فرحت قاضی
آج یہ خیال ہمارے لئے انتہائی عجیب ہے
کہ ہمارے آباؤاجداد
چاند،سورج،جانوروں اور پتھر کے بنے بتوں کو پوجتے تھے
آج کا انسان چند برس پہلے کے انسان سے ترقی اور سوجھ بوجھ کے لحاظ سے قدرے آگے ہے اسی طرح آئندہ کا انسان آج کے انسان سے بہتر ہوگا آپ نے سفید ریش بوڑھوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ جب وہ لڑکے یا جوان تھے تو ان کو کئی چیزوں کا سرے سے علم ہی نہیں تھا جبکہ آج ایک بچہ بھی انٹر نیٹ کھول کر ایسے محیرالعقول انکشافات کرسکتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
عمر رسیدہ انسان کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے۔
اس انسانی ارتقاء میں ایجادات ودریافت کا بنیادی کردار رہا ہے۔
انسان قبائلی،غلام داری ،زرعی جاگیرداری اور جاگیردارانہ سے ہوتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام دور میں سانس لے رہا ہے جاگیردارانہ دور میں سماج دو بڑے طبقات جاگیردار اور کھیت مزدور پر مشتمل تھا۔
جاگیردار کے پاس وسیع وعریض زمین ہوتی تھی اور کھیت مزدور اس پر ہل چلاکر اس کی کوکھ سے غلہ اگاتا تھا اس طرح جاگیردار اور کھیت مزدور کا مالک اور نوکر کا رشتہ تھا چونکہ کاشتکار کے پاس اپنے دوہاتھوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا لہٰذا معاشی طور پر وہ ہمیشہ دست نگر رہتا تھا ان دو طبقوں کے مابین رشتہ کی کیا نوعیت تھی اس کا پتہ ہمیں اس نظام سے ورثے میں ملنے والے مذاہب و عقائد،رسوم ورواجات،توہمات وتمدن،تصورات ونظریات اور رہن سہن اور ثقافت سے ملتا ہے۔
جاگیردار کے پاس چونکہ پیسہ اور جائیداد تھی لامحالہ اسے دولت کی چوری کا ہی خدشہ نہیں رہتا ہوگا بلکہ اپنی جان کا بھی ڈر ہوتا ہوگا اسی طرح اس میں کھیت مزدور سے زیادہ سے زیادہ محنت اور کم سے کم معاوضہ دینے کی خواہش بھی ہوتی ہوگی تو اپنے خزانے میں اضافہ کرنے کی حرص اسے اپنے ہمسایہ قبائل اور ممالک پر حملے پر اکساتی ہوگی اور ان سب کے لئے وہ کیا منصوبہ بندی کرتا ہوگا یہ حقیقت اس زمانے کی تاریخ اور قصے کہانیوں سے ظاہر ہوتی ہے ۔
ان کہانیوں میں مالک کی جان اور مال بچاتے ہوئے مارا جانے والا چوکیدار فرض شناس،دیانت دار اور وفادار کہلاتا ہے اور وفادار اور وفاداری کی بے حد تعریف کی گئی ہے اسی طرح جنگ میں اپنی جان کی پروا نہ کرنے والے سپاہی کو نڈر اور بہادر بتایا گیا ہے اور اس کو ایک اعلیٰ صفت بھی قرار دیا گیا ہے نیزہ بازی اور تلوار زنی کے ماہر کو بھی قدر و منزلت سے دیکھا گیا ہے رحم، سخاوت، فیاضی اور معاف کرنے کو اعلیٰ صفات قرار دیا گیا ہے البتہ ان میں لالچ اور حرص کو نہایت برا بنا کر پیش کیا گیا ہے ایک انسان کے قتل کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا ایک سے زائد عورتوں سے شادی کرنا عام تھا مگر عورت کو نظر بد اور گھورنے کو بداخلاقی سمجھا گیا ہے چنانچہ ان داستانوں کے ذریعہ نوجوان نسل کو کچھ قدروں اور افعال پر آمادہ اور کچھ سے منع کیا گیا ہے باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جن کی تعریف وستائش کی گئی ہے ان سے مالکان کو بالواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اور جن سے روکا گیا ہے تو ان سے نقصان ہوتا تھا جبکہ بعض صفات مالک کی ذات اور شخصیت تک ہی محدود ہیں سخاوت اور فیاضی مالک ہی کرسکتا ہے اور اس عمل سے اس کا سماج میں نہ فقط قد بلند ہوتا تھا بلکہ اس کے جان و مال کی حفاظت بھی ہوجاتی تھی۔
بلاشبہ ان ادوار میں انصاف اور حقوق کے تصورات بھی دئیے گئے جن کا سلسلہ گھر اور ہمسایہ سے ہوتا ہوا حاکم وقت تک جا پہنچتا ہے تاہم ان کے ذریعہ مزدور طبقہ کے استحصال پر استواراس نظام کو مستحکم بھی کیا جاتا تھا جب اس تمام مواد کو اکٹھا کیا جاتا ہے تو ہمارے سامنے اس زمانے کی ایک ایسی تصویر سامنے آجاتی ہے کہ جس میں معاشرے کی تمام سرگرمیوں کا فائدہ توبالادست طبقہ اٹھا رہا ہے اور تمام برائیوں کا منبع غریب اور محنت کش طبقہ کو ٹھہرایا گیا ہے یہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے یہ جاننے کے لئے اس کا ایک سرسری جائزہ پیش خدمت ہے۔
