگ تیل کے کنووں اور تیل کی بندرگاہوں پر قبضہ کے لئے جاری ہے۔

تیل سے مالا مال لیبیا ، ایک زمانہ میں افریقہ کا خوشحال ترین ملک تھاجہاں عام آدمی کو مفت تعلیم سے لے کرمفت صحت تک بے شمار سہولتیں حاصل تھیں اور عوام کا معیار زندگی یورپ کے کئی ملکوں سے بلند تھا ، اب تیل کی پیداوار اور برآمد کم و بیش بند ہوگئی ہے، معیشت ٹھپ پڑ گئی ہے جس کی وجہ سے سنگین مالی بحران کا سامنا ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ تو کہا گیا ہے کہ لیبیا میں فوجی مداخلت کے عین دوران معمر قذافی کو ہٹانے کا مشن تبدیل کیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مشن عین وقت پر تبدیل نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا منصوبہ بہت پہلے تیار کر لیا گیا تھا۔ اب یہ بات صاف صاف سامنے آگئی ہے کہ مغربی طاقتوں نے 2011کی شورش کی آڑ میں ، معمر قذافی کو اقتدار سے اس لئے ہٹا نے کا فیصلہ کیا تھا ۔

کیونکہ لیبیا کے سربراہ نے افریقہ کے مرکزی بنک کے قیام اور افریقی کرنسی رائج کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا تھااور اس پر بہت جلد عمل درآمد ہونے والا تھا، جس کے نتیجہ میں سب سے کاری ضرب امریکی معیشت اور امریکی ڈالر پر پڑتی۔منصوبہ کے تحت ، مجوزہ افریقہ کرنسی ، دینار کی بنیاد سونے پر ہوتی ، معمر قذافی نے اس منصوبہ کے لئے 143ٹن سونا جمع کر لیا تھا۔ بلا شبہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی افریقی دینار کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ 

پھر معمر قذافی نے فیصلہ کیا تھا کہ لیبیا کا تیل امریکی ڈالر کے بجائے افریقہ کی مجوزہ کرنسی دینار میں فروخت کیا جائے گا۔ افریقی دینار کے رائج ہونے کے بعد تیل پیدا کرنے والے افریقہ کے دوسرے ممالک بھی اپنا تیل دینار میں فروخت کرتے۔ یہ صورت حال امریکا اور مغربی طاقتوں کی معیشت کے لئے مہلک ثابت ہوتی ، یہی وجہ ہے کہ معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور امریکا اور مغربی اتحادیوں نے ثابت کر دیا کہ جو رہنما بھی ، ان کے سیاسی ، فوجی اور اقتصادی چنگل سے نکلنے کی کوشش کرے گا اس کا حشر صدام حسین اور معمر قذافی ایسا ہوگا۔

عراق میں صدام حسین کے خاتمہ کے بعد تو امریکا اور اس کے اتحادی تیل کی دولت پر شب خون مارنے میں کامیاب ہوگئے لیکن لیبیا میں تین متحارب حکومتوں ، بے شمار مسلح گروپس اورداعش کے قدم جمانے کی وجہ سے ابھی تک مغربی طاقتیں ، تیل کی دولت پر قبضہ جمانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ 

Comments are closed.