سید نصیر شاہ
جتھے اور گروہ کی صورت میں کئی جانداررہتے ہیں۔ مثال کے طور پر چیونٹیاں‘ شہد کی مکھیاں وغیرہ خوراک کی تلاش میں ہاتھی اور زیبرے نکلتے ہیں یا کوے تو وہ بھی جتھوں کی صورت میں نکلتے ہیں۔ کووں میں تو ایک اور خصوصیت بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اگر ایک کوے کو ماردیا جائے تو دوسرے کوے کائیں کائیں کا وہ شور مچاتے ہیں کہ پل بھرمیں بہت سے کوے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اجتماعی شورروشیون میں شریک ہوجاتے ہیں۔ چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں تو کسی حدتک تقسیم کار کا نظام بھی ہے مگر ان تمام جتھوں اور گروہوں پر ہم ایک لفظ ’’معاشرہ‘‘ کا اطلاق نہیں کرسکتے۔
معاشرہ وہ شعوری عمل ہے جس میں افراد معاشرہ مل جل کررہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ایک دوسرے کے مسائل کا ادراک کرتے ہیں اور ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے ذمہ داریاں بانٹ لیتے ہیں اور یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ تمام افراد کسی ایک جسم کے مختلف اعضاء اور ایک کل کے اجزاء ہیں جن کے اپنے اپنے فرائض ہیں اور جب تمام اعضاء ٹھیک طریقہ سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہوں تو جسم صحت مند ہوتا ہے یوں معاشرہ تمدن کو جنم دیتا ہے۔
تمدن کا نظم ونسق برقرار رکھنے کے لئے انسان ہمیشہ سے قانون کا سہارا لیتا آیا ہے قانون کانام آتے ہی ذہن فوراً قانون بنانے والوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ قانون ساز وہ طاقت ور گروہ ہوتا ہے جو دوسروں پر قوت اور اختیار رکھتا اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلاسکتا ہے یہ لوگ اس طرح کا قانون بناتے ہیں جس طرح کا قانون ان کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اس طرح وہ قانون جو تمدن کی بنیاد ہے اور جسے اجتماعی مفاد کا ضامن ہونا چاہئے تھا، ایک مفاد پرست گروہ کے مفادات کے تحفظ کا ایسا قلعہ بن جاتا ہے جس کے اردگرد میلوں تک خاردار تاروں کے جنگلے لگے ہوتے ہیں۔ قانون کے اسی سقم کو دور کرنے اور مفادپرست گروہ کوناکام بنانے کے لئے انسان برابر جدوجہد کرتا چلا آرہا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ قانون ہی کی راہ سے انسانی وقارکی بحالی ہواور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ پھر یہ ہے کہ تمدن کوئی ٹھہرا ہوا پانی نہیں کہ ایک دفعہ اس جوہڑ کی صفائی ہوجائے تو برسوں صاف رہے۔
تمدن میں تبدیلی کا رونما ہوتے رہنا فطری امر ہے ظاہر ہے اس تبدیلی کے ساتھ قانون کو بھی تبدیل ہوجانا چاہئے ایک ماحول میں ایک قانون بہتر ہوگا مگر ماحول بدل جانے سے پچھلا قانون پہلے کی طرح مفید اور کارگر نہیں رہے گا۔ زندگی کے چلن بدلتے ہیں تو معاملات زندگی کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ ظاہر ہے نئے ماحول اور نئی صورت حال کے لئے قانون کو بھی تبدیل ہوجانا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو زندگی اور قانون کا رشتہ ٹوٹ جائے گا اور جب بھی ایسا ہوتا ہے زندگی اپنے راستے خود تراشنے لگتی ہے اور بہت سے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ قانون بدلا جاتا ہے ظاہر ہے یہ کام عقل اور فراست سے ہوتا ہے اس لئے قانون اور عقل کی رفاقت بھی ضروری ہوتی ہے۔
