ایمل خٹک
اس ہفتے امریکہ میں رونما ہونے والی دو اہم ڈویلپمنٹ ملکی اور غیر ملکی تجزیہ نگاروں کا پسندیدہ موضوع بحث بنتی جارہی ہیں۔ بلاشبہ ان ڈویلپمنٹ نے پاکستان کی پالیسی سازوں کی نیندیں بھی حرام کردی ہیں ۔ ایک توافغانستان کے حوالے سے امریکہ میں سہ فریقی اجلاس ہوا جس میں امریکہ کے علاوہ افغانستان اور بھارت کے نمائندوں نے شرکت کی۔ دوسرا امریکی کانگریس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی معاون ریاست قرار دینے کی بل پیش کی گئی ہے۔
یہ دونوں واقعات الگ تھلگ نہیں بلکہ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں اور افغان مسئلے سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ اس طرح یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب سے مسئلہ کشمیر کا انسانی حقوق کا پہلو درست اجاگر ہوا یا نہیں اور آیا دہشت گردی کے حوالے سے مغربی ممالک کے تحفظات دور ہوئے یا نہیں۔
امریکہ یکے بعد دیگرے پاکستان سے اپنی ناراضگی کے اشارے دے رہا ہے۔ امریکی کی جانب سے امداد کی کٹوتی یا فنڈز کی فراہمی روکنا ، بھارت–امریکہ بڑھتی ہوئی سٹرٹیجک تعلقات ، وزیر خارجہ جان کیری کی جنوبی ایشیائی ممالک کے حالیہ دورے میں پاکستان کو شامل نہ کرنا اور افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی اجلاس میں پاکستان کی جگہ بھارت کی شمولیت وغیرہ اس کی ناراضگی کے مختلف اشارے ہیں۔
امریکہ آپریشن ضرب عضب کی بعض کامیابیوں کے اعتراف اور اس پر اظہار اطمینان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دہشت گردوں کی برداشت کی پالیسی کی تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے یہ پالیسی تبدیل نہیں کی تو وہ دنیا میں تنہا رہ جائیگا۔ اس طرح دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ وہ اب پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ پاکستان کی سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی ہے۔
امریکہ اب پاکستان پر نہ صرف افغانستان بلکہ علاقے میں دہشت گرد کاروائیوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مسئلہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ، افغانستان اور بھارت پر مشتمل ایک سہ فریقی اہم اجلاس ہوا ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اجلاس میں امریکی اور بھارتی حکام نے کابل انتظامیہ کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق افغانستان کے ساتھ اپنی امداد کو مربوط کرنے کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس طرح بھارت کو امدادی سامان پاکستان کے بجائے دوسرے متبادل راستے اختیار کرنے پر بھی غوروخوص کیا گیا۔
اس سے پہلے کئی سالوں تک اس قسم کے اجلاس پاکستان ، امریکہ اور افغانستان کے درمیان ہوتے تھے۔ پاکستان کی جگہ بھارت کو شامل کرنا خطے میں امریکہ کی بدلتی ہوئی ترجیحات کی غمازی کر رہا ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان اب امریکہ کی اولین ترجیح نہیں رہا۔ افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی مشاورتوں یا اجلاسوں کا آغاز سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں شروع ہوا تھا۔ ان اجلاسوں کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سہ فریقی ملاقاتوں میں اکثر سیاسی قیادت علاوہ فوجی سربراہان ، انٹلیجنس چیفس اور وزارت خارجہ کے متعلقہ افسران بھی شرکت کرتے تھے۔
اس طرح پہلے پاکستان کی حساسیت کے پیش نظر امریکہ بھارت کو مسئلہ افغانستان میں نظر انداز کرتا رہا اور اسے کوئی رول دینے کیلئے تیار نہیں تھا بلکہ ماضی قریب میں اسے افغانستان میں لو پروفائیل رکھنے کی تلقین کرتا رہا ہے۔ اب بدلتی ہوئی تزویراتی صورتحال میں امریکہ بھارت کو اہم رول دینے کا عندیا دے رہا ہے۔ بھارت کو افغانستان تک تجارتی رسائی دینے سے انکار کے بعد کابل نے ردعمل میں پاکستان کو وسطی ایشیا تک زمینی تجارتی رسائی نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
