رواں ہفتے سعودی عرب سے سینکڑوں مزدور پاکستان واپس پہنچیں گے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے یہ مزدور وہاں پیسہ کمانے اور اپنا مستقبل روشن بنانے کے لیے گئے تھے لیکن بغیر تنخواہیں لیے اور خالی ہاتھ واپس پہنچ رہے ہیں۔
سعودی عرب میں مقیم پاکستانی اور انڈین اپنے ملکوں کے لیے کثیر تعداد میں زرِ مبادلہ بھجواتے ہیں جو ان دونوں ممالک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کا اہم حصہ ہے مگر اس کے بدلے میں حکومتی سطح پر ان لوگوں کی مشکلات کے حل کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے شکایت کی کہ حکومتِ پاکستان اور سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانہ اس معاملے میں ان کی مدد کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق ان مزدورں کا تعلق ان کمپنیوں سے ہے جو تعمیرات سے متعلق تھیں اور بہت بڑی کمپنیاں تھیں۔ مگر تیل کی آمدنی میں کمی کی وجہ سے حکومت کی جانب سے بقایا جات کی ادائیگی میں انھیں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے نتیجے میں مزدوروں کو ادائیگی میں بھی کمی آتی چلی گئی جن کی اکثریت پاکستانی اور ہندوستانی ہیں۔اور چونکہ (نئے) اقامہ نہیں بن رہے اس لیے یہ ایک عجیب گنجلک صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔
صحافی راشد حسین نے ان مزدوروں کی حالتِ زار کے بارے میں بتایا کہ ’یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوئی آواز نہیں ہے۔ ہندوستان نے بہت جارحانہ طریقے سے اس معاملے کو اٹھایا ہے مگر پاکستانی حکومت نے بہت دھیمے لہجے میں، بہت معصومانہ حد تک درخواست ہی کی ہے‘۔
انھوں نے بتایا کہ انڈین حکومت نے تو کسی حد تک یہ کیا ہے کہ اپنے لوگوں سے کہا ہے کہ یہ سارے لوگ واپس آ جائیں، ہم ان کو مفت میں واپس لائیں گے۔ سعودی حکومت نے کہا ہے کہ ان کے جانے کا خرچ سعودی حکومت برداشت کرے گی۔ اوران کے پیسے بالکل واپس کیے جائیں گے پاکستانیوں کے لیے تو ابھی تک یہ نوبت بھی نہیں آئی ہے۔
راشد حسین نے مزید کہا کہ ’بات دراصل یہ ہے کہ آپ کا اثر ورسوخ کتنا ہے۔ پاکستانی مرتے تو ہیں، دم تو بھرتے ہیں مگر ان کی حکومت کا اثر رسوخ کتنا ہے، یہ بات یہاں واضح ہو جاتی ہے‘۔
وفاقی وزیر سمندر پارپاکستانیز وترقی انسانی وسائل پیر سید صدرالدین شاہ راشدی نے جب سعودی عرب کے شہر ریاض میں کیمپوں میں مقیم متاثرہ پاکستانیوں کے وفد سے ملاقات کی تو اس موقع پر متاثرین نے شکایت کی کہ کیمپوں میں طبی ودیگرسہولتیں موجودنہیں، انہیں اپنے مستقبل کا کوئی پتا نہیں ہے۔ انہوں نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی، اقامہ کی تجدید کے مسائل سے بھی وفاقی وزیر کو آگاہ کیا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ سعودی حکومت نے بھارت کے متاثرہ مزدوروں کو ملازمتوں سمیت دیگر مراعات دینے کا اعلان کیا ہے اور آپ ایک ماہ بعد یہاں تشریف لا رہے ہیں۔
سعودی عرب میں واقع پاکستانی سفارتخانے کے کمیونٹی ویلفئیر اتاچی عبدالشکور شیخ کا نیوز ایجنسی اے ایف پی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئندہ بدھ کے روز سے سعودی عرب میں پھنسے پاکستانی مزدوروں کی واپسی شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ چار سو سے زائد مزدوروں کو واپس پاکستان بھیجا جا رہا ہے لیکن یہ خالی ہاتھ واپس جائیں گے۔ یاد رہے کہ دو سو ستر سے زائد پاکستانی مزدوروں کو پہلے ہی بغیر تنخواہوں کے پاکستان بھیجا جا چکا ہے۔
ان چار سو سے زائد پاکستانی مزدوروں کا تعلق ان ساڑھے چھ ہزار پاکستانی ورکروں سے ہے، جو سعودی عرب کی مشہور تعمیراتی کمپنی ’’سعودی أوجيه‘‘ کے لیے کام کرتے تھے اور انہیں گزشتہ آٹھ یا نو ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔
اس سعودی کمپنی کے مالک لبنان کے سابق وزیراعظم اور ارب پتی سعد حریری ہیں۔ مجموعی طور پر اس کمپنی میں کام کرنے والے تیس ہزار سے زائد ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کے مطابق سعودی حکومت پاکستانی مزدوروں کی واپسی کے لیے انہیں مدد فراہم کر رہی ہے اور اس سلسلے میں مزید دو ہزار پاکستانیوں کو ایگزٹ ویزا فراہم کرنے کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔
اس کمپنی میں کام کرنے والے ستر پاکستانیوں کو دوسری کمپنیوں میں کام فراہم کیا گیا ہے جبکہ سینکڑوں کی قسمت کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا ہے۔
سعودی أوجيه جیسی کمپنیوں نے حکومت کے ساتھ معاہدے کر رکھے ہیں اور ان کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ سعودی عرب حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ خام تیل کی فروخت ہے جبکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سعودی حکومت کی آمدنی میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔
BBC/DW/News Desk