مذہب کی دنیا میں چونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ قانون سازی خدا اور رسول کی طرف سے ہوچکی ہے اور ان ہی قوانین کو من وعن نافذ کرنا ہے۔ اس لئے علمائے مذہب کو زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ چلنے میں دقتیں پیش آتی ہیں۔ زندگی کو آگے بڑھنا ہے اور وہ زمانہ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ یہ لوگ اُسے کھینچ کر پیچھے لے جانا چاہتے ہیں اور اسی کش مکش میں قوم کا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے۔ مغرب نے ان ہی مشکلات کے پیش نظر مذہب اور سیاست کو الگ الگ کردیا۔ اور اس علیحدگی پر وقت گزرنے کے ساتھ سیاست اور مذہب دونوں راضی ہوگئے اور زندگی مطمئن ہوکر آگے بڑھتی گئی۔
مسلمانوں کے عہد ملوکیت میں بادشاہوں نے اپنا کاروبار تو اپنی مرضی کے مطابق چلایا لیکن عوام الناس کے باہمی اختلافات کے فیصلوں کے لئے قاضی بٹھادئیے جن کے پاس بالعموم نکاح، طلاق کے مقدمات آتے یا کبھی قصاص کا مسئلہ آجاتا۔ کتاب وسنت میں بعض جرائم کی جو سزائیں بیان کی گئی تھیں عملی زندگی میں انہیں ’’سخت‘‘ سمجھ کر عام طور پر بادشاہ تبدیل کرنے کے اختیار کے مالک ہوگئے تھے۔ اورنگ زیب عالم گیر کو پکا مذہب پرست اورپابند شریعت بادشاہ سمجھا جاتا ہے لیکن چور کی سزا’’ہاتھ کاٹ دینا‘‘ جو قرآن حکیم میں مذکور ہے اورنگزیب نے اسے ختم کردیا تھا اور قطع ید کو سزائے قید میں بدل دیاتھا۔(۔ مرات احمد ازمرزا محمد حسن ص278)۔
ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے نزدیک تو بادشاہوں کے لئے اسلام سمٹ کردوچار کاموں کا نام رہ گیا تو قاضی ‘ میرِ عدل اور علماء بھی اس کے ساتھ تھے شہنشاہ نے’’شرائع محمدی‘‘ اور’’شعائر اسلامی‘‘ بجالانے کا حکم دیا چنانچہ اذان‘ خطبہ اور گاؤ کشی(گائے ذبح کرنا) کا انتظام کیا گیا۔ یہ کچھ ہوا تو بادشاہ نے اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ بقول اس کے آج تک اس قلعہ میں یہ’’شعائر اسلامی ‘‘سرانجام نہیں دئیے گئے تھے اور یہ ’’سعادت ‘‘ جہانگیر کو نصیب ہوئی تھی۔(۔تزک جہانگیری ذکر سولہواں جلوس برفتح قلعہ کا نگڑہ۔ خیال رہے کہ جدامجد شہنشاہ ظہیرالدین بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کے لئے جودصیت نامہ تحریرکیا تھا اس میں ابتدائی نصیحت یہ تھی ’’ گاؤکشی سے بالخصوص پر ہیزکرنا تاکہ اس سے تمہیں یہاں کے باشندوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں مدد ملے‘‘ (رووکوثر ص23) بعد میں مولانا قاسم نانوتوی نے فرمایا تھا’’ مسلمان ہندو مسلم اتحاد کی غرض سے گائے قربانی ترک کرسکتے ہیں‘‘(سوانح