دشمن کون؟

عطیہ خان۔ لندن

India-Pakistan-Border-Guards

پاکستان میں ہمیشہ ہندوستان کو دشمن ملک کہاجاتا ہے۔ پاکستانی اخبارات،رسائل اور ٹی وی چینلزمیں ہندوستان کے خلاف نفرت کا جس طرح اظہار کیا جاتا ہے اسے دیکھ کرحیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی اور دل کو سخت تکلیف پہنچتی ہے۔پاکستان کے سیاستداں اور مذہبی رہنمابڑے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں’’ہندوستان ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے‘‘ امریکہ اسرائیل اور بھارت پاکستان کو تباہ کردینا چاہتے ہیں۔ ’’اگر بھٹو نہ ہوتے تو بھارت پاکستان کو فلسطین بنا دیتا‘‘۔

بھارت کو اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ رکھنا شرپسندی کی حدہے۔ اسرائیل کس طرح فلسطینیوں کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے اسکی تازہ ترین مثال دنیا نے حال ہی میں دیکھی۔ حماس کے راکٹوں کے جواب میں اسرائیل نے 27دسمبر 2006ء کو غزہ پر حملہ کرکے تین ہفتوں تک مسلسل بمباری کی جس میں ڈیڑھ ہزار کے قریب فلسطینیوں کی جان گئی ان میں بڑی تعدادمیں بچے بھی شامل تھے۔ کئی ہزار فلسطینی زخمی ہوئے غزہ میں اسکول، کالج اور ہسپتالوں تک بم گرتے اور رہائشی مکانوں پربمباری کرتے ان کی کرچیں بکھیردیں۔

امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کرکے وہاں بے قصور عوام کو مارا اور دونوں ملکوں کو تباہ کردیا تو ہے کوئی ایسی مثال ہندوستان کے مظالم کی جو اسے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ پاکستانی جہادی برابر ہندوستان پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کو معلوم ہے ان دہشت گردوں کی تربیت کے مرکز کہاں ہیں لیکن آج تک ہندوستان نے اُن پر حملہ نہیں کیا۔

ہندوستان کی آزادی جو انگریزوں کے مظالم اور جیل کی صعوبتیں برداشت کرکے حاصل کی گئی تھی وہ مسلم لیگ کی علیحدگی پسندی کی وجہ سے خون میں نہاگئی اسکے بعد بھی جو زمین انھیں ملی اس پر ایک مثالی اسلامی حکومت قائم کرنے کی بجائے فوراََ کشمیر پر حملہ کردیا جس کی وجہ سے وہاں کے راجا کو ہندوستان کی فوجی مدد کی ضرورت پڑی اور اس لئے انھوں نے ہندوستان سے الحاق کرلیا۔پاکستان نے حملہ کرکے کشمیر کے جس حصّے پر قبضہ کیاتھا اسے تو آزاد کشمیر کہنے لگے اور جو ہندوستان میں شامل ہوگیا تھا اس پر قبضے کے لئے برابر جہادیوں کو بھیجا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا ہے۔

ان جہادیوں کی دہشت گردی کی وجہ سے بہت سے ہندو کشمیر میں مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے سے آباد تھے وہ یا تو ہندوستان کے دوسرے شہروں میں جابسے یا کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے اور بہت سے ہندو مارے بھی گئے۔ بہت سے کشمیری مسلمان بھی اس دہشت گردی سے تنگ آ کر ہندوستان کے دوسرے شہروں میں آکر آباد ہوگئے۔ ان لوگوں سے وہ باتیں معلو م ہوئی ہیں جو اخباروں میں نہیں آتیں۔