زمین کے دو الگ الگ قطعات میں ایک دوسرے سے قدرے مختلف عقائد،مذاہب،رسومات ، رواجات اورآداب پائے جاتے ہیں ہند ایک زرخیز علاقہ تھا لہٰذا اس سرزمین پربدھ مت اور ہندو مت پیدا ہوئے چونکہ یہاں راجواڑے اور ہر راجہ اپنی قلمرو میں بااختیار تھا لہٰذا ایک سے زائد دیوتاؤں کے تصور نے جنم لیا جاگیرداری ابھی منظم شکل میں موجود نہیں تھی اسی لئے دیویوں کا وجود بھی تسلیم کیا گیا تھا زمین زرخیز اورزراعت ذریعہ روزگار تھا تو گوتم بدھ کے اہنسا کی ترویج و اشاعت کے لئے بھی میدان صاف تھا ان حالات اور ماحول نے جن مذاہب اور عقائد کو پالا پوسا ان میں ناچ گانا بھی ان کا ایک رکن ہی سمجھاگیا جاگیردارانہ طبقاتی نظام کو تقویت پہنچانے کے لئے انسان ذات پات میں بٹا ہوا تھا ۔
اس کے برعکس دنیا کے وہ پہاڑی اور ریگستانی علاقے جہاں زرعی پیداوار کمزور ہوتی تھی تو قبیلے اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کیلئے باہم برسر پیکار رہا کرتے تھے چنانچہ عوام کو ہمہ وقت حالت جنگ میں رکھنا قبیلوں کے سرداروں کی مجبوری ہوتی تھی جس کے لئے وہ ایسے کھیلوں کو علاقے میں فروغ دیتے تھے جن سے عوام کی فوجی تعلیم و تربیت ہوتی رہتی تھی فوجی زندگی کو پرکشش بناکر پیش کیا جاتا تھا جنگ میں زیادہ سے زیادہ قتل کرنے والے سپاہی اور افسر کو ہیرو بنادیا جاتا تھا۔
اس تعلیم و تربیت کو گھروں خصوصاً غریب کنبوں تک وسعت دی گئی تھی چنانچہ شوہر کسی بات پر جورو کی پٹائی کررہا ہے بڑا بھائی چھوٹے کوگالیوں ،مکوں اور لاتوں سے انسانیت سکھا رہا ہے جبکہ مسائل اور غربت جلتی پر تیل کا کام دیتے تھے اس طرح ہر غریب خاندان کا مکان میدان جنگ بنا رہنے سے نوجوانوں کی فوجی تربیت ہوتی رہتی تھی ۔
رعایا میں ہمسایہ قبائل اور ریاستوں کی طرف سے حملے کا خوف پیدا کیا جاتا تھا ان کو کسی پرانی ہلاکت خیز جنگ کی یاد دلاکر انتقام کے جذبات ترو تازہ رکھے جاتے تھے رنگ،نسل، عقیدہ،مذہب اور علاقہ کے اختلافات کو ابھارا جاتا تھادلوں میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری جاتی تھی خوف ، نفرت اور بدلے کی اس آگ کو سداجلا کر رکھا جاتا تھا جنگ میں بے جگری سے لڑنے والوں کی یاد بھی وقتاً فوقتاً تازہ کی جاتی تھی جس سے زخم ہرے رہتے تھے واقعات میں مبالغہ آرائی عام تھی جس نے دشمن کے جتنے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہوتا تھا اسے اتنا ہی زیادہ بہادر اور ہیرو بناکر پیش کیا جاتا تھا ان میں احساس تفخر پیدا کرکے ان کو دیوتاؤں کی اولاد قرار دینا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہوتا تھااس تمام پرچار کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ایک سپاہی کھوپڑیوں کے مینار لگادیتا تھا اور اس پر پاؤں رکھ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتا اور ہم عصروں پر دھاک بٹھاتا تھا لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے واقعات اس زمانے میں عظیم جنگوں کے بہانے اور عذر بن یا بنا لئے جاتے تھے حالانکہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہوتا تھا ۔
ایک علاقہ فتح کرنے کے بعد مفتوح قبیلہ یا قوم کو معاف کردینا اس کے بادشاہ اور سپاہیوں کی رہائی بھی اسی جنگی حکمت عملی کا حصہ اور سیاسی اور جنگی چال ہوتی تھی مگر مورخ حملہ آور کا قد وقامت بلند کرنے کے لئے اسے اس کے اخلاق اور اعلیٰ صفات پر معمول کردیتا تھا اس طرح یہ بھی بھلا دیا جاتا کہ حملہ کرنا مناسب عمل ہے یا اس کی مذمت ہونا چاہئے چونکہ عام شہری ظلم سے نفرت کرتا ہے اپنے مذہب یا خدا کے بارے میں کچھ برا سننے کا روادار نہیں ہوتا ہے اس لئے جس پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا جاتا تھا تو اس پر پہلے الزامات لگاکر اسے ہر طرح سے ظالم،برا اور اللہ کا دشمن ثابت کیا جاتا تھا البتہ اپنی فوج کو یہ احساس دلایا جاتا کہ وہ خدائی فوج ہے اوران کے سامنے ایک اعلیٰ وارفع مقصد ہے جس سے ان کا خدا یا دیوتا بھی خوش ہوگا اس طرح لوٹ مار کا تصور پس پشت چلا جاتا تھا۔