حیات شاہ محمد حسین الہٰ آبادی ص54))۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے ائمہ فقہ نے کسی زمانے میں جو قوانین اپنی فہم کے مطابق کتاب وسنت سے اخذ کئے تھے یا ان بنیادوں پر خود جو قوانین بنائے تھے ہمارے علماء ان ہی قوانین پر جم کر بیٹھ گئے تھے وہ وقت اور حالات کا ساتھ نہیں دے سکے تھے خیال رہے کہ میں یہ بات جمہور مسلمانوں کے بارے کہہ رہا ہوں شیعہ حضرات کی حیثیت الگ ہے۔ ان کے ہاں اجتہاد کے رویے جاری ہیں مسلمان زیادہ ترحنفی ہیں اور ہندوستان میں ان ہی کی اکثریت ہے۔ شہنشاہ عالم گیر جیسے سخت گیر پابند شرع بادشاہ نے’’قطع ید‘‘ جیسی سزا کو سزائے قید میں بدل دیا تھا تو اس کا سبب یہ تھا کہ اس نے اس سزا کو وقت اور ماحول کے مطابق نہیں سمجھا تھا یا اسے زیادہ سخت سزا سمجھا تھا۔ یہی حال دوسرے قوانین کا تھا۔ ایسے ہی حالات تھے جب شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی کتاب’’حجتہ اللہ البالغہ‘‘ تصنیف کی۔ اس میں انہوں نے فرمایا۔
’’شریعت کی بنیاد عالم گیر اصول ہیں لیکن عملی طور پر نافذ کرتے وقت پیغمبر قوم کی عادات ورسوم کو بھی نگاہ میں رکھتا ہے۔ تعزیرات اور انتظامی امور میں قوم کی روایات اور احوال وظروف کا ملحوظ رکھنا مناسب ترین طریق کار ہے لیکن آنے والی نسلوں پر ان احکام سے متعلق چنداں سختی نہیں کرنی چاہئے‘‘ (’’حجتہ اللہ البالغہ‘‘ص123)۔
علامہ شبلی نعمانی نے اصل عربی عبارت نقل کرکے اس کا ترجمہ کیا ہے اور آخر میں لکھتے ہیں’’ اس اصول سے یہ بات ظاہر ہوگی کہ شریعت اسلامی میں چوری‘ زنا‘ قتل وغیرہ کی جوسزائیں مقرر کی گئی ہیں ان میں کہاں تک عرب کی رسم اور رواج کالحاظ رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان سزاؤں کا بعینہ اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے‘‘۔(’ علم الکلام‘‘ اور’’ الکلام‘‘ شائع کردہ ’’دوست ایسوسی ایٹس‘‘ لاہور ص279)۔
شاہ ولی اللہ اور علامہ شبلی دونوں حضرات نے بات کھل کربھی کی ہے اور کچھ پردہ بھی رہنے دیا ہے۔ وہ زیادہ وضاحت میں نہیں گئے شاید انہیں عام علماء کے شواشرابا کا خطرہ تھا۔ انگریز کے آنے کے بعد اس طرح کی سزائیں تنقید کا نشانہ بنی ہوئی تھیں یہ بات صرف ہندوستان میں نہیں تھی تمام عالم اسلام میں چل رہی تھی۔ مصر میں’’الاخوان المسلمون‘‘ برصغیر کی جماعت اسلامی کی ہم نوا تنظیم تھی اس تنظیم کے ایک سرکردہ رہنما علامہ حسن الہضیبی نے مصری عدالت میں بیان دیا ’’صدر ریاست حدود کو موقوف کرسکتا ہے‘‘۔( ’’الاخوان المسلمون‘‘ از اسحاق موسیٰ الحسینی ص246‘ ص267)۔
