گرداب).ایک ایکٹ کاڈرامہ)

تحریر: خالد محمود

Career-In-Medical-Representative

منظر: ایک نہایت ہی پوش میڈیکل کمپلیکس کی لابی میں فارما سوٹیکل کمپنی کے نمائندے شہر کے ماہر ڈاکٹرز سے اپنی باری ملنے کے منتظر ہیں۔ان کی نظریں ڈاکٹر کے چیمبر کے وقفے وقفے سے کھلتے اور بند ہوتے دروازے پر جمی ہیں۔وہ کبھی اپنی شرٹ کی سلوٹیں درست کرتے ہیں اور کبھی اپنا ڈیٹیلنگ بیگ کھول کر چیزوں کی ترتیب کو اپنے رٹے ہوئے سبق کے مطابق بار بار چیک کرتے جاتے ہیں اور ساتھ سرگوشیوں میں اپنے لاتعداد حاضریوں کے باوجود پریسکرپشن نہ ملنے کا گلہ بھی کرتے جاتے ہیں۔

اتنے میں ایک دیسی کمپنی کا باریش نمائندہ نہایت قیمتی ایک برانڈڈ شلوار اور کرتے میں ملبوس ہاتھ میں ایک لفافہ پکڑے ایک منہ زور سانڈ کی طرح لابی میں داخل ہوتا ہے۔ایک حقارت اور رعونت بھری نظر سے تمام بیٹھے ہوئے نمائندوں کو دیکھتا ہے۔وہ ڈاکٹر کے اسسٹنٹ کو آنکھ مارتا ہے۔اگلے مریض کے باہر آنے پر اسسٹنٹ اسے اندر دھکیل دیتا ہے ۔باہر نمائندے اسسٹنٹ سے احتجاج کرتے ہیں وہ انہیں یہ کر خاموش کرا دیتا ہے کہ کال کرنی ہے تو بیٹھے رہو ورنہ چلے جاؤ یہاں سے۔

مکالمہ:
ڈاکٹر: آؤ بھائی حاجی عبداﷲ کیسے ہو تم؟
عبداﷲ: الحمدوﷲ سب ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب۔عمرہ مبارک ہو ڈاکٹر صاحب! باس نے آپ کو مبارک باد بھیجی ہے۔اگلے ہفتے خود حاضر ہوں