قربانی اور گوشت خوری سے بھی جنگی صورت حال کو تقویت ملتی رہتی تھی ایک انسان مرغی ذبح کرتا ہے تو اس کے لئے بکری کے گلے پر چھری پھرانا دشوار امر نہیں رہتا ہے اسی طرح یہ انسان گائے اور بھینس کو بھی حلا ل کرسکتا ہے اور جو بچہ اور جوان یہ دیکھتا رہتاہے تو اس کے دل میں جانوروں کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ اسے روزمرہ کا معمول سمجھ کر ذہنی طور پر قبول کرلیتا ہے اور مزے لیکر ان کا گوشت کھاتا ہے چنانچہ اگر ایسا ایک شخص فوج میں بھرتی ہوتا اور میدان جنگ میں اپنی تلوار کے جوہر دکھاتا ہے تو اس میں اچھنبے والی کوئی بات نہیں ہوگی۔
یہ صفات جانوروں میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں گوشت خور جانور حملہ آور اور بے رحم ہوتا ہے وہ دیگر جانوروں کی تاک میں رہتا ہے اس کے برعکس گھاس اور پھل کھانے والے جانوروں میں جارحیت کا عنصر نسبتاً کم ہوتا ہے جبکہ انسان گوشت خوری کا عادی ہو جنگ کو تقدس کا درجہ دیا گیا ہو اس کا دل و ذہن نفرت اور انتقام سے بھی لبریز رہتا ہو تو اس کے بے جگری سے لڑنے میں پھر کوئی چیز مانع نہیں رہتی ہے ۔
اس زمانے میں مخصوص کھیلوں سے بھی عسکریت پسندی کو تقویت پہنچائی جاتی تھی کامیاب ٹیم کے کھلاڑیوں کو انعامات اور اکرامات سے نوازا جاتا تھا تعریف کے ڈونگرے برسائے جاتے تھے کھیلوں سے نوجوانوں کی جسمانی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے مگر ایسے کھیل بھی ہیں جن کے کھیلنے سے انسان میں لالچ پیدا ہوتی ہے اور ایسے بھی ہیں جو انسانی سوجھ بوجھ میں بڑھوتری کا باعث بنتے ہیں اس لئے اس زمانے میں بھی بادشاہوں اور رعایا کے جہاں مشترکہ تو وہاں الگ الگ کھیل بھی ہوتے تھے جنگ کو بھی ایک کھیل کے طور پرہی لیا جاتا تھا سپہ سالار اور فوج کے کارنامے بڑھا چڑھا کر پیش کئے جاتے تھے شعراء کی مبالغہ آرائی نوجوانوں کو گرماتی اورمہم جوئی کی ترغیب دیتی تھی۔
یہ روزمرہ مشاہدہ ہے کہ ایک بندھا ہوا کتا ہی کاٹتا ہے چنانچہ بالادست طبقے اور حاکم وقت یہ کام محبت،نفرت اور پابندیوں سے لیتے تھے ایک انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کے قریب رہتا ہے یہ محبت جذباتی بنیادوں پر ایستادہ ہو تو پھر دور رہنا سوہان روح بن جاتا ہے جبکہ آج سے کئی برس پہلے محبت صرف اپنی ماں، باپ،بیوی اور بچوں سے ہی نہیں کی جاتی تھی بلکہ خاندان کے دور کے رشتے دار وں سے بھی والہانہ لگاؤ ہوتا تھا اس زمانے میں خاندان ایک یونٹ ہی نہیں بلکہ اس جذباتی محبت کا مرکز و محور بھی ہوتا تھا چنانچہ ماں اگر بچے کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی تھی تو بچے کی اس سے الگ تھلگ صورت حال نہیں ہوتی تھی فوتگی پر بین اور سینہ کوبی اور شادی کے موقع پر خوشی کے انتہائی اظہار سے اس رشتے کو مزید تقویت ملتی تھی۔
نفرت سے بھی یہی کام لیا جاتا تھا اگر میں اپنے دائیں ہاتھ کے ہمسایہ کو ناپسند کرتا ہوں بائیں ہاتھ والے سے سلام دعا بھی نہیں ہے سامنے والے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں ہے اور پیچھے والے کو ہمیشہ پیچھے ہی رکھتا ہوں تو میرا تمام دن اور رات بھی گھر میں قید رہ کر ہی گزرے گی چنانچہ نفرت کی وجہ سے ایک عقیدہ اور مذہب کے پیروکار دیگر انسانوں سے دور دور رہتے تھے ہر ایک اپنے کوایسا ظاہر کرتا تھا کہ وہی حق بجانب ہے اللہ اس کے ان گنت گناہوں کے باوجود بخش دے گا جبکہ اوروں کے مذہبی احکامات اور عبادات بھی ان کے کسی کام نہیں آئیں گے پشتو میں اس حوالے سے مشہور ہے۔
دہندو عبادت دے
ایک ہندو شب وروز عبادت کرتا رہے اپنا پیسہ غریب انسانوں میں پانی کی طرح بانٹتا رہے مندر کے لئے پیسہ دے بے کسوں کی خدمت میں لگا رہے القصہ وہ جتنا بھی جان مارلے یہ سب کچھ اس کے کسی کام نہیں آئے گا ۔