ان سے معلوم ہوا کہ یہ جہادی مقامی لوگوں کے گھروں میں جاکر پیسے مانگتے ہیں اور اگر پیسے نہیں ملتے تو جو سامان نظر آتا ہے اس اٹھاکر لے جاتے ہیں ۔یہ کہہ کر ہم تمہاری آزادی کی لڑائی لڑرہے ہیں اگر گھر میں کس خوبصورت لڑکی پر نظر پڑگئی تو اسی وقت نکاح پڑھا کررات اس کے ساتھ گزار کر صبح چند روپے مہر کے اس کے ہاتھ پر رکھ کر طلاق دیکر چل دیتے ہیں۔ گھر والے شرم کی وجہ سے کسی سے اسکا ذکر نہیں کرتے۔

کشمیر کے غریب اور بے روزگار نوجوانوں کو ہندوستان کے خلاف بھڑ کاکر انہیں بھی اپنی دہشت گردی میں شریک کرلیتے ہیں۔ اس دہشت گردی کا مقابلہ ہندوستان فوج کرتی ہے اور اس سلسلے میں اس سے بہت ناانصافیاں اور زیادتیاں بھی ہوتی ہیں۔ بہت سے معصوم لوگ شک کی بنا پر مارے جاتے ہیں۔یہ زیادتیاں قطعی ناقابل قبول ہیں۔ لیکن یہی زیادتیاں پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے کی تھیں اور پاکستان جو ہر وقت کشمیریوں پر ہندؤں کے مظالم کا روناروتے ہیں انھیں یہ یاد نہیں آتا کہ بنگلہ دیش کی لڑائی میں لاکھوں مسلمانوں کو مسلمانوں ہی نے مارا تھا اورمسلمان فوجیوں نے مسلمان عورتوں کی عزت لوٹی تھی۔

کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈر جو پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں وہ اپنی لڑائی کو کفر اور اسلام کی لڑائی کہتے ہیں۔ اکتوبر2008ء کے الیکشن میں اپنے علیحدگی پسند رہنماؤں کے مشورے کے خلاف کشمیری بڑی تعداد میں ووٹ دینے آئے اور اپنی نئی حکومت قائم کی تو ایک شدت پسند لیڈر نے کہاکہ یہ اسلام پرکفر کی فتح ہے اور میں اسکے خلاف ہمیشہ لڑتا رہوں گا۔

چین اور پاکستان کے حملوں کے بعد ہندوستان نے اپنی حفاظت کے لئے ایٹم بم بنایا تھالیکن اس وقت کبھی نہ پہل کرنے کا اعلان بھی کردیا تھا لیکن جب پاکستان نے ایٹم بم بنایا تو یہ اعلان نہیں کیا۔26نومبر2008ء کے بمبئی پر حملوں سے پہلے جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جودوستی کی راہ ہموار کررہی تھی اسے دیکھتے ہوئے زرداری صاحب نے بھی نو فرسٹ سٹرائیک کا اعلان کردیا تھا جس پر وہاں کے دانشور صحافی ٹی وی پر سخت ناراضگی کا اظہار کررہے تھے۔ ’’آج تک کسی نے ایٹم بم بناکر یہ اعلان نہیں کیا اور اگر اسے استعمال نہیں کرنا ہے تو بنانے سے فائدہ ہی کیا؟‘‘

بمبئی کے حملوں کے بعدجو دونوں ملکوں کے جو تعلقات خراب ہوئے تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ فوراََ ہندوستان پر ایٹم بم گرا دینے کے خواہشمند ہیں۔ ایک سابق وزیر انتہائی غصے کے عالم میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے تھے ’’ اگر بھارت آیا تو ہم اسے تباہ کرڈالیں گے۔‘‘ وہاں دہشت گردی کے جوواقعات ہوتے ہیں ان میں ہمیشہ بھارت کا ہاتھ نظر آتا ہے۔