ایک طرف پاکستان سے مایوسی اور دوسری طرف دہلی سرکار کا افغانستان کیلئے حال ہی میں ایک بلین ڈالر کی امداد کا اعلان، فوجی امداد بڑھانے کا عندیا اور اس کی افغانستان کو پاکستان کی تجارتی انحصار سے نکالنے کی کوششیں امریکی پالیسی سازوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ بھارت کو افغان مسئلے کے ایک اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کر لیں۔
امریکی کانگریس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی معاون ریاست قرار دینے کا بل دو اہم اراکین ٹیڈ پو جو دہشت گردی کے حوالے سے کانگریس کی ایک کمیٹی کے چئیرپرسن بھی ہیں اور ڈینا روہرا بیچر نے پیش کی ہے۔ محرکین نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان ایک ناقابل اعتماد اتحادی ہے اور کئی سالوں سے امریکہ کے دشمنوں کی امداد کرتا آرہا ہے۔ اسامہ بن لادن اور حقانی نیٹ ورک سے تعلقات اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ نہیں کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی امداد بند اور اسے دہشت گردوں کی معاون ریاست قرار دیدیا جائے۔
یہ دونوں واقعات اگر ایک طرف پاکستانی سفارت کاری کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے تو دوسری طرف امریکی پالیسی ساز اداروں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار سے مایوسی اور فرسٹریشن کا اظہار بھی ہے۔ اس مایوسی اور فرسٹریشن کا اظہار ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے مگر اس وقت امریکی قیادت بہت سی سیاسی مصلحتوں کے تحت اس کو نظر انداز کرتی رہی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکام نے کچھ فیصلہ کرلیا ہے ۔ گزشتہ چند مہینوں کے واقعات امریکی ترجیحات میں تبدیلی کی غمازی کر رہی ہے۔ شاید اب پاکستان امریکہ کی اولین ترجیح نہیں رہا۔
بات پاک۔ امریکہ تعلقات کی ہو رہی ہے تو کچھ بات نواز شریف کی تقریر کے حوالے سے بھی ہو جائے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کا تذکرہ اس اہم پالیس تقریر میں غیر ضروری اور سنگین غلطی تھی۔ بھارت کے علاوہ حزب المجاہدین کو یوروپی یونین اور امریکہ نے بھی دہشت گرد تنظیم تسلیم کیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے کسی انسانی حقوق کی چمپئین کے بجائے حزب المجاہدین کے ایک مشہور کمانڈر کا حوالہ آ بیل مجھے مار کے مصداق ہے۔ اس تذکرہ سے نواز شریف نے اپنی تقریر اور دلائل سے جو شیشے کا محل بنانے کی کوشش کی اس ایک وار سے خود ہی اسے چکناچور کردیا ۔ اس سلسلے میں دو باتیں اہم ہے ۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کی تقریر کا ایک بنیادی نکتہ یہ تھا کہ حالیہ تحریک خود رو اور مقامی ہے۔ جس کو انہوں نے کشمیری انتفاضہ کا نام بھی دیا مگر ایک نامی گرامی عسکریت پسند کا حوالہ دینے سے خود ہی اس بات کی نفی کی ۔ سب کو پتہ ہے کہ حزب المجاہدین کی لیڈرشپ کہاں ہے اور کہاں سے اس کو سپورٹ ملتی ہے ۔
دوسرا انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ رواں تحریک ایک پرامن تحریک ہے۔ ایک عسکریت پسند جوہر تصویر میں بندوق تھامے نظر آرہا ہو اور جو ریاست کے خلاف مسلح جہدوجہد پر یقین اور تبلیغ کرتا ہو کا حوالہ دیکر انہوں اس دلیل کا بھی ستیاناس کردیا ۔ بیرون ملک پاکستان کی عسکریت پسند اور انتہا پسند پہچان اور شناخت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ شناخت اور پہچان یا یہ تاثر ختم کیا جائے ہے نہ کہ اس پہچان یا تاثر کو مزید پختہ کیا جائے۔