اس کا مطلب ہے خود علمائے اسلام کے نزدیک وہ قوانین موقوف کئے جاسکتے ہیں جنہیں خدا کے بنائے ہوئے قوانین کہاجاتا ہے۔ ان تصریحات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قانون اندھا، بہرا، گونگا ہوا کرے قانون لاگو کرنے والوں کو اندھا، بہرا اور گونگا نہیں ہونا چاہئے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں کو جب جدید دنیا سے یک دم دوچار ہونا پڑا تو وہ اندھے‘ بہرے اور گونگے ہوکر قانون نافذ کرتے آرہے تھے، مصر پر فرانس کا قبضہ ہوا تو مسلمانوں کی متوارث عدالتیں بھی مخصوص شعبہ ہائے زندگی میں باقی رکھی گئیں اور لوگوں کو انصاف مہیا کرنے کے لئے ان کے متوازی جدید قوانین پر استوار فرانسیسی عدالتیں بھی کام کرنے لگیں دونوں کی کارکردگی میں نمایاں فرق تھا لوگوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ جس طرح کی عدالت میں چاہیں اپنے مقدمات لے جائیں۔ ان دونوں طرح کی عدالتوں کی کارکردگی کا موازنہ کرتے ہوئے مفتی محمد عبدہ‘ کے فاضل شاگرد علامہ رشید رضا نے لکھا
’’ لوگوں پر یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ جن عدالتوں میں فرانسیسی قانون کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے وہ ان عدالتوں کے مقابلہ میں حقوق کی زیادہ محافظ اور انصاف سے زیادہ قریب ہیں جن میں قانون کی بنیاد وحی آسمانی پر ہے حتیٰ کہ’’جامعہ ازہر‘‘ کے شیوخ تک ان فرانسیسی عدالتوں میں اپنے مقدمات لے جاتے ہیں‘‘۔(’’تاریخ الاستاذالامام عبدہ‘‘ ص621نیز دارالعلوم دیوبند جلد اول از ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ص47)۔
علامہ رشید رضا نے دونوں طرح کی عدالتوں کے طریق کار پر بھی بحث کی ہے۔
ہندوستان میں جب انگریزوں نے پوری طرح قدم جمالیے تو دیکھا کہ یہاں فرقہ بندی پوری عروج پر تھی۔ شیعہ حضرات کوتو شہنشاہ اور نگ زیب نے پوری طرح مسلمانوں سے ایک طرح سے الگ کررکھا تھا۔ یہاں حنفی مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن اہل حدیث فرقہ کے لوگ بھی موجود تھے ان دونوں میں بڑا فاصلہ تھا اور وہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے صادر کرتے رہتے تھے۔ اس وقت’’وہابی‘‘ کا لفظ اہل حدیث کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ حنفیوں کی طرف سے اس قسم کی کتابیں لکھی جارہی تھیں’’جامع الشواہدفی اخراج الوہا بیین عن المساجد‘‘ یعنی’’ وہابیوں کو مساجد سے نکالنے پر دلائل‘‘ اس کتاب پر بڑے بڑے علماء کے دستخط تھے(’ابوالکلام کی کہانی خود ان کی زبانی‘‘ از عبدالرزاق ملیح آبادی ص121)۔
ادھر اہل حدیث حنفیوں کے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے اس کااندازہ اس واقعہ سے لگائیے کہ ایک اہل حدیث مسجد کے امام نے ایک حنفی کی بیوی اغواء کرلی جب محلہ کے سرکردہ افراد نے مولوی صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا’’ ان حنفی لوگوں کا خون بہانا جائز ہے ان کا مال مال غنیمت ہے ان کی بیویوں پر قبضہ کرلینا بھی حلال ہے‘‘۔( ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ فروری1939ء ص99نیز ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ص142)