مارچ2009ء میں جب لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پرحملہ ہوا تو فوراََ ایک سابق وزیر نے اعلان کردیا کہ یہ بھارت نے کرایا ہے۔ مارچ میں دوسرا دہشت گرد حملہ لاہور میں پولیس ٹریننگ سنٹر پر ہوا تو بھی فوراً الزام بھارت کے سرتھوپ دیا گیا۔ اس حملے میں چند دہشت گردگرفتار بھی ہوئے تھے ان سے یہ کیوں نہیں معلوم کیا گیا کہ اس میں کس کاہاتھ ہے۔ ان دہشت گردوں کو کہاں تربیت ملی ان کے سرپرست کون ہیں۔ اگر ہندوستانی ہیں تو ان کے نام پتے بتائیں۔
بمبئی پر جب پاکستان سے بھیجے گئے دہشت گردوں نے حملہ کیا تو صرف ایک دہشت گرد پکڑا گیا۔ جس سے ساری معلومات حاصل کرکے پاکستان کو فراہم کی گئیں۔

لیکن اب بھی پاکستان نے اپنی ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ اب بھی وہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حملہ خود ہندوستان کاکام ہے۔ پاکستان بغیر کسی ثبوت کے ہندوستان پر الزام لگاتا رہتا ہے۔ بلوچستان میں جو علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے وہ پاکستان سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے ہے لیکن پاکستانی اسے ہندوستان کی دخل اندازی کہتے ہیں۔ جس کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کرسکے تو پنجاب کے ایک وزیر نے فرمایا کہ بھارت کے ہاتھ اگر صاف ہیں تو اسے یہ موثر طریقے سے ثبوت پیش کئے بغیر ہندوستان سے جواب طلب کرتے ہیں۔

حال ہی میں صدر اوبامہ نے کہا اسلام آباد کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہندوستان سے پاکستان کوکوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کو خطرہ اپنے ہی ملک کے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے ہے۔ زرداری صاحب نے بھی یہ بات کہہ دی تو وہاں کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے جو بیان آئے ان کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندوستان ہی پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اسے دشمن نہ سمجھنا بڑی حماقت ہے۔

پاکستانیوں کویہ یاد نہیں کہ واجپائی صاحب نے ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان سے دوستی کی کوشش کی تھی اور فروری1999ء میں دوستی کی بس لے کر نواز شریف جواس وقت پاکستان کے وزیر اعظم تھے ان سے ملنے پاکستان گئے تھے۔ اسوقت پاکستان کے کئی لیڈروں نے ایک ہندو سے ہاتھ ملانا بھی کفر سمجھا اور واجپائی صاحب نے دوستی کی جو کوشش کی تھی اسے ٹھکراکر کار گل پر حملہ کردیا تھا۔ اس لڑائی میں پاکستان نے اس طرح ہندوستان کی پیٹھ میں چھرا گھوپنا تھا جب کہ پاکستان کے عزیز دوست چین نے دوستی کا معاہدہ کرنے کے بعد1962ء میں اچانک ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا۔ کارگل کی لڑائی کیلئے ہندوستان قطعی تیار نہیں تھا اس لئے ہندوستان کا بڑا جانی نقصان ہوا اور عوام میں پاکستان کے خلاف سخت نفرت پھیل گئی۔

ہندوستانی ابھی کارگل کی لڑائی سے پوری طرح سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ پاکستانی دہشت گردوں نے انڈین ائرلائن کاہوائی جہاز نیپال سے ہائی جیک کرکے قند ھار لا کھڑا کیا۔ اسکا مقصد ان تین انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو آزاد کرانا تھا جو پاکستان سے ہندوستان میں جہاد کرنے آئے تھے اور پکڑے جانے کے بعد جیل میں تھے۔ ہائی جیکرز کا مطالبہ تھا کہ ان تینوں کو آزادکیا جائے ورنہ وہ سارے مسافروں کو ختم کردیں گے۔

