آج بروز پیر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر صدارت سندھ طاس معاہدے کے قانونی ، اخلاقی، سیاسی ا و ر سفارتی پہلووں اور اس معاہدے کو ختم کرنے یا قائم رکھنے سے متعلّق جواز تلاش کرنے کا جائزہ لینے کے لئے اہم سطح کا اجلاس ہوا ہے جس میں اس معاہدے کے مختلف پہلوئوں پر غور و خوص کیا گیا ہے۔ تاہم دورانِ اجلاس سند ھ طاس معاہد ے سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پرنسپل سیکریٹری نریندرہ مشرہ ،نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈیول اور سیکریٹری خارجہ جے شنکر اور دیگر قانونی ماہرین ، اور آب رسانی کے ماہرین نے شرکت کی ۔ جس میں سندھ طاس معاہدے کے قانونی سیاسی اور سفارتی، قانونی اور اخلاقی پہلووں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایڈوکیٹ ایم ایل شرما نے ایک قانونی پٹیشن بھی داخل کی تھی، جس میں موقّف اختیار کیا گیا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ جو 19 ستمبر 1960 کو دستخط کیا گیا تھا، منسوخ کیا جائے ، اس معاہدے میں فنّی نقائص ہیں، کیونکہ اس معاہدے پر انڈیا کی طرف سے دستخط عوامی وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کو نہیں بلکہ صدر انڈیا کو کرنے چاہئے تھے کیونکہ یہ ریاست بنام ر یاست معاہدہ تھا۔ مگر بھارتی سپریم کورٹ نے ذمّہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاہدےکیخلاف درخواست کی فوری سماعت سےانکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملےکوسیاست سےالگ رکھا جائے۔
اجلاس میں اوڑی حملے کے بعد پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے فیصلے کے بعد بھارت کا سندھ طاس معاہدے کوختم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں غور و خوص ایک انتہائی جارحانہ حکمتِ عملی ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ، بین الاقوامی معاہدہ ہے ۔ اور بھارت ایک ذمہ دار ملک ہے، بھارت اس معاہدے کو یک طرفہ ختم نہیں کرے گا ، بین الاقوامی سطح پر ذمہ داری کا مظاہر ہ کر ے گا۔ مگر یہ بھارت کا حق ہے کہ وہ آج 56 سال گزرنے کے بعد معاہدے کے اخلاقی اور قانونی پہلووں کا جائزہ لے کر اپنے ملک کے مفاد میں حکمتِ عملی اختیار کرے۔
واضح رہے کہ 19 ستمبر 1960 کو پاکستانی صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے درمیان سند ھ طاس معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق بھارت کی طرف سے بہہ کر آنیوالے دریاوں کی قسمت کا فیصلہ کیا گیا تھا، دریائے بیاس،راوی اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے پاس جبکہ پاکستان کا کنٹرول دریائے سندھ ،جہلم اور چناب پر رکھا گیا تھا ۔
آج بھارتی وزارت خارجہ نے معاہدے پر بریفنگ بھی دی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے میڈیا بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا ” پاکستان اور انڈیا میں سندھ طاس معاہدے پر اختلافات موجود ہیں اور یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس پر دونوں ملکوں کو ہی تحفظات ہیں۔ لیکن مجھے یہاں ایک بات کہنی پڑے گی کہ باہمی تعاون کے لئے اچھی ساکھ اور آپس کا اعتماد ہونا ضروری ہے“۔ انہوں نے مزید کہا اس طرح کے معاہدے پر عمل درآمد کے لئے ضروری ہے کہ دونوں طرف سے ہی باہمی اعتماد اور تعاون قائم ہو اور یہ تعاون یکطرفہ کبھی نہیں ہو سکتا، باہمی اعتماد ٹوٹنے کی صورت میں کوئی معاہدہ مکمل نہیں رہ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر ایّوب خان کے دورِ اقتدار میں پاکستان کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کسی بھی جنگی صورتحال میں انڈیا ،پاکستان کا پانی روک سکتا ہے ، اس کے علاوہ بارشوں اور دریاوں میں طغیانی کی وجہ سے ہر سال پاکستان میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ جس کی وجہ سے ایّوب خان نے وزارت پانی ، بجلی اور آبی وسائل قائم کرکے ایک اسٹڈی مکمّل کروائی اور سفارتی سطح پر دریاوں کے پانی کی تقسیم اور پانی کے بہاو پر اپنے اپنے کنٹرول قائم کرنے کے لئے ایک مہم چلائی تھی، جس کے نتیجے میں عالمی طاقتوں نے ورلڈ بینک کی سربراہی میں دونوں ملکوں کے درمیان 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کرا وایا تھا۔
معاہدے کے تحت انڈیا کو پنجاب سے بہنے والے تین مشرقی دریائوں بیاس، راوی اور ستلج پر کنٹرول دیا گیا تھا، جبکہ پاکستان کو جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاوں چناب جہلم ، اور سندھ کے پانی کا کنٹرول اور استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ معاہدے میں، ڈیم، بیراج، نہریں اور لنک نہروں کی تعمیر کی شقیں بھی شامل تھیں۔
پاکستانی ماہرینِ قانون و آبی وسائل کے مطابق پاکستان نے ستلج، بیاس اور راوی کے 26 ملین ایکٹر فٹ پانی کی قربانی دے کر سندھ جہلم اور چناب کے پانی کو استعمال کرنے کا حق حاصل کیا تھا۔
انڈیا کو اپنے تین دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے پانی کے محدود استعمال کا حق حاصل ہے اور وہ محدود طور پانی کو ذخیرہ کر سکتا ہے، بجلی پیدا کر سکتا ہے، زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور پینے کے لیے اپنے شہریوں کو فراہم کر سکتا ہے۔ مگر اس معاہدے پر یکطرفہ طور پر آسانی سے باہر نہیں نکلا جا سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ ایک تفصیلی قانونی معاہدہ ہے، اس میں ورلڈ بنک کو ثالثی کا اختیار حاصل ہے۔
اس میں کوئی ایسی شق نہیں جس کے تحت کوئی ایک ریاست یکطرفہ طور پر اس میں نظرثانی کر سکے۔ایسے معاہدے حکومتوں کی بجائے ریاستوں کے مابین طے پاتے ہیں اور ریاستیں ہی ان پر عمل درآمد کی پابند ہوتی ہیں اور ان سے آسانی سے باہر نہیں نکلا جا سکتا۔
انڈیا کی طرف سے کسی بھی قسم کی آبی جارحیت کی صورت میں، بین الاقوامی قوّتیں اس خالصتاً انسانی مسئلے کو نظر انداز نہیں کرسکتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی نازک صورتحال میں اقوامِ متّحدہ کو مداخلت کرنی ہوگی۔
مگر پاکستان کو بھی اپنے بارے میں صورتحال کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا۔ انڈیا میں مسلسل دراندازی، انڈین کشمیر میں آزادی کی تحریکوں کی مالی ، اخلاقی اور لاجسٹک سپورٹ ، کشمیر میں دراندازوں اور دہشت گردوں کی لانچنگ میں مدد اور جہادی تنظیموں کی مداخلت سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنا ہوگا۔
انڈیا اب کبھی بھی براہِ راست جنگ نہیں کرے گا، وہ کاونٹرسٹر ٹیجی کا ہتھیار استعمال کرے گا، پاکستان کی دہشت گردوں کی اخلاقی اور مالی حمایت کو بنیاد بنا کر اقومِ عالم میں پاکستان کو بطور دہشت گرد ملک کے طور پر پیش کرے گا، پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کرے گا اور اور پاکستان کی وجہ سے اپنے ملک میں بہنے والے خون کا بدلہ لینے کے لئے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاوں کے پانی کو بہنے نہیں دےگا۔ انڈیا نے یہ ہلچل مچا کرپاکستان سے سوال کیا ہے کہ “خون بھی بہے اور پانی بھی، تم ہی کہو کیا ممکن ہے؟“
♦
2 Comments