جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں وزیر اعظم نواز شریف نیویارک کی طرف رواں دواں ہیں۔ان کے اس دورہ امریکہ اور اقوام متحدہ کے دوران کشمیر ایک اہم موضوع رہے گا۔اور کشمیر ہی ان کے اس سفر سے پہلے کے اخری دو دنوں میں ایک اہم موضوع رہا ہے۔
وزیر اعظم نے اس دورے پر روانگی سے پہلے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کا دورہ کیا ہے۔جن لوگوں سے وزیر اعظم نے یہاں ملاقات کی ان میں سے بیشتر ہمہ وقت اسلام باد میں ہی پائے جاتے ہیں۔چنانچہ وزیر اعظم کا مظفرآباد جانا، اور ان لوگوں کو اسلام آباد سے مظفرآباد بلا کر ملنے کا عمل بڑا اہم اور علامتی ہے۔
یہاں انہوں نے دو قسم کے لوگوں سے مسئلہ کشمیر پر مشاورت کی۔ایک وہ لوگ ہیں جو ان کی پارٹی کے لوگ ہیں اور اس وقت آزاد کشمیر کے منتخب نمائندے ہیں،دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا تعلق حریت کانفرنس سے ہے اور جن کا دعویٰ ہے کہ وہ جموں وکشمیر یعنی بھارت کی طرف والی کشمیر کے نمائندہ ہیں۔
ان دونوں قسم کے لوگوں کی مسئلہ کشمیر پررائے کو سادہ اور عوامی زبان میں اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر یہ ہے کہ بھارت نے 1947میں ریاست کے ایک حصے پر جبراً قبضہ کر لیا تھا۔اور مسئلہ کشمیر کا حل یہ ہے کہ بھارت یہ علاقے خالی کر دے۔یہاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے لوگوں سے پو چھا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جا نا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔
چونکہ ریاست میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس لیے یہ لوگ پاکستان کے حق میں رائے دیں گے۔اور اس طرح کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔ان لوگوں کے اس لگے بندھے اور دیرینہ موقف کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم کو کیا مشورہ دیا ہو گا۔یہی کہ وزیراعظم صاحب اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھائیں اور یہ مطالبہ کریں کے اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل کرائے اور کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت یعنی پاکستان کے ساتھ جانے کا اختیار دیا جائے۔
ان لوگوں کے خلوص پر کوئی کلام نہیں، مگر جہاں تک ان کی دانش کی بات ہے یہ تو یہ لوگ ہیپی اینڈنگ والے لوگ ہیں اور مسئلہ کشمیر کو ستر سالہ پرانی عینک سے دیکھتے ہیں۔ان ستر برسوں میں اتنی اتھل پتھل ہوئی کہ انسان ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے۔اس دوران سوویت یونین جیسی عظیم سپر پور ٹوٹی۔ سرد جنگ کی شکل بدلی۔ کئی ریاستیں بنیں، کئی بگڑیں۔ دنیا میں نئی صف بندیاں ہوئیں۔گویا ہمارے ارد گرد سب کچھ بدل گیا۔اگر کچھ نہیں بدلاتو وہ یہ عینک تھی، جو ہم نے ستر سال پہلے پہنی تھی اور اس کو آئندہ ستر سال تک پہنے رکھنے پر بضد ہیں۔
ان اصحاب دانش سے ملنے سے پہلے وزیراعظم نے آرمی چیف سے بھی ملاقات کی۔آرمی چیف نے ان کو وہی رائے دی جس کا اظہار وہ وقتا فوقتا کرتے رہتے ہیں۔ اس مسئلے پر آرمی چیف کی رائے وہی ہے جو مذکورہ بالا افراد کی ہے۔یہ جو لوگ ہیں ان میں کچھ اور لوگوں کو ملا کر آپ اسٹبلشمنٹ کہتے ہیں۔جس میں سول اور فوجی دونوں شامل ہیں۔
ان لوگوں کا یہ موقف ہے کہ رائے شماری ہی مسئلہ کشمیر کا واحد اور قابل عمل حل ہے۔اس لیے ہم اس موقف میں کوئی تبدیلی لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ میرے نزدیک یہ بات منطقی اور تاریخی دونوں اعتبار سے غلط ہے۔منطقی عتبار سے یہ بات اس لیے غلط ہے کہ اگر یہ کوئی قابل عمل حل ہوتا تو ستر سال میں اس پر عمل ہوچکا ہوتا۔ستر سال کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا۔
منطق تو یہ کہتی ہے کہ آپ نے اس حل کے پیچھے ستر سال ضائع کر دئیے ۔آپ ستر سال تک اس فارمولے کے تحت مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہے ہیں لہذا اس حل پر مزید اصرار کوئی دانش مندی نہیں۔
تاریخی طور پر یہ بات اس لیے غلط ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور فوجی رہنما وقتا فوقتا کشمیر پر اپنا موقف بدلتے رہے ہیں۔حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی ریاستوں اور کے حوالے سے پالیسی مسلسل بدلتی رہی۔ایک وقت میں انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ معاہدہ قائمہ پر دستخط کر کے ریاست کی خود مختار حیثیت تسلیم کی۔اس طرح جنرل ایوب خان نے بھارت کے ساتھ کنفیڈریشن تک کی تجویز پیش کی۔
ذولفقار علی بھٹو نے شملہ میں اندرا گاندھی کے ساتھ تقسیم کشمیر کے حل پر اتفاق کر لیا تھا۔اور حال ہی میں صدر پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولہ پیش کر کہ اسٹبلشمنٹ کے روایتی موقف سے ہٹ کر ایک بالکل ہی مختلف اور ٓاوٹ آف باکس حل تجویز کیا تھا۔لہذا کشمیر کے مسئلے پر ایک ہی حل پر اصرار کوئی مقدس بات نہیں۔اور نہ ہی اس میں کوئی بڑی دانشمندی ہے۔
اس کے بر عکس ایک ہی حل پر اصرار در اصل سٹیٹس کوہ برقراررکھنے اور مسئلہ حل نہ کرنے کی نیت کا اظہار ہے۔
♦
One Comment