ایک مسافر کی جان تولے ہی چکے تھے۔ اپنے مسافروں کی جان بچانے کیلئے ان تینوں دہشت گردوں کو مجبوراََ قندھارلے جاکر ان کے حوالے کرنا پڑا۔ ان تینوں میں ایک مولانا مسعوداظہر تھے جنہوں نے پاکستان پہنچتے ہی اپنی تنظیم جیش محمد بنائی جس کا مقصد ہندوستان کوتباہ کرنا تھا دوسرے عمر سعید شیخ نام کے ایک صاحبزادے تھے جو لندن اسکول آف اکنامکس میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر پاکستان کی طرف سے ہندوستان میں جہاد کرنے گئے تھے بعد میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل میں ملوث ہوئے۔

اس موقع پر برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے صحافیوں کوبیان دیا کہ اس ہائی جیکنگ سے پاکستان کاکوئی تعلق نہیں ہے یہ کام ہندوستان نے خود کرایا ہے پاکستان کو بدنام کرانے کیلئے پاکستان کی حکومت نے بھی اس واقعہ پر کسی قسم کی ندامت کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی دہشت گردوں اور ہوائی جہاز اغوا کرنے والوں کو کوئی سزادی گئی۔

واجپائی انتہائی سمجھدار سیاستدان تھے انھیں یہ احساس تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات دونوں ملکوں کی بہتری کے لئے ضروری ہیں اس لئے انھوں نے دوسری بار دوستی کی کوششوں کی اور 15 جولائی 2001 ء کو جنرل مشرف کو ہندوستان آنے کی دعوت دی اور مشرف سے درخواست کہ وہ کشمیر میں دہشت گرد بھیجنا بند کردیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ دہشت گرد نہیں مجاہدین آزادی ہیں۔ پاکستان سے دوستی کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔

13دسمبر2001ء کو پاکستانی دہشت گردوں نے ہندوستان کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا۔ اسے بھی پاکستان نے ہندوستان کا خودساختہ کام بتایا اور کوئی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا۔ ہندوستان کی عوام میں سخت غصہ اور بے چینی پھیل گئی اور پاکستان کے طرف سے مسلسل ہندوستان کو ذلیل کرنے کی کوششوں کا بدلہ لینا ضروری سمجھنے لگے۔ عوام کے موڈ کو دیکھ کر واجپائی صاحب نے سرحد پر فوج اکٹھا کرنا شروع کردی۔ پاکستان کی طرف سے بھی جنگ کی تیاریاں ہوئیں۔

اگر ہندوستان میں ایسے لوگ ہیں جو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھتے ہیں اور پاکستان میں بھی تو ایسے لوگ ہیں جو دہلی کے لال قلع پر پاکستانی جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں طبقے چاہتے تھے کہ جنگ ہو اور انکی خواہش پوری ہوجائے لیکن واجپائی کو معلوم تھا کہ جنگ سے دونوں ملک تباہ ہوجائیں گے۔ انھوں نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے فوجیں اکٹھاکی تھیں تاکہ پاکستان دہشت گردوں کو ہندوستان آنے سے روکے۔

جنرل مشرف نے امریکہ کے دباؤ میں آکر دوچار دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگائی تو واجپائی نے سرحد سے فوج بلالی اور کہا۔ میں تیسری اور آخری بار پاکستان سے دوستی کی کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ اور اسی نیت سے وہ جنوری2004ء میں سارک کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان گئے اور دوستی کی راہ اس قدر ہموار کرلی کہ انھیں رخصت کرتے ہوئے جنرل مشرف نے کہا دہشت گردی ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے اور ہمیں ملکر اسے حل کرنا چاہئے(اسوقت تک مجاہدین جنرل مشرف کی زندگی پر دوحملے کرچکے تھے۔)