مسلمانوں کے حوالے سے لطائف سے اسی قسم کے خیالات کا پتہ چلتا ہے اس پرچار کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ایک مذہب کے پیروکار دوسرے کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے ان کی آبادیاں اورکاروبار تک الگ اور دوردور ہوتے تھے یہ نفرت عقیدہ اور مذہب تک ہی محدود نہیں ہوتی تھی عوام کے الگ الگ پیشے بھی نفرت اور دوری کا باعث بنتے تھے چنانچہ ایک پیشہ سے وابستہ کنبہ دوسرے کسب گروں کو نیچ سمجھتے ہوئے ان سے زیادہ میل ملاپ نہیں رکھتا تھا اس طرح اگر ہندوؤں میں ذات پات کا نظام تھا تو مسلمانوں میں پیشوں سے یہی کام لیا گیا۔
مسلمانوں اور ہندوؤں کے ایک دوسرے کے حوالے سے خیالات سے سب ہی واقف ہیں پشتون سماج میں کوئی شخص ناپسندیدہ فعل کا مرتکب ہوتا تو دوسرا کہتا
دا سہ ہندو دے
اسی طرح ہندومسلمانوں کو ملیچھ کہتا تھا ۔
اس انتہاپسندانہ محبت اور نفرت کے سبب ہر عقیدہ اور مذہب کے پیروکاروں کی سرگرمیاں اپنے ہم مذہب اور حلقہ تک سکڑی ہوتی تھیں جبکہ یہ اندھی محبت اور اندھی نفرت پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور ٹارگٹ کلنگ میں اپنے کو ظاہر کررہی ہے اس صورت حال سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں رعیت کو گھروں اور دیہات تک محدود رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی غالباً صوبہ سندھ میں ایک ایسا علاقہ بھی تھا جہاں کا باسی دریا کے پار کسی دوسری آبادی چلا جاتا اور واپس آتا تو اسے ناپاک قرار دے کر برادری سے ہی خارج کردیا جاتا تھا اس حقیقت سے اس زمانے سے ورثے میں ملنے والے توہمات بھی پردہ اٹھاتے ہیں بعض خاص دنوں اور مہینوں میں سفر سے منع کیا جاتا تھا جبکہ ایک بندہ گھر سے باہر نکلتا اور راستے میں کالی بلی نے راستہ کاٹ لیا تو سفر ملتوی کردیتا تھا بچوں کو شام کا جھٹپٹا پھیلتے ہی گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے نہیں دیا جاتا تھا جو کہ درست بھی تھا مگر لڑکوں اور نوجوانوں کو بھی جن اور بھوت سے دہشت زدہ کیا جاتا تھا ۔
محبت،نفرت اورتوہمات کے ساتھ ساتھ پابندیوں نے صدیوں تک ہمارے جاگیردارانہ معاشرے کو جکڑے رکھا اس کی ابتداء گھر اور کنبہ سے شروع ہوجاتی تھی مرد اہلیہ اور بیٹی کو گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے نہیں دیتا تھا چھوٹا بھائی بڑے اور بیٹے باپ کے سامنے کھل کر اظہار خیال نہیں کرسکتے تھے دو بڑے محو گفتگوہوتے اور ایک لڑکا آکر شریک ہونا چاہتا تو اسے آداب کے منافی سمجھا جاتا تھاعلاوہ ازیں لڑکوں اور لڑکیوں کے بال اور لباس ہی الگ الگ نہیں ہوتے تھے ان کے کام بھی اسی طرح الگ تھلگ تھے۔
لڑکی سائیکل چلا رہی ہے فٹ بال کھیل رہی ہے یا لڑکا برتن مانجھ رہا ہے اور جھاڑو دے رہا ہے تو اسے برا سمجھا جاتا تھااس حوالے سے لڑکیوں اور عورتوں پر نسبتاً زیادہ پابندیاں عائد تھیں جس کا اثر ان کی جسمانی ساخت کے ساتھ ساتھ ذہنی ترقی پر بھی ہواجبکہ عام دیہی باشندوں کے ذہنی ارتقاء کی راہ میں سو سو رکاؤٹیں کھڑی کی گئی تھیں کوئی واقعہ ہوتا تو اسے اعمال تو مظاہر فطرت کو مافوق الفطرت ہستیوں سے باندھ دیا جاتا تھا اس زمانے میں قسمت،فطری،قدرتی، معجزاتی اور جذباتی کے الفاظ کسی حادثے یا واقعے سے جوڑ دئیے جاتے تھے۔
بادشاہ بولتا تو درباری ہاتھ باندھے خاموشی سے سنتے تھے جاگیردار یا مالک کہتا تو نوکر سنتا شوہر کہتا تو بیوی سنتی چنانچہ یہ اسی رویے کا نتیجہ تھا کہ مسائل کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی ریت روایت بھی موجود نہیں تھی بلکہ گھر میں ذرا سی بات پر شوہر جورو کی درگت بنا دیتا بڑا بھائی چھوٹے کا حلیہ بگاڑ دیتا اور بھائی بہن کی پٹائی کرتا تھااسی لئے یہ کنبے مسائل میں گھرے رہتے تھے طاقت سے مسائل حل کرنے کے اس طریقے اور رویے سے گھر کی چار دیواری میدان جنگ بنی رہتی تھی چنانچہ اس طرح دیہات تازہ دم فوج کی کھیپ تیار کرنے کے کارخانے بنے رہتے تھے ۔
یہ روزمرہ مشاہدہ ہے کہ جب ایک انسان کی ایک ضرورت یا خواہش پوری ہو جاتی ہے تو دوسری سر اٹھالیتی ہے بالادست طبقہ اس کے نتائج سے بے خبر نہیں تھا اس لئے قدیم سماج میں عوام کو سادہ زندگی گزارنے کی تلقین کی جاتی تھی اورمزید کمانے کی تمنا کو حرص کانام دے کر اس سے دور رکھا جاتا تھا عوام کوامارت اور غربت کے بارے میں لاعلم رکھا جاتا تھا چنانچہ وہ اپنی قسمت بہتر بنانے کے لئے عبادات پر زور دیتے تھے پیر کے پاس جاتے یا پھر مزارات پر جاکر ان سے اولاد،محبوب اور پیسہ کے لئے دعا کرتے تھے جبکہ یہ پیر اور مزارات زیادہ تر پہاڑی اور ریگستانی علاقوں میں ہوتے تھے یا پھر ان آبادیوں میں جہاں زرعی پیداوار نہیں ہوتی تھی ۔
