آصف جاوید
جنوبی پنجاب میں سرائیکی خطّے کی بدحالی اور پنجاب کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کا ذکر میں اپنے مضمون “یونائیٹڈ اسٹیٹس آف پاکستان ” میں جان بوجھ کر گول کرگیا تھا۔ کیونکہ میں مشاہدہ کرنا چاہتا تھا کہ خود پنجابی اہلِ فکر و دانش اور عام پبلک کا سرائیکیوں کے بارے میں کیا رویّہ اور احساس ہے؟ ۔
میرے سوشل میڈیا پیج “ضمیر کی آواز” پر اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد عام پنجابی قارئین کی طرف سے جہاں مجھے حسبِ معمول بڑی نفرت کے ساتھ گالیوں سے نوازا گیا، وہاں کافی تعداد میں پنجابی باشعور دوستوں نے اس بات کا اثبات اور احساس بھی کیا کہ واقعی پنجاب اور پنجابی مقتدرہ کی زیادتیوں کی وجہ سے آج حالات اس ڈگر پر پہنچ گئے ہیں کہ پنجاب کے سرائیکی اور باقی تین صوبوں کے عوام پنجاب کی غلامی سے آزاد ہونا اور افواجِ پاکستان کے بوجھ سے نجات حاصل کر نا چاہتے ہیں ۔
تاکہ بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے بعد وہ سب مل جل کر اپنی معاشی خوشحالی کی جدوجہد کو آزادانہ طور پر انجام دے سکیں۔ اپنی آمدنی (قومی نہیں بلکہ اپنی آزاد ریاست کی آمدنی) کو اپنی اپنی آزاد ریاستوں کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرسکیں۔ اپنی پالیسیاں بنانے میں آزاد ہوں، اپنے وسائل اور اپنی دولت کے بل بوتے پر ترقّی کرسکیں، اور اپنی عوام کی صلاحیتوں کے استعمال کے ساتھ آگے کی جانب بڑھیں۔
سادہ زبان میں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف اور صرف عوام ترقّی کریں، ہر ریاست اور پورے وفاق کا انفراسٹرکچر ترقّی کرے ، کنفیڈریشن یا فیڈریشن ترقّی کرے، مگر یہ عسکری ریاست ترقّی نہ کرے ، فوج اپنی آئینی و قانونی حد میں رہ کر سول جمہوری وفاق کے تابع رہے۔ دنیا کی تیسری بڑی فوج سے دنیا کی دوسری بڑی فوج بننے کی کوشش نہ کرے۔ سارے قومی وسائل اور قومی ترجیحات کو جنگی جنون اور عوامی فلاحی ریاست کو خطّے کی سب سے بڑی عسکری فلاحی ریاست بنانے میں صرف نہ کرے۔ عالم اسلام کا قلعہ بننے اور پورے ایشیاء کی فوجی سپر پاور بننے کی کوشش نہ کرے۔
ضروری ہے کہ قوم کو درپیش مسائل کا ادراک و احساس کیا جائے۔ اور پڑوسی ممالک کے ساتھ امن و بھائی چارے کے ساتھ روابط اور تعلّقات قائم کر نا سیکھا جائے ، اپنے وسائل اور اپنی مہارتیں ایک دوسرے کے ساتھ با عزّت طور پر شیئر کر نا سیکھی جائیں۔ ، اپنے وسائل اور اپنی مہارتوں سے حاصل ہونے والی امدنی کو اپنے خطّے (اپنی آزاد ریاست) کی خوشحالی کے لئے اور اپنی عوام کی خوشحالی کے لئے خرچ کیا جائے ۔ قومی آمدنی سے ٹینک، توپیں، بم اور تباہی کا سامان نہ خریدے جائیں ۔
پڑوسیوں سے امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہنے اور ترقّی کرنے کا ہنر سیکھا جائے ۔ اپنے عوام کو پینے کا صاف پانی، تعلیم، ہنر، روزگار، صحت، بنیادی شہری سہولتیں، امن و امان اور ترقی مہیّا کی جائے ۔ کرپشن کا خاتمہ اور سماجی انصاف کا بول بالا کیا جائے۔
ستّر 70 سال گزرنے کے بعد ہم دنیا کی تیسری بڑی فوج اور ایٹمی طاقت ہونے کے دعویدار، عالم اسلام کا قلعہ ہونے کے زعم اور نرگسیت میں مبتلا مریض اپنی 80 فیصد آبادی کو آج تک پینے کا صاف پانی ، اپنے 40 سے 50 فیصد بچّوں کو مفت سرکاری تعلیم، اپنی 70 فیصد آبادی کو مفت علاج معالجہ کی سہولت اور پبلک ہیلتھ کی سرکاری سہولتیں نہیں دے سکے۔
ستر 70 سال سے ہم اس قابل نہیں ہوسکے کہ اپنی عوام کو جدید ٹاون پلاننگ کے تحت نئی بستیاں آباد کرکے شہری سہولتوں سے مزیّن چھوٹے اور درمیانہ رہائشی پلاٹوں کے لئے زمین اور بنکوں سے کم شرح سود پر مکانات کی تعمیر کے لئے قرض دے سکیں۔ ہم صرف کچّی بستیاں بسا کر اور بعد میں آنے والے الیکشن میں اپنی جیت کو پکّی کرنے کی خاطر ان بے ہنگم کچّی آبادیوں کو ریگولرآئز کرکے پورے پاکستان کو کچّی بستیوں کے جہنّم میں ہی تبدیل کرسکتے ہیں۔ اور دنیا میں کچّی آبادیوں والے عظیم ترین ملک کا اعزاز حاصل کرنے کی تگ و دو میں دل و جان سے کوششیں کر سکتے ہیں۔
مگر عقل و شعور سے کام لے کر عوام کو شہری سہولتوں کی منظّم فراہمی اور منظّم آبادیوں کو قائم نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں پورے ملک کی پرائم لینڈ پر افواج پاکستان کا قبضہ ہے، جہاں انہیں اپنے افسران کے لئے جدیدترین ٹاون پلاننگ اور دنیا کی معیاری رہائشی سہولتوں کے ذریعے ڈی ایچ اے نام کے اعلی اور معزّز طبقاتی شہر قائم کرنے ہوتے ہیں۔ تاکہ مالک اور رعایا کا فرق واضح رہ سکے ۔
پورے پاکستان کے ہر شہر کی پرائم لینڈ پر فوج کے اپنے شہر قائم ہیں ۔ فوج کے اپنے تعلیمی ادارے ہیں، اپنے اسپتال ہیں ، اپنے پٹرول پمپ، اپنے شادی ہال، اپنے واٹر ریسروائزرز اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہیں ، فوج کے اپنے گالف کورسز، اپنے کھیل کے میدان، اپنے کلب اوراپنے کاروباری دارے ہیں۔ فوج کے باقاعدہ اقرار شدہ 52 بڑے کاروباری اداروں کی فہرست بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں طلب کرنے پر جمع کرائی جاچکی ہے۔ ۔
قارئین اکرام یہ فوج کی اپنی عسکری ریاست ہے۔ جہاں عام آدمی کا داخلہ ممنوع ہے۔ فوج میں داخل ہوتے وقت فوجی تعلّق (کسی بھی قسم کی رشتہ داری کا اظہار ) فوج میں داخلے کا ایک ترجیحی طریقہ کار ہے۔ بس اس مرحلے پر میرا اہلِ دانش سے یہ سوال ہے کہ یہ ریاست میں ریاست نہیں تو پھر کیا ہے؟ ۔ وما علینا الالبلاغ
♦
4 Comments