نصیر احمد
پاکستان کے قیام کے بعد جن مذہبی جماعتوں نے ڈٹ کر تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی آہستہ آہستہ وہ اپنے آپ کو پاکستان کا حامی ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئیں۔ اس میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے جس نے مولانا مودودی کو تحریک پاکستان کےہراول دستے کی قیادت کرنےکا پراپیگنڈا شروع کر دیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ساٹھ ستر سال بعد بھی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکی۔جبکہ کچھ مذہبی جماعتیں اپنے موقف پر قائم رہیں۔جمعیت علما اسلام کے رہنما مولانا مفتی نے تو ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ تو پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔
حال ہی میں اردو میڈیا میں سرظفراللہ خان کی تحریک پاکستان میں خدمات کی تعریف و تحسین کی اور مجلس احرارپر پاکستان مخالف ہونے کا طعنہ دیا تو مجلس احرار بھی بغض معاویہ میں اپنے آپ کو تحریک پاکستان کے حامی کے طور پر پیش کرنے لگی ہے۔
مجھے اس سے غرض نہیں کہ سرظفر اللہ کی تحریک پاکستان میں کیا خدمات تھیں ۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد مجھے سر ظفراللہ کی اس ‘خدمت ‘ کا پتہ ہے جس کا خمیازہ پاکستانی قوم آج بھی بھگت رہی ہے اور وہ خدمت ہے اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی ڈٹ کر حمایت کرنا۔ اقلیتی ارکان اسمبلی جوگندر ناتھ منڈل اور چٹو پادھیائے کی آہ و بکا بھی سر ظفر اللہ کے قدم میں لغزش پیدا نہ کر سکی۔پاکستان میں اگر مذہبی انتہاپسندی کا عفریت ہمیں نگل رہا ہے تو اس میں سرظفر اللہ کا بھی کردار ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی جماعت خود بھی اسی قرارداد کا شکار ہوگئی اور آج قادیانیوں کی ایک بڑی تعداد دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔
مجلس احرار کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عمرفاروق لکھتے ہیں” قادیانی جماعت جسے میرے فاضل دوست نے محب وطن اور تحریک پاکستان کی حامی جماعت ثابت کرنا چاہتے ہیں مگر تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں”۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مجلس احرار ایک محب وطن اور تحریک پاکستان کی حامی جماعت تھی۔ ایسا جھوٹ تو ایک مذہبی جماعت ہی بول سکتی ہے اور تاریخ کو اپنے حق میں توڑنا موڑنا تو کوئی ان مذہبی جماعتوں سے سیکھے۔
ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے ایڈیٹر مولانا ابو عمار زاہد الرشدی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ “اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انکار کی ضرورت ہے کہ جمیتہ علما ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی”۔
مولانا مزید لکھتے ہیں کہ” ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ “ مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے دوم قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہوجائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آ سکیں گے،سوم مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندووں کے رحم وکرم پر رہ جائے گی”۔
مولانا زاہد الرشدی مزید لکھتے ہیں کہ “تحریک پاکستان کی مخالفت میں علما کرام میں سے سے نمایاں تین نام ہیں ۔۔۔ مولانا سید حسین احمد مدنی، امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری اورمولانا ابوالکلام آزاد”۔
امیر شریعت جناب عطا اللہ بخاری اپنی تقاریر میں پاکستان کو کافرستان،پلیدستان اور خاکستان وغیرہ کے خطاب دیتے تھے۔مجلس احرار کے ایک اہم رہنما مولانا مظہر علی اظہر جو کہ انتہائی متشدد فرقہ پرست تھے کا کہنا تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ کی مخالفت اس لیے کی مسلم لیگ میں شیعوں اور احمدیوں کی اکثریت ہے۔ ا نہی مولانا کا قائداعظم کے متعلق ایک مشہور شعر ہے کہ ‘اک کافرہ کے پیچھے اسلام کو چھوڑا، یہ قائداعظم ہے کہ کافراعظم‘۔ اس شعر سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے اندر پاکستان اور قائداعظم کے خلاف کتنی نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
مولانا مظہر علی اظہر انتہائی متشدد فرقہ پرست مولوی تھے جن کا کام ہی نفرت پھیلاناتھا۔1946 کے انتخابات میں جب مسلم لیگی امیدوار نے احراری امیدوارکو ہرایا تو مظہر علی اظہر کا کہنا تھا کہ “میرے صحابہ” لیگ کے خلاف ہتھیار ثابت ہوں گے ۔یادرہے کہ قائد اعظم شیعہ تھے اور “میرے صحابہ‘” ان کے ساتھی تھے ۔ دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان، اسی نفرت کا تسلسل ہے جو آج بھی ملک میں قتل و غارت میں مصروف ہے۔
مذہبی و دینی جماعتوں کے اس کردار کو دیکھتے ہوئے غیر مسلموں کا یہ دعویٰ درست نظر آتا ہے کہ اسلام امن و آشتی کا نہیں دہشت گردی کا مذہب ہے۔ اور جب بھی مسلمانوں کو اقتدار ملا ہے انہوں نے ایک دوسرے کی گردنیں ہی کاٹی ہیں ۔امیر شریعت عطا اللہ شاہ بخاری کی کچھ تقاریر انٹر نیٹ پر دستیا ب ہیں اور کچھ شائع بھی ہو چکی ہیں انہیں پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ” امیر شریعت” مخالفین کے خلاف کیسی نفرت انگیز زبان استعمال کرتے تھے۔
ان کی تقاریر میں علمیت تو دور دور تک نظر نہیں آتی ہاں نفرت انگیز پراپیگنڈہ، دوسروں کا مضحکہ اڑانا یا مسخرہ بازی کرنا ہی نظر آتا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ اکثر اپنے سننے والوں سے کہا کرتے تھے مجھے پتہ ہے کہ تقریر تم میری سنتے ہو مگر ووٹ تم مسلم لیگ کو دیتے ہو۔ یعنی “عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر”ان کی تقریر محض تفریح و طبع کے لیے سنتا تھا، جہاں تک سنجیدگی کا تعلق ہے توا س نے اپنا ووٹ مسلم لیگ کو دیا اور احراری امیدوار ہار گیا۔آج بھی اگر ان کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نفرت انگیز پراپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ لوگ اپنے مخالف کو کافر سے کم کچھ قرار دینے پر راضی ہی نہیں۔
♦
3 Comments