جاگیردارانہ نظام بھی اگرچہ کھیت مزدور کے استحصال پر استوار تھا تاہم یہ قبائلی نظام سے کئی حوالوں سے قدرے مختلف اور بہتر بھی تھا چونکہ جاگیردار ایک قطعہ زمین سے بندھ جاتا تھا تو اس پر کھیتی باڑی کا ہی آغاز نہیں ہوجاتا تھا بلکہ اس کے آس پاس ایک کے بعد دوسرا مکان بننے لگتا تھا چنانچہ دیہہ وجود میں آجاتا تھا جس میں خانہ بندوش بھی رچ بس جاتے تھے جب انسان ایک جگہ رہ کر مکانات بنانے لگے تو انہوں نے کھیتوں کے لئے اوزار بنانا اور ہل چلانا بھی سیکھ لیا جنگلی جانوروں سے جان بچانے لئے چاردیواری کھڑی کرنے لگے تو ان کو سدھایا بھی گیاانسان تہذہب اور تمدن میں داخل ہوگیا کرہ ارض پر توہمات نے جنم لیا تواس نے رفتہ رفتہ عقیدوں کی شکل لے لی جن کی کوکھ سے بعدازاں مذاہب پیدا ہوگئے اسی طرح انصاف اور حقوق کے تصورات پیدا کرکے ایک نظام بنایا گیا تاکہ ہر انسان اپنی جگہ مطمئن اور اپنی کھال میں خو ش رہے مگر سائنسی ترقی ، ایجادات اور دریافتوں نے ایک نئے نظام کے لئے راستہ بنانا شروع کردیا تھا ۔
یہ نیا نظام سرمایہ دارانہ نظام کہلاتا ہے۔
اس نظام نے انسان کو ایک نئے دور میں داخل کردیاہے سابق نظام میں خان خوانین اور کھیت مزدور تھا تو اب صنعت کار اور مزدور ہے یہ اس نظام سے جدید، الگ تھلگ اور بہتر ہے جاگیردار زمین کے ایک قطعہ سے بندھا ہوا تھا اسے ڈر رہتا تھا کہ کھیت مزدور اس کو چھوڑ کر چلا جائے گا اس لئے اس نے کھیت مزدور کو بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑ اہوا تھا اس نے زمین اورعورت کو ایک اکائی کے طور پر لیا اور کاشتکار کو بھی اس کے ساتھ دھرتی ماتا ،پردہ،شرم اور غیرت کے نام پرباندھ دیا چنانچہ اس نے عورت کو ہی گھر میں قید نہیں کردیا تھا بلکہ مرد کو اس کا چوکیدار بناکر گاؤں بنادیاتھا اب وہ بوڑھی ماں ، بوڑھے باپ اور بیوی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضے اور معاشی ضروریات مختلف ہیں صنعت کارکے پاس کارخانہ ہے وہ ایک چیز بناتا ہے جو گردونواح کی آبادیاں خرید لیتی ہیں اسے اس کے کھپت کی فکر ستانے لگتی ہے تو پھر وہ یہ نہیں دیکھتا ہے کہ اس کے قریبی ریاستوں کے مکینوں کا رنگ، نسل، قومیت،مسلک، عقیدہ اور مذہب کیا ہے ان کے باسی اس کیلئے صرف اور صرف خریدار ہوتے ہیں اس طرح جاگیردار طبقہ نے محبت، نفرت، نسل، رنگ،قومیت اور مذاہب کے جو بلند وبالا پہاڑ،دریا اور دیواریں ایستادہ کی تھیں وہ دھیرے دھیرے اپنی جگہ سے سرکنے اور گرنے لگتی ہیں ۔
قدیم بالادست طبقے نے جاگیردار، میاں،ملا،پیراورقاضی کو اعلیٰ مقام دیا تھا نائی ،دھوبی،درزی، کاشتکار،بڑھئی اور خاکروب کو گھٹیادرجہ دیا اپنے اس عمل سے اس نے انسان کو سماج میں درجات کا تصور دیا اور خود اونچی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا۔
سر مایہ دارانہ نظام نے کایا ہی پلٹ دی بلاشبہ سرمایہ دار اونچی مقام پر بیٹھا رہا مگرپیر،میاں، ملااورقاضی پڑھا لکھا نہیں اور نائی ،دھوبی،درزی یا کاشتکار کا بیٹا تعلیم یافتہ ہے توصنعت کارسلسلہ نسب کو نہیں دیکھتا وہ تو اسے روزگار اور عزت دیتا ہے جو اس کے لئے مفید ہے ایک کھیت مزدور کے بچے نے انجیئنرنگ کرلیا ہے اور ان کے بچے ناخواندہ ہیں تو محنت کش کا یہ بیٹا کارخانہ میں آفیسر ہوگا اور یہ سب پھر اس کے ماتحت ہوں گے چنانچہ ایک صنعت کار تعلیم، کام اور مہارت دیکھتا ہے ۔
