عبدالحئی ارین
تینتالیس سال بندوق کی سیاست کرنے کے بعد حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے آخر کار یہ تسلیم کر ہی لیا ہے کہ انسانی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ مسائل کا حل قتل و غارت اور طاقت کے استعمال کی بجائے گفت وشنید اور پارلیمانی سیاست کے راستے سے نکالا جائے۔9/11 کے بعد افغانستان میں امن کی طرف سب سے بڑا معرکہ اُس وقت سر کو پہنچا جب کئی سالوں کے عرصے پر محیط طویل مذاکرات کے نتیجے میں گزشتہ روز کابل میں افغان حکومت اور حزب اسلامی کے نمائندوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔
یہ معاہدہ در اصل کسی ایک گروہ کی ہار یا جیت نہیں ہے بلکہ یہ افغانستان اور خطے میں امن کی جیت ہے، جمہور اور جمہوریت کی جیت ہے۔ مگر کابل کو تاراج کرنے کی سوچ رکھنے والی قوتوں کیلئے یہ ایک شدید دھچکا بھی ہے اور بندوق کی نوک پر اپنے مطالبات منوانے والوں کیلئے اس میں ایک پیغام بھی پنہاں نظرآرہاہے۔
ماضی کے معاہدات کےبرعکس یہ معاہدہ بظاہر کسی بیرونی قوت کے ایماء کے بغیر کابل اور گلبدین حکمت یار گروپ کے درمیان ہوا ہے ۔ ا ور اگر ہم اس کاباریک بینی سے تجزیہ کریں تو اس معاہدے کے مندرجہ ذیل فوائد سامنے آرہے ہیں۔
۔۱۔ گلبدین حکمت یار نےآخر کار جمہوریت کو تسلیم کرہی لیا ہے۔ یہ معاہدہ در اصل جمہوریت کی جیت ہے، پارلیمان کی جیت ہے اور بندوق کی سیاست کی نفی اور حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ افغانستان میں بندوق ہار چکی ہے اور عوام کے پاس جا کر اُن کے مسائل کا حل آئینی فریم ورک میں رہ کر حل کئے جانے چا ہیں۔
۔۲۔ کہ افغان امن پسند و صلح پسند قوم ہے اور اُن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مشکل سے مشکل مسئلے کا حل بھی نکال سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہاں پر بیرونی مداخلت نہ ہو۔
۔۳۔ اس معاہدے سے افغانستان کے معمولات میں مداخلت کرنے والی بیرونی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ کیونکہ دشمن انہی جہادی قوتوں کے ذریعے افغانستان میں مداخلت کرتا آرہا ہے۔ اس معاہدے کے بعد مداخلت بند نہ سہی مگر کمزور ضرور ہوگی۔ ( تاہم غالب امکان ہے کہ دشمن اس معاہدے کے رد عمل میں آئندہ چند دنوں میں فغانستان میں تخریبی کاروائیاں کرنے کی کوشش کر ے گا)۔
۔۴۔ بین القوامی دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ افغانستان کی حکومت کو مزید سپورٹ کریں اور مالی امداد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں سرمایہ کاری کریں۔ اس معاہدے کا اکتوبر میں برسیلز میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والے ’ ڈویلپمنٹ ایڈ کانفرنس‘ پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
۔۵۔ اس معاہدے کے بعد افغانستان میں امن کو تقویت ملے گی۔ اور عوام کی اپنی حکومت اور جمہوریت پر مزید یقین مضبوط ہوجائے گا۔
۔۶۔ گلبدین حکمت یار اور حزب اسلامی نے گزشتہ سالوں میں افغانستان میں بیرونی قوتوں کی ایما پر جو قتل و غارت کی تھی اُس پر افغان عوام سے معافی مانگی ہے ۔ جو اس اس بات کی دلیل ہے کہ ماضی میں گلبدین اور اُس کی پارٹی نے جو کچھ کیا تھا وہ سراسرغلط اور سنگین غلطی تھی۔یاد رہے کہ کابل پر راکٹوں کے حملوں اور اسلامی نظام کے نام پر50 ہزار سے زائد افغانوں کوصرف کابل شہر میں قتل کیا گیا تھا۔
تاہم افغانوں نے اپنی روایات کے مطابق حکمت یار کی معافی نہ صرف قبول کی ہے بلکہ اُس سے افغانستان میں خوش آمدید بھی کہہ رہے ہیں۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 1960کی دہائی تک افغانستان میں اسلامی پارٹیوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ تاہم بعد کے سالوں میں مصر کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افغان طلبا نے وہاں کی اخوان المسلمون کی سیاست سے متاثر ہوکر اپنے ملک آکر یہاں پر بھی مذہبی بنیادوں پر سیاست کرنی شروع کی تھی ۔ تاہم اس قسم کی سیاست کو پروان چڑھانے میں افغانستان سے شائع ہونے والے رسالوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