وزیراعظم پاکستان کے دونوں دلائل درست ہیں کہ کشمیر میں رواں تحریک خود رو اور پر امن ہے مگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اور پھر ایسے اہم پالیسی بیان کو سوچ سمجھ کر لکھنا چائیے تھا۔ اور دنیا میں پاکستان کے امیج اور دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے کردار سے متعلق شکوک و شبہات کو مد نظر رکھنا چائیے تھا۔ عسکریت پسندوں کا تذکرہ اور خاص کر انکا جس کو اہم مغربی ممالک دہشت گرد قرار دے چکی ہے فاش غلطی تھی۔
اس فورم پر اور ایسے وقت میں جب پاکستان کشمیر کے حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف سنگین پامالیوں کا مقدمہ پیش اور لڑنے جا رہا تھا کسی عسکریت پسند کی شخصیت کوہیرو بنا کر پیش کرنا اپنے مقدمے کو کمزور اور پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کے الزامات کو درست ثابت کرنے کی کوشش تھی۔ ہم نے اپنی ناعاقبت اندیشی سے دشمن کو پروپیگنڈا کا اچھا موقع فراہم کیا۔
نواز شریف نے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار کے حوالے سے مغربی ممالک کے تحفظات بھی دور کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ مغرب کو مطمئن نہ کرسکا۔ بلکہ اچھے عسکریت پسندوں کا حوالہ دیکر اس نے کسی حد تک مغربی ممالک کے خدشات کو درست ثابت کیا کہ پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی پالیسی امتیازی یا سلیکٹیو ہے جو کہ اچھے سے نرمی اور برے عسکریت پسندوں سے سختی کی پالیسی ہے۔
پاکستان کے پالیسی ساز اور ریاستی دانشور ابھی تک سرد جنگ اور نئی سرد جنگ کے خمار سے نہیں نکلے۔ وہ ابھی تک پاکستان کی اہمیت اور مغربی دنیا کی جانب سے خوشنودی کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ امریکہ اور پاکستان کا نکاح عملاً ٹوٹ چکا ہے ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچی اور ہم ابھی تک ہاتھی کے کان میں سو رہے ہیں ۔ ہم ابھی تک اپنے آپ کو مغربی دنیا کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ اور ان کے پہلے جیسے دست شفقت اور لطف و کرم کے متمنی ہیں ۔
بدلتی ہوئی سٹرٹیجک صورتحال میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا میں ابھی تک اس حوالے سے شدید تحفظات موجود ہیں۔ اور امریکہ جیسے اتحادی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈز کے تحت سالانہ ایک سے ڈیڑھ بلین ڈالر تک مدد دیتی ہے ۔ ہماری کارکردگی سے شاکی اور غیر مطمئن نظر آرہی ہے۔ اور وہاں پالیسی ساز اداروں میں پاکستان کی امداد بند کرنے، معاشی پابندیاں لگانے اور اسے دہشت گردوں کی معاون ریاست قرار دینے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کی طرح پارلیمان کو اعتماد میں لیکر اور اس کے ذریعے نئی داخلی اور خارجہ پالیسی مرتب کی جائے۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عملدرآمد کے ساتھ ساتھ معاشی ، سماجی، تعلیمی ، مذھبی اور ثقافتی پالیسیاں بنائی جائے تا کہ انتہاپسندی، فرقہ واریت اور تشدد کی حوصلہ شکنی ہو اور امن ، رواداری اور ہم آھنگی کے فروغ کیلئے سازگار ماحول پیدا ہو۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے بلا امتیاز کاروائی ہونی چائیے۔
علاقائی امن اور استحکام کیلئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے ہمسائیگی اور دوستی کے تعلقات پروان چڑھانے چائیے اور جو ممالک پاکستان کے بعض نان اسٹیٹ ایکٹرز پر دہشت گردی کے الزامات لگا رہے ہیں ان کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ اس طرح پاکستان کی الزامات کی تحقیقات ان کی اخلاقی ذمہ داری ہوگی۔
♣
One Comment