جاگیردار قطعہ زمین سے بندھ گیا تو اس نے خاندان بنالیا نکاح اور شادی کی ریت روایت کی بنا رکھ دی گئی محنت کشوں کے بھی کنبے بن گئے رشتے داریاں پیدا ہو گئیں کھیت مزدور بھی کھیتی باڑی کے ذریعے جکڑا گیا خاندان اور غیرت اس کے پیروں کی زنجیریں بنتی گئیں اوراگر اس کی جاگیردار سے کوئی نسبت بھی ہے تواس پر فخر اور اترانے لگا جبکہ وڈیرہ بھی یہی احساس دلانے کے لئے ان کی فوتگیوں اور شادیوں میں شریک ہونے لگا ان کے ساتھ معاشی تعاون بھی کرنے لگا حتیٰ کہ غریب غربا ء کے ساتھ عبادت گاہ میں ایک صف میں کھڑے ہوکر ان کو یہ احساس بھی دلاتا رہتاتھا کہ وہ سب ایک ہی برادری کے افراد ہیں چنانچہ اگر ان کے نوکر پیسہ لے کر محنت مشقت کرتے تھے تو خاندان کے یہ افراد بھی ان کی طاقت تھے اسی لئے خان خوانین سے کوئی اس لئے بھی پنگہ نہیں لیتا تھا کہ اس کی پشت پراس کے خاندان کے غریب افراد بھی ہوتے تھے کارخانہ داری نظام نے اس نظام کو ختم کردیا غریب ایک تو سرمایہ دار دوسرا خاندان بن گیا ہے۔
کارخانے کے مختلف شعبے ہوتے ہیں ٹرکوں میں خام مال آتا ہے مزدور اتارتا ہے اسے ایک بڑی ٹینکی میں ڈالا جاتا ہے کپڑا، کاغذ ،دوائی یا جو چیز بھی بنانی ہے کس چیز کی کتنی مقدار ہونی چاہئے یہ وہی بتا سکتا ہے جس نے اس کا علم حاصل کیا ہو چنانچہ اس طرح ایک صنعت کے ہر شعبہ کے لئے مزدور،حساب کتاب کرنے والا بابو،مال کھپانے کے لئے تاجروں کی نفسیات سمجھنے والا نوجوان،انجئنیراور افسران کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح اس نظام نے تعلیم کو درباروں اور محلات سے نکال کر عام شہری تک توسیع دے دی۔
اس نظام نے شعبوں کی کایا پلٹ دی ہے پہلے خان خوانین،میاں، پیر،ملا،قاضی اور حکیم کی عزت تھی نائی ، دھوبی،درزی،جولاہا،چماراور لوہار کمیہ اور کمینے کہلاتے تھے اب چمار باٹا اور ٹاٹا بن کر مالک اورقابل احترام ہوگیا ہے لوہار انجئنیر بن گیا ہے اسی طرح شعبے بھی موروثی اور خاندانی نہیں رہے کتابیں سامنے رکھ دی گئی ہیں کیا بننا ہے اس کا انتخاب نوجوان پر چھوڑ دیا گیا ہے آپ کا باپ دادا بادشاہ تھا یا نائی اور جھاڑو دیتا تھا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے آپ کے پاس اعلیٰ سند ہے اورکسی شعبہ کے ماہر تو امریکہ سمیت دنیا بھر کے سرمایہ دار ممالک خوش آمدید کہتے ہیں۔
توہمات دم توڑ گئے ہیں یا توڑ رہے ہیں کالی بلیوں کی فوج بھی گزر جائے اپنا سفر ملتوی نہیں کرتے ہو جن اور بھوت قصہ پارینہ بن گئے حتیٰ کہ کتابی علم کو اب کتاب پرستی کہا جاتا ہے پہلے کوئی مسئلہ ہوتا تو دوسرا اسے چپ کرانے کے لئے کہتا یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کارخانوں نے بڑے بڑے شہر بنادئیے ہیں اور ان میں ہر رنگ،نسل،قوم،زبان اور پس منظر کے حامل اور بھانت بھانت کے لوگ آگئے ہیں ان شہروں میں نئے طبقاتی رشتے استوار کرنے کے لئے بالادست طبقہ کے خاندان آئے روز سالگرہ،شادیاں اور تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں جن کا مقصد ایک دوسرے کے کاروبار اور جائیداد کے حوالے سے معلومات حاصل کرکے اپنی حیثیت کے برابر سے تعلقات اور بعد ازاں رشتے بنانا ہوتا ہے ان محفلوں میں نوجوان کھرب پتی کی بیٹی تلاش کرتے ہیں تو لڑکیاں بھی نوجوانوں کے حوالے سے جانکاری چاہتی ہیں۔
نیا محنت کش جاگیردار کے کھیت اورجائیدادسے بندھا نہیں رہتا ہے اسے جہاں بھی روزگار ملتا ہے اُدھر کا رخ کرتا ہے دھرتی ماتا، وطن اور وطن پرستی کے تصورات کوئی زیادہ جانداراور طاقت ور نہیں رہے ہیں ایک ریٹائر فوجی کو امریکہ بلاتااور اپنی جنگ پر بھیجتا ہے توحب الوطنی کا جذبہ اس کے پاؤں کی بیڑی نہیں بنتا ہے حتیٰ کہ مذاہب اور عقائد کا اختلاف بھی اسے نہیں روک سکتا ہے معاشی ضروریات کی تکمیل اس کا بڑا اور اہم مسئلہ بن جاتا ہے تو پرانے اخلاقی رویوں میں بھی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوجاتا ہے ایک غریب کنبہ کی بچی پڑھ لکھ کر کہیں ملازمہ ہوجاتی ہے نیا لباس اور ہاتھ میں اشیاء سے بھرے شاپنگ بیگ کے ساتھ محلے سے ہوکر مکان آتی اور محلے دار دیکھتے ہیں تو ان کو بھی اپنی بچیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی شہ ملتی ہے حتیٰ کے قدیم جاگیردارانہ روایات،رواجات اوررسومات کی باقاعدہ ادائیگی کے تصورات بھی پس پشت چلے جاتے ہیں کاروبار اور ملازمت فوتگی اور خوشی کی تقریبات میں حاضریوں کو کم کردیتے ہیں القصہ ایک نئی سرمایہ دارانہ ثقافت جنم لینے لگتی ہے۔