سنہ1973 میں جب صدر داؤد خان نے کابل میں اقتدار سنبھالا اور افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ کر کے پہلی جمہوری حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ تو مصر و عرب کے سلافی اسلام سے متاثر ان قوتوں نے جمہوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ اور داؤد خان کے خلاف سازشوں میں لگ گئے ۔ ان عناصر پر حکومت نے نا صرف پابندی عائد کی تھی بلکہ ان کے خلاف کریک ڈون بھی شروع کیا تھا ۔ جس کے نتیجے میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے اکابرین انڈرگرونڈ چلے گئے تھے جبکہ کچھ مذہبی رہنما بشمول گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی پاکستان فرار ہوگئے تھے ۔جن کو اُس وقت کے وزیر اعظم ذلفقار علی بھٹو نے نا صرف پناہ دی تھی بلکہ انھیں ملیشاء( موجودہ ایف سی) میں ریکروٹ کراکر اُنھیں جنگی ٹریننگ بھی دی تھی۔
گلبدین حکمت یار اور ربانی نے ہمسائیوں کی گود میں بیٹھ کر کابل کے خلاف سازشوں اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اور یہاں سے پہلی بارکابل میں مداخلت کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ گلبدین حکمت یار کا سب سے بڑا مطالبہ یہی تھا کہ افغانستان میں طرز حکومت جمہوری نظام نہیں بلکہ اسلامی نظام ہونا چاہے۔ اور خواتین کے بارے میں جناب کا موقف اُس زمانے میں طالبان سے کم نہیں تھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر حکومت ، کاروبار اور تعلیمی اداروں میں خواتین کو نمائندگی دینے کیلئے تیار نہیں تھے۔
مغربی میڈیا کے ایک ڈچ رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ “ڈیموکریسی اور اسلام ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ افغانستان کو ایک سخت گیر اسلامی ملک ہونا چاہے اور خواتین کو گھروں میں رہنا چاہے “۔
سازشوں کا یہ سلسلہ یہاں پر نہیں رُکا تھا۔ صدر داؤد خان کی موت کے بعد جب نور محمد ترہ کئی کی سربراہی میں افغان ثور انقلاب برپا ہوا تھا۔ حکمت یار نے اُس کی بھی مخالفت کی تھی اور جب 1989میں سوویت یونین کی فوجیں افغانستان آئیں تو گلبدین حکمت یار نے دیگر مذہبی پارٹیوں کیساتھ مل کر افغانستان میں کمیونزم کے خلاف جہاد اعلان کیا اور یہود و نصارہ اور اسلامی دنیا یعنی امریکہ، اسرائیل، پاکستان و مغربی ممالک سے مل کر مسلمان ملک افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔
تاہم 14 اپریل 1988 میں جینوا معاہدے کے بعد افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کے انخلاء کے بعد وہاں نا تو کمیونزم تھا اور نا ہی جمہوریت۔ لیکن اب بھی حکمت یار بندوق کی سیاست سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں تھا۔ کیونکہ اُن کے بقول وہ جینوا معاہدے کو اس لئے نہیں مان رہا تھا کیونکہ یہ کابل اور اسلام آباد کے درمیاں ہوا تھا۔
امریکہ اور روس اس کے بین القوامی ضامن تھے جبکہ اس میں جہادیوں کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی تھی۔ ( اگرچہ دیکھا جائے تو حکمت یار کے یہ مطالبات در اصل پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ کے مطالبات تھے)۔ جس پر افغانستان کے اُس وقت کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنے ملک کو مزید کشت و خون سے بچانے کیلئے حکومت چھوڑنے اور کابل میں مجاہدین کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ اور بعد میں مجاہدین کیساتھ 24 اپریل 1992 کوپشاور میں “معاہدہ پشاور” معاہدہ کیا تھا۔
تاہم جس وقت معاہدہ پشاور ہورہا تھا جس میں جہادی و روحانی رہنماءصبغت اللہ مجددی کی عبوری حکومت تشکیل پارہی تھی ، تو دوسری جانب سولو فلائیٹ کرنے والا گلبدین حکمت یار نے مجددی کی سربراہی میں بننے والی جہادیوں کی اس حکومت کا حصہ بنے کی بجائے حکومت پر قبضہ کرنے کیلئے کابل پر چڑھائی کی۔ جبکہ احمد شاہ مسعود نے بھی کابل کے تخت پر قبضہ کرنے کیلئے بندوق و قتل و غارت کا سہارا لیا تھا ۔
