ارشد بٹ ایڈووکیٹ
بقول منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مہان امریکی قوم کی مہانتا کہیں کہوچکی ہےاور انہوں نے صدر بن کر امریکہ کی کہوئی ہوئی عظمت بحال کرنے کا دعوی کیا ہے۔
جنگ عظیم دوئم سے لے کر آج تک امریکہ کئی بار اپنےعظیم ہونے کی دھاک بٹھا چکا ہے۔ امریکہ نے اپنی عظمت اور دہشت کا پہلا ثبوت دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر دیا جس سے لاکھوں نہتے جاپانی لقمہ اجل بن گئے۔ مگر ستر کی دھائی میں سوپرپاورامریکہ کی دہشت اور خوف کو ویت نامیوں نے خاک میں ملا دیا۔ ہوچی منہ کی زیر قیادت بہادر ویت نامی عوام نے جدید اسلحہ سے لیس امریکی افواج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کر کے اپنے ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
دی گریٹ امریکہ کو یہ ذلت و رسوائی کیسے ہضم ہو سکتی تھی۔ اسکا بدلہ افغانستان میں سویت یونین کی فوجوں کو پسپا کر کے چکایا گیا۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں لاکہوں انسانوں کو زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔لاکھوں زندگی بھر معذور کر دئے گئے اورلاکھوں کی تعداد میں افغانوں کو بے گھر ہونا پڑا۔
معاملہ امریکی عظمت کے جھنڈے کو سر بلند کرنے کا تھا جس کے سامنے انسانی جانوں کی قدریا جنگ سے پیدا انسانی المیوں کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ نہ صرف افغانستان اور پاکستان بلکہ پوری دنیا آج تک اس جنگ کے ہولناک نتائج دھشت گردی کی شکل میں بھگت رہی ہے۔
امریکی عظمت کی پیاس امریکہ سے دور ممالک میں مسلسل جنگوں، خانہ جنگیوں، حکومتوں کے دھڑن تختوں اور بحران پیدا کرنے سے بجھائی جاتی ہے۔ عراق اور لیبیا میں امریکی فوجی کشی کتنے لاکھ نہتے عراقیوں اور لیبیائی عوام کی زندگیوں کو نگل گئی اسکا تو کوئی شمار بھی ممکن نیہں رہا۔ شام کی خانہ جنگی بھی ہزاروں کا خون بہا چکی جبکہ لاکھوں لوگ گھروں سے محروم ہو کر دنیا بھر میں بے کسی اور بے بسی کی تصویر بنے بے یار و مددگار در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ شام میں خانہ جنگی بھی مشرق وسطی میں امریکی اجارہ داری جاری رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ان جنگوں کا خونخوار تحفہ دھشت گرد تنظیموں کی شکل میں ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔
اب امریکہ کی عظمت کو امریکہ کے اندر سے بھی خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔ امریکہ امیگرینٹس کا ملک ہے۔ مگر سفید فام امیگرینٹس کی اکثریت رنگدار امیگرینٹس کی معمولی سی بڑھتی تعداد سے خطرہ محسوس کرنے لگی ہے۔ “گورا کارڈ” ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی مہارت سے استعمال کیا اور وہ کامیابی سے وائٹ ھاوس تک راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
اب امریکی ‘عظمت کی بحالی‘ کس قربانی کی طلب گار ہے۔ کیا یہ قربانی امریکہ میں مقیم تقریبا بیس لاکھ قانونی دستاویزات سے محروم انسانوں کو امریکہ سے بیدخلی کا پروانہ دے کر ادا کی جائے گئی۔ یا میکسیکو کی سرحدوں پر دیوار بنا کر یہ پیاس بجھ سکے گی۔ کیا مسلمان ملکوں سے امریکہ آنے والوں پر مزید قانونی پابندیاں اس عظمت رفتہ کی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکے گی۔ نزلہ تو کمزور پر ہی گر تا ہے۔ اگر امریکی عظمت ان بے بسوں اور لاچاروں کی قربانیوں سے بحال کرنے میں مددگار ہو تو یہ بڑا سستا نسخہ ثابت ہو گا۔ جس سے امریکی نظام سیاست و معاشرت پر سفید فام لوگوں کی دھاک بڑی آسانی سے بیٹھ سکتی ہے۔
مگر بحالی عظمت شائد اس سستے نسخے سے ممکن نظر نہیں آتی۔ کیونکہ معاملات شائد اس سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ امریکہ اب بھی ایک فوجی سوپر پاور تو کہلا سکتی ہے مگر اب وہ واحد معاشی سوپر پاور نہیں رہا اور نہ ہی اسکے مغربی اتحادی مستقبل میں دنیا پر اپنی اقتصادی بالادستی برقرار رکھنے کا دعوی کرتے ہیں۔ چین سے اٹھتی مشرقی ہوائیں گو کہ سرمایہ داری نظام کی گرمی ہی لئے ہوئے ہیں مگر یہ تیز و تند اقتصادی مشرقی ہوائیں مغربی معاشی ہواوں پر دن بدن اپنے غلبے میں اضافہ کرتی نظر آرہی ہیں۔ جبکہ روس اس ہواوں میں تیزی لانے میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ ان کےعلاوہ انڈیا بھی اڑنے کو اپنے پر تول رہا ہے۔ یاد رہے اس سے قبل جاپان دنیا بھر میں اپنی اقتصادی ترقی اور صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے۔
مستقبل میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی عالمی اقتصادیات و معیشت پر اجارہ داری برقرار نہ رہنے کے اشارے اور اعشارے دونوں مثبت نہیں ہیں۔ اب ‘دی گریٹ امریکہ‘ کو اپنے علاوہ دیگر اقوام کو بھی دی گریٹ کہنے کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔ معاشرے کے کمزور گروہوں اور رنگدار مہاجرین سے ناروا سلوک اور پابندیاں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کو عظیم تر کے منصب پر فائزکرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو ں گی۔
♥
2 Comments