جنوری2004ء سے دونوں ملکوں کے درمیان مسائل حل کرنے اور تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں جاری تھیں اور امید تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار من قائم ہوجائے گا لیکن اچانک 26نومبر 2008 کو بمبئی پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا اس حملے کو بھی حسب معمول ہندوستان کا خودساختہ کہاگیا لیکن جب اجمل قصاب کے بیان سے ثابت ہوگیا کہ وہ پاکستانی ہے اور اس حملے کی تیاری پاکستان میں ہوئی تھی۔ پاکستانی حکومت کو مجبوراََ اے پاکستانی تسلیم کرنا پڑا۔ لیکن حکومت نے اس حملے کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اسکی ذمہ داری نان اسٹیٹ تنظیموں پر ڈالی گئی۔ جو تنظیمیں پاکستان کی سرزمین پر کام کررہی وہ نان اسٹیٹ کیسے ہوگئیں اور اگر حکومت ان سے ناواقف ہے تو یہ حکومت کی نااہلی ہے۔ ان جہادی تنظیموں کو حکومت کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔

طالبان جن کے خلاف پاکستانی فوج کارروائی کررہی ہے وہ پاکستان کے مدرسوں میں تیار کئے گئے تھے۔ افغانستان میں انکی حکومت کو بھی سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا تھا۔ اس کے پیچھے بھی ہندوستان سے دشمنی کا جذبہ کارفرما تھا۔ نومبر کے حملے کے بعد ہندوستان کے عوام میں پاکستان کے خلاف بے انتہا غصہ اور نفرت پھیل گئی اور وہ جنگ کا مطالبہ کرنے لگے۔ حکومت جنگ تو نہیں چاہتی تھی لیکن جمہوریت میں عوام کے جذبات کا احترام کرنا پڑتا ہے تو ایک بار پھر ہندوستان نے فوج سرحد پر اکٹھا کی۔

جواب میں پاکستان نے بھی اپنی فوج سرحد پر اکٹھا کی۔ ان دنوں پاکستانی ٹی وی چینلوں پر جو پروگرام ہوتے تھے ان میں بڑے فخر سے کہا جاتا تھا کہ اگر بھارت سے لڑائی ہوئی تو یہ سب شدت پسند جو فاٹا اور سوات میں لڑرہے ہیں وہ اپنے ہتھیار لیکر پاکستان کی طرف سے لڑنے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ ان شدت پسندوں کے پاس ہتھیار کہاں سے آتے ہیں یہ پاکستان کی حکومت نے معلوم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔اب ان ہتھیاروں سے وہ پاکستان کی فوج سے لڑرہے ہیں پاکستان ہندوستان کے خلاف جہاد کے بجائے اگر اپنے ملک میں غریبی، جہالت اور پسماندگی کے خلاف جہاد کرتا تو آج وہ ایک ترقی یافتہ پرامن ملک ہوتا۔

پاکستان نے دشمنی میں ہندو ستان کو تو نقصان پہنچایا ہی لیکن اس سے زیادہ نقصان خود اپنے آپ کو پہنچا یا ہے۔ دونوں ملک انتہائی غریب ہیں اور اس دشمنی کی وجہ سے ہتھیاروں پر حیثیت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ جسکے نتیجے میں عوام کی صحت، تعلیم اور خوشحالی کے لئے جو کام ہونا چاہئیں وہ نہیں ہوپاتے۔ یورپ کے ممالک نے پچھلی صدی کی دو بڑی جنگوں کے بعد یہ سبق سیکھا کہ دشمنی کے مقابلے میں دوستی اور مل جل کر رہنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ نتیجے میں یورپی یونین کا قیام ہوا۔ اور اب تمام ممبر ممالک کے لوگ آزادی سے ایک دوسرے کے ملک میں جاکر کام کرسکتے ہیں۔ لڑائیوں نے جن ملکوں کو تباہ کردیا تھا وہ اپنی پرانی دشمنیوں کو بھلا کر اب پرامن ماحول میں ترقی کررہے ہیں۔ کیا برصغیر میں ایسا نہیں ہوسکتا؟

محترمہ عطیہ خان لندن میں مقیم ،بھارتی نثراد شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔

Comments are closed.