یہ تو مغلیہ دور میں ہی بڑی حدتک طے ہوچکا تھا کہ مذہب کو سیاست میں دخیل نہیں ہونا چاہئے۔ انگریزوں کی حکومت سے مسلمانوں کا مطالبہ یہی تھا کہ حکومت ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ وراثت اور نکاح طلاق کے تنازعات کے فیصلے مسلمانوں کی شریعت کے مطابق ہوں۔ مغلیہ دورمیں قاضی اپنی طرف سے کتاب وسنت کی تعبیر کرکے فیصلہ نہیں سنا سکتا تھا۔ اُسے کسی فقہی مسلک کے مطابق فیصلہ سنانا پڑتا تھا۔ ہاں اس پر یہ قید نہیں تھی کہ مدعی یا مدعی علیہ کے فقہی مسلک کے موافق فیصلہ سنائے لیکن برطانوی دور میں مقدمات کے سلسلہ میں بکثرت یہ سوالات اٹھائے گئے۔ ایک بڑا سوال یہ تھا کہ کس جج کا فیصلہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔
اس سلسلہ میں مولانا اشرف علی تھانوی نظرثانی کے بعد ایک کتاب ’’الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ‘‘ نام سے منظر عام پر آئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ قاضی کا مسلمان ہونا ضروری ہے بلکہ مقدمہ کی کارروائی لکھنے والا بھی مسلمان ہونا چاہئے۔ 1916ء میں مولانا ابو الکلام آزاد کی یہی رائے تھی۔ یہ عجیب بات تھی باقی تمام مقدمات میں جج کوئی بھی ہو اس کا فیصلہ قابل قبول لیکن اس خاص معاملہ میں یہ شرط کیوں؟ برصغیر تقسیم ہوا تو مغربی بنگال کا ایک مسلمان شہری مشرقی پاکستان آگیا اس نے اپنی بیوی کو اپنے پاس نہ بلایا اور نہ ہی اُسے طلاق دی بیوی کے والد نے حالات سے تنگ آکر عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے نکاح کو فسخ کرنے کا فیصلہ دے دیا مقامی علماء نے اس پر اعتراض کیا کہ غیر مسلم جج کا فیصلہ قابل قبول نہیں۔ اس آدمی نے مولانا ابو الکلام آزاد کے سامنے با ت رکھی انہوں نے عدالت کے فیصلہ کو شرعی قرار دیا اور کہا عورت عدت گزار کر دوسری شادی کرسکتی ہے۔(’ملفوظات آزاد‘‘ج1ص121)۔
پاکستان میں مدت سے عائلی قوانین نافذ چلے آتے ہیں لیکن یہاں جج کے مسلمان ہونے کے باوجود اگر عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ کرتی ہے تو مولوی اُسے صحیح نہیں سمجھتے۔ بہرحال برطانوی دور میں جج کو فریقین مقدمہ کے فقہی مسلک کا خیال بھی رکھنا پڑتا تھا اور یہی صورت حال آج بھی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ’’طلاق مکرہ‘‘ کا ہے یعنی کوئی ایک آدمی کو مجبور کرتا ہے اور اس سے طلاق کے الفاظ کہلوادیتا ہے۔ یاکوئی آدمی انہی باتوں باتوں میں ازراہ تفنن یہ الفاظ کہہ دیتا ہے فقہ کی مستندکتابوں کی روسے یہ طلاق واقع ہوجاتی ہے اور جج مجبور ہوتا ہے کہ فیصلہ ان کتابوں کے مطابق کرے ایسے ہی ایک مقدمہ میں جج کو لکھنا پڑا ’’ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ بہترین مستند کتب میں مذکور احکام شرع کے خلاف کوئی جدید قانون نافذ کریں خواہ موخرالذکربات ہماری ذاتی رائے میں کتنی ہی موزوں اور منصفانہ کیوں نہ ہو‘‘۔(’’ پاکستان میں اسلامی قانون کا مستقبل‘‘ از ملک محمد جعفر ص24)