جاگیردارانہ نظام نے عورت کو گھر کی چاردیواری میں ہی پابند بناکر نہیں رکھا ہوا تھا بلکہ اسے تمام سماجی اور اخلاقی برائیوں کی جڑ اور بنیاد بھی قرار دیا ہوا تھا جس کی ابتداء حضرت آدمؑ کے بہشت سے نکالے جانے سے ہوتی ہے کیونکہ اس کو تمام واقعہ کاقصور وار ٹھہرایا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ جنگ کے لئے زر اور زمین کے ساتھ زن کو بھی اس کا باعث سمجھا جاتا ہے اس زمانے میں مرد نے مشہور کررکھاتھا کہ عورت مرد کو گناہ کی دعوت دیتی ہے یہ گناہ کی پوٹلی اور شیطان کی خالہ ہے ادب نے اسے صنف نازک بنادیا تھا اور اسے بے وقوف مشہور کرکے مرد نے اس کے تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لئے تھے چنانچہ اس کو کسی مسئلہ میں اپنی رائے کے اظہار کا موقع نہیں دیا جاتا تھا شادی کے موقع یا اس سے پہلے خواہش کا پوچھنا اور اس نوعیت کے دیگر معاملات میں اس کی شرکت کا انحصار مرد کی صوابدید پر تھا عورت سے تمام اختیارات لے لئے گئے تھے وہ معاشی ہی نہیں ہر لحاظ سے مرد کی دست نگر بن چکی تھی اس لئے مرد ایک چھوڑ چار سے بھی شادیاں کرسکتا تھا جبکہ بیوہ کی شادی کو بھی برا تصور کیا جاتا تھا تاکہ خاندان کی جائیداد تقسیم نہ ہو باپ بیٹی کو بوڑھے کے کھونٹے سے باندھ سکتا تھا عورت کو ساری زندگی اسی ایک کے ساتھ گزارنا پڑتی تھی بغاوت کرتی تو سماج قبول نہیں کرتا تھا۔
اس لئے قدیم سماج میں ہمیں عورت دو ہی مقامات گھر یا بازار میں بیٹھی نظر آتی ہے۔
جاگیردار نے عورت کو گھر بٹھایا ہوا تھا اسے بناؤ سنگھار کی ترغیب دی جاتی تھی زیورات مرد اور عورت کی عمروں کا تفاوت بھی پس منظر میں لے جاتے تھے شعراء اس کی لمبی زلفوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے تھے اس کا جسم سونے سے لدا ہوا ہوتا تھا قریبی رشتے داروں کے سوا کسی غیر مرد کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی گھر کے تمام کام نوکرانیوں کے ذمے ہوتے تھے جبکہ غریب کی جورو صبح سے شام تک جھاڑو دینے سے کھانا پکانے، برتن مانجھنے سے کپڑے دھونے تک کے سارے فرائض سرانجام دیتی تو رات کی ڈیوٹی دینااور بچوں کی دیکھ بھال بھی اسے ہی سنھبالنا پڑتی تھی مرد کو گھر کے اخراجات پورے کرنا ہوتے تھے اور عورت کی حفاظت کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی تھی اس لئے مرد بھی اس کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔
قدیم معاشروں میں آبادی بھی محدود اور کم ہوتی تھی اور ایک آبادی دوسرے سے دور بھی ہوتی تھی آمد ورفت کے ذرائع کا بھی یہی حال تھا آبادی میں اضافے ،جائیداد کی تقسیم در تقسیم،معاشی ضروریات کی قلت اور سرمایہ دارانہ تقاضوں نے صورت حال بدلنا شروع کردی مرد کو پیسہ کمانے کے نئے ذریعے ہاتھ آگئے وہ شہر کا رخ کرنے پر مجبور ہوگیا اس کی سخت گیر ذہنیت میں لچک پیدا ہوئی صنعت کار کو ایسے افراد کی ضرورت تھی جو اس کا مال شہر شہر فروخت کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں اس کی کھپت کے لئے نئی منڈیوں کی تلاش کرسکتا ہو ایک نوجوان نے قدم بڑھایا تو دیگر کو بھی ترغیب ہوئی۔
سرمایہ دار نے دیکھا قدیم روایات،عقائد اور رسومات نصف آبادی کے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں اور اس نے مرد کو بھی باندھ رکھا ہے تو اس نے ان بندھنوں میں لچک پیدا کرنے کے لئے عورت کو اپنے حقوق اورآزادی کا احساس دلایا اسے متحرک کرنے کے لئے مرد اور عورت کو ایک ہی گاڑی کے دوپہیئے کا نام دیا مرد کے ساتھ عورت کے تعلیم یافتہ ہونے پر زور دیا اس لئے دیہہ اور گاؤں میں بوائز کے ساتھ ساتھ گرلز سکول بھی کھل گئے ایک بچی کو کارخانہ میں روزگار ملا وہ کنبے کے معاشی سدھار میں معاون ہوگئی تو دیگر خاندانوں کو بھی ترغیب ملی مختصر یہ کہ قدیم بالادست طبقے نے اپنی جائیدا د ،جان کی حفاظت اور دولت میں اضافے کے لئے روایات،روجات اور رسومات کا جو جال بنُا ہوا تھا وہ جدید سرمایہ داری کی ترقی میں سنگ گراں بنا ہوا ہے جس کو پاٹ کر ہی ایک سرمایہ دار اور ملک آگے کو بڑھ سکتے ہیں ۔