کابل شہر پر راکٹوں و دیگر بھاری اسلحے کا آزادانہ استعمال کیا گیاجس کے نتیجے میں وہاں ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار افراد مارے گئے۔ حکمت یار کا مطالبہ تھا کہ اُسے مجددی بحیثیت صدر قبول نہیں ہے۔ تاہم دیگر جہادی گروپس کا یہ الزام تھا کہ گلبدین کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور اُن کو اسلحہ و راشن آئی ایس آئی کی جانب سے مہیا کئے جارہے ہیں۔ ان حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے 07 مارچ 1993 حکمت یار اور دیگر افغان جہادیوں کو اسلام اباد بلا کر یہاں پر“معاہدہ اسلام اباد” کروایا گیا تھا۔
اس معاہدے میں جماعت اسلامی کے رہنما برہان دین ربانی المعروف ربانی کو صدر بنایا گیا اور حکمت یار کو وزیر اعظم کا عہدہ دیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں پاکستان، سعودی عرب، ایران اور او ائی سی نے ضامن ممالک کا کردار ادا کیا تھا۔ 1994 میں جنرل نصیراللہ بابر کی سربراہی میں طور خم اور چمن کے علاقوں سے افغانستان میں داخل ہونے والے طالبان نے جب کابل پر حملہ کیا تو حکمت یار ایران بھاگ گیا تھا۔ جہاں سے وہ 9/11کے بعد پاکستان آئے ۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں “کابل مسٹ برن” کا الاپ لگانے والوں کی کہانی ہو یا پھر حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کی طرف سے کابل پر راکٹوں سے حملوں کی درد بھری۔یہ ایک لمبی کہانی ہے اور نا ختم ہونے والا دل خراش مژدہ۔
افغانستان کے حوالے سے دشمنوں کی ہمیشہ سے مندرجہ ذیل پالیسی رہی ہے۔
اول۔ اس کو مکمل طور پر تباہ اور فتح کر کے اپنا پانچواں صوبہ بنانا۔اگر یہ منصوبہ ناکام ہوجائے تو
دوئم۔ وہاں پر اپنی مرضی کی حکومت یا حکمران پیداکرنا۔ جوکہ ماضی میں مجاہدین اور طالبان کی شکل میں یہ دونوں سازشی منصوبے ناکام ہوچکی ہیں۔
سوئم۔ افغانستان میں امن کو موقع نہ دینا، وہاں پر مکمل مداخلت کرتے رہنا ۔ اور وہاں پر افغانوں کی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور اُن کو پشتون اور نان پشتون کے ناموں پر منقسیم رکھنا جو کہ ہنوز جاری ہے۔
اگرچہ دیکھا جائے تو مذکورہ بالا منصوبے بُری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔آج افغانستان میں امن ہے، خوشحالی ہے، ترقی، انفراسٹرکچر، اور سب سے بڑ ھ کر منتخب پارلیمنٹ ہے۔ اور اشرف غنی جیسے مدبر سیاستدان و دانشور صدر کی سربراہی میں ایک بہترین حکومت بھی ہے۔
افغانستان کا مسئلہ اندرونی نہیں ہے بلکہ وہاں پرمسلسل بیرونی مداخلت ہورہی ہے جس کی وجہ سے افغانستان میں ترقی کے کاموں پر کم جبکہ سیکورٹی پر زیادہ اخراجات کرنے پڑ رہے ہیں۔ وہاں پر مختلف ادوار میں یہ تمام سازشی منصوبے اس لئے کسی نا کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ وہاں پر ملی سیاست کا فقدان ہے۔ لوگوں کو سیاست سے دور رکھا گیا ہے۔ وہاں پر منظم سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ لوگ قبائلی اور مذہبی بنیادوں پر عوام سے ووٹ لیتے ہیں۔ جس کے خطرناک نتائج اج تک وہ بھگت رہے ہیں۔
افغانستان میں اُس وقت تک مکمل امن اور جمہوریت نہیں قائم ہو سکتی جب تک وہاں کی نوجوان نسل کو تعلیم کیساتھ ساتھ سیاسی پلیٹ فارم سے سیاسی شعور نہیں دیا جائے گا۔ )جو کہ افغانستان کیساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے۔
افغانستان میں اُس وقت تک مکمل امن اور جمہوریت نہیں قائم نہیں ہو سکتی جب تک وہاں پر مداخلت اور سازشیں نہیں روک جاتیں۔ جب تک وہاں پر افغان نیشنلزم کو فروغ نہیں دیاجاتا ہے اور پارلیمنٹ میں لینڈ لارڈ ، مذہبی و قبائلی رہنما بھجوانے کی بجائے سیاسی افراد کا انتخاب کرنا چاہیے۔
سب سے اہم بات میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہمسایہ ممالک کی نادان قوتیں وہاں پر اب افغانوں کو پشتون و نان پشتون کے نام پر تقسیم کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا گلبدین حکمت یار اس نئی سازش کا حصہ بننے کیلئے تو نہیں آرہا ہے؟
♠
6 Comments