پاکستان دہشت گردوں کا معاون

poster

وزیرِ اعظم نواز شریف کے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ایک دن پہلے امریکی کانگریس کے دو اراکین نے ایک ایسا بل پیش کیا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو ایک ایسی ریاست قرار دینا ہے، جو ’دہشت گردی کی معاونت‘ کرتی ہے۔

یہ بل اراکین کانگریس ٹیڈ پو اور ڈینا روہرابیکر کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے، ’’پاکستان نہ صرف نا قابلِ بھروسہ اتحادی ہے بلکہ اس نے کئی برسوں امریکا کے دشمنوں کی معاونت اور اعانت کی ہے۔اسامہ بن لادن کو پناہ دینے سے لے کر حقانی نیٹ ورک سے قریبی تعلقات تک یہ بات واضح ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں کس طرف ہے اور یقیناً وہ اس جنگ میں امریکا کے ساتھ نہیں ہے‘‘۔

یہ بل امریکی انتظامیہ کو اس بات کا پابند بنائے گا کہ وہ اس سوال کا باضابطہ جواب دے۔ اس بل کے پاس ہونے کے نوے دن کے اندر اندر امریکی صدر ایک رپورٹ جاری کرنے کا پابند ہوگا، جس میں تفصیل سے یہ بتایا جائے گا کہ آیا پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف مدد فراہم کی ہے یا نہیں۔ اس کے تیس دن کے بعد سیکریڑی آف اسٹیٹ کی طرف سے ایک دوسری رپورٹ جاری کی جائے گی، جس میں یا تو اس بات کا واضح طور پر تعین کیا جائے گا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو دہشت گردی کی اعانت کرتی ہے یا پھر تفصیل سے اس بات کا جواز پیش کیا جائے گا کہ ایسی ریاست کی تعریف پر پاکستان قانونی طور پر پورا نہیں اترتا۔

اس بل کے پیش کیے جانے سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔خیال رہے کہ پچھلے ماہ امریکہ پاکستان کی فوجی امداد بھی بند کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایف سولہ طیاروں کی جو کھیپ پاکستان جانی تھی وہ کینسل کر دی گئی تھی۔ اِس بل کے مضمرات پر بات چیت کرتے ہوئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے کہا، ’’نان اسٹیٹ ایکڑزکے مسئلے پر امریکا، بھارت اور افغانستان ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ اس بل کا پیش ہونا ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس سے پاکستان کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ہماری امداد بند کی جا سکتی ہے اور ہم پر اقتصادی پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں‘‘۔

خیال رہے کہ بھارت نے کشمیر کی فوجی چھاونی اڑی پر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگایا ہے اور وزیراعظم مودی نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ اشتعال میں آنے کی بجائے حکومت ایسی حکمت عملی اپنائے کہ پاکستان کو عالمی دنیا میں تنہا کیا جائے۔بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے کئی سال گذرنے کے بعد بھی ممبئی حملوں کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ۔ اسی طرح چند ماہ پہلے پٹھان کوٹ پر حملے کے ذمہ داران کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں کی گئی جبکہ بھارتی حکومت نے اس سلسلے میں تمام ثبوت پاکستان کو مہیا کیے تھےاوراسلام آباد نے کاروائی کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

یاد رہےکہ ممبئی حملوں میں لشکر طیبہ اور پٹھان کوٹ حملوں میں جیش محمد ملوث تھی جبکہ یہ دونوں تنظیمیں اور حزب المجاہدین مل کر کشمیر میں دہشت گردی کارروائیوں میں ملوث ہیں لیکن پاکستانی حکومت ، فوج کے دباو کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی مہم جوئیانہ پالیسیوں کی وجہ سے خطے میں تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ بھارت اور افغانستان میں کئی ارب کے تجارتی اور امدادی معاہدوں پر نہ صرف عمل درآمد ہور ہا ہے بلکہ بھارت افغان آرمی کی تربیت اورہتھیار بھی مہیا کرے گا۔جبکہ پاکستان مسلسل طالبان کی حمایت کرنے کی وجہ سے اس خطے سے باہر ہورہا ہے اور اس پر دہشت گردی کا الزام لگ رہا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے حزب المجاہدین کے دہشت گرد برہان الدین وانی کی حمایت سے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق ایک دہشت گرد کی حمایت سے پاکستان نے اپنا کیس اور کمزورکر لیا ہے۔

DW/News desk

Comments are closed.