یہ’’ بہترین مستند کتب‘‘ وہ ہیں جو صدیوں پہلے علماء نے اپنے زمانے کے حالات کو سامنے رکھ کر مرتب کی تھیں یہ علماء عرب بلاشبہ دیدہ ور اور صاحب بصیرت ہوں گے مگر ان کی نگاہ آنے والے زمانوں پر تو نہیں تھی۔ جدید زمانہ اپنے ساتھ جدید مسائل لے کر آیا تھا لیکن علماء کے پاس جدید سوچ نہیں تھی اس لئے وہ رہنمائی سے عاجز تھے۔ علماء کی جدید دنیا سے یہ بے خبری ملکی سیاسیات پر اثرانداز ہوتی رہی۔ اسمٰعیل پاشا مصر پر حکمران ہوئے تو انہوں نے علمائے ازہر سے کہا کہ وہ ملک کے لئے جدید زمانہ کے مطابق قوانین مرتب کردیں تاکہ انہیں ملک میں نافذ کیا جاسکے۔ علماء نے اپنی نااہلی کو اس عذر میں چھپا یا کہ شرعی قوانین کی تدوین نوبدعت ہوگی وہ علمائے سلف کی مخالفت نہیں کرسکتے ۔والی مصر نے طحطاوی سے نپولین کوڈ کا ترجمہ کرایا اور اسے ملک میں نافذ کردیا(’’الاستاذ الامام عبدہ‘‘ج1ص261)۔
ترکی میں جب مصطفےٰ کمال خلافت کی بساط لپیٹ کر جمہوریہ کا صدر بنا تو اس نے ترکی میں نافذ چلے آنے والے ‘‘شرعی قوانین‘‘ کو منسوخ کردیا اور سوئٹز لینڈ کا قانون اپنا لیا۔ جس کی رو سے وراثت میں مردا ور عورت کو برابر کا حصہ دار قرار دیا گیا۔ دوسری شادی پر پابندی لگادی یوں مذہب اور سیاست کو الگ کردیا گیا اور مذہبی علماء پر بھی حکومت سے لائسنس حاصل کرنے کی پابندی عائد کردی۔ کمال اتا ترک کے ان اقدامات پر یہاں کے علماء نے شور مچایا مگر ابوالکلام آزاد نے اسے علماء کی جدید دنیا سے بے خبری کا لازمی نتیجہ قرار دیا اور علامہ اقبال نے بھی کسی حدتک اس کی تحسین کی۔ ’(برطانوی ہندمیں مسلمانوں کا نظام تعلیم‘‘ص 40-41)۔
برطانوی ہند میں جن چند مسلمان مفکرین نے اسلام کے عملی نفاذ پر غور وفکر کیا ہے وہ اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اجتہاد کیا جائے اور نئے مسائل کا کتاب وسنت کے مطابق نیا حل تلاش کیا جائے مگر سوال یہ ہے کہ آج اگر کوئی شخص اجتہاد کرتا ہے تو اس کے اجتہاد کو تمام مسلمان تسلیم کرلیں گے؟ اس کا یقینی جواب نہیں میں ہے۔ اس کا علامہ اقبال نے ایک حل تجویز کیا ہے اور وہ یہ کہ اجتہاد کو قانون ساز اسمبلی کی طرف منتقل کردیا جائے۔ مختلف مذہبی گروہوں کی موجودگی میں اسمبلی ہی ایک ایسا ادارہ ہے جس کی شکل میں اجماع ظہور پذیر ہوسکتا ہے‘‘ یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسمبلی میں منتخب ارکان تو ضروری نہیں کہ علوم دین مین مہارت رکھتے ہوں یہ کیسے دینی مسئلہ میں اجتہاد کریں گے؟ اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ علامہ صاحب نے یہ کہہ کرجان چھڑائی کہ اسمبلی میں علماء کی نمائندگی ہونی چاہئے مگر یہ کیسے ہو؟ ہمارے ارباب سیاست نے اس کا حل اسلامی نظریاتی کو نسل کی تشکیل میں سوچا۔ یوں ہر پھر کر بات تھیاکریسی تک پہنچ گئی اور مولانا مودودی والی’’الٰہی جمہوریت‘‘ یا تھیو ڈیموکریسی اس ملک کا مقدر ٹھہری حالانکہ اقبال کہہ چکے تھے
’’ زندگی ایک ارتقاء پذیر تخلیقی عمل ہے جس کا فطری تقاضا یہ ہے کہ ہرنسل کو اپنے مسائل حل کرنے کاحق ہونا چاہئے ہر چند کہ وہ اپنی پیش نسل سے رہنمائی ضرورحاصل کرے گی‘‘۔ بحوالہ ایضاً ص43۔
جب مذہب کی کھنچی ہوئی لکیروں پر ہی چلنا ہے تو کوئی نسل اپنے مسائل کا آزاد طور پر سوچ کر حل کیسے تلاش کرسکتی ہے۔
*