جاگیردار طبقہ نے خاندان بنائے اور ان کو ایسے تصورات دئیے تاکہ اس کے افراد باہم گتھم گتھا رہنے کے ساتھ ساتھ گلی محلے میں بھی ایک دوسرے سے برسرپیکار رہا کریں ان کو محبت اور نفرت کرنا سکھایا پیشوں اور عقائد کی بنیاد پر الگ تھلگ رکھا خان اور غریب کو عبادت گاہ میں ایک ہی صف میں کھڑا کرکے غریب کو ایک برادری کے افراد کا احساس بھی دلاتا رہا مالک کا قد اونچا رکھنے کے لئے اسے غریبوں کو کھانا کھلانے کا مشورہ دیا تو رحم، سخاوت و فیاضی کی اداکاری کے گر سے آشنا کرایا مگر سرمایہ دار کا کارخانہ مزدور کے لئے روزگار کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارہ بھی بن گیا اس میں بھانت بھانت کا پس منظر رکھنے والے غریب اکھٹے ہوگئے توذات پات کے بت پاش پاش ہونے لگے ایک دوسرے سے نفرت کی بجائے مزدور اتحاد کے تذکرے موضوع بحث بن گئے یونین سازی کا حق ملنے پر اپنی اجتماعی طاقت کا احساس ہوا چین وروس کے انقلابات کا مطالعہ کرکے یہ تصور جنم لینے لگا کہ سماج کی کایا پلٹنے والی اصل قوت تو یہی ہے جمہوریت اور انتخابات نے ان تصورات کو مزید مستحکم کیا ۔
آج کا محنت کش قدیم غلام اور ملازم سے کئی حوالوں سے ترقی یافتہ ہے۔
پاکستان میں بھی ترقی یافتہ سرمایہ دار ریاستوں کی نت نئی ایجادات کے ثمرات پہنچ رہے ہیں اور ہر نئی چیز کی مخالفت پر کمر بستہ مکتبہ فکر بھی ہے انڈیا اور ہالی ووڈ کی فلمیں چل رہی ہیں تو عریانی اور فحاشی کے الزامات لگاکر ان کو بند کرانے والے بھی سرگرم عمل ہیں سرکاری ٹی وی ہے تو نجی چینلز پر ڈراموں کے وقفہ کے دوران تعویز اور گنڈے کے اشتہارات بھی دکھائے جارہے ہیں غیرپیداواری قوتوں کو قدآور دکھانے کے لئے ان کی تعلیم وصحت کے حوالے سے کوششوں کو سراہا جارہا ہے قدرتی آفات میں عوام کا ہاتھ بٹاتا ہوا بھی دکھایا جاتا ہے خاندان کے احیاء کے لئے ڈراموں اور فلموں کا سہارا لیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی گلے اور شکوے بھی ہورہے ہیں پیشہ وروں کو جرائم پیشہ ظاہر کرکے ملک کے لئے خطرناک کرکے پیش کیا جاتا ہے تو کہیں پر ان ہی کے ذریعے دھرنے دئیے جارہے ہیں رنگ، نسل،قومیت اور عقائد کی بنیادوں پر نفرت پیدا کی جارہی ہے اور مذاہب میں ہم آہنگی کو بھی تلاش کیا جارہا ہے شک کو گناہ قرار دیا جارہا ہے تو اسی کو جستجو اور تفتیش کے لئے بھی بروے کا رلایا جاتا ہے۔
یونین سازی کا حق تسلیم کروایا جارہا ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کی جارہی ہیں معاشرے کے سدھار میں میڈیا کی تعریف ہورہی ہے تو تجاوزات کے الزامات کے تحت بند بھی کیا جارہا ہے صحافیوں کو خریدا او رساتھ ہی قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جارہا ہے قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہورہے ہیں تو قبائل کو متاثرین بناکر بھکاری بھی بنایا جارہا ہے اسی طرح ان پر دہشت گردوں سے تعاون کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں دوسری طرف ان کو سیاسی آزادیاں حاصل نہیں ہیں فیکٹری وکارخانے بھی نہیں ہیں اور قانون اور آئین کی پاس داری پر زور بھی دیا جارہا ہے اور اس کو آئے روز توڑا بھی جارہا ہے جمہوریت کو مسائل کا حل بھی بتایا جارہا ہے اور سیاست دانوں کے سر ملک کے تمام بحرانوں کا بوجھ بھی لادا جارہا ہے ایک حاکم وقت یا سیاست دان کوئی غلط کام کرتا ہے انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے تو جمہوریت کو نشانہ تنقید بنایا جاتا ہے۔
یہ صورت حال پاکستان میں موجود قدیم جاگیردار اور نوزائیدہ سرمایہ دار کے مابین کش مکش کا پتہ دیتی ہے پارلیمنٹ میں جاگیردار طبقہ کی اکثریت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں بجلی کا بحران کئی برسوں سے کیوں جاری ہے اسی طرح حکمرانوں کے قول وفعل کا تضاد بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے بلوچستان میں نوجوانوں کا اغواء،تشدد اور ٹارگٹ کلنگ،کراچی میں بھتہ خوری اور پختونخوا میں دہشت گردی اور اس کے خلاف کارروائی اور دھماکے کوئی الگ تھلگ واقعات اور حادثات نہیں ہیں یہ قدیم جاگیردارانہ نظام کے احیاء اور جوں کا توں رکھنے کے سلسلے کی ہی کڑیاں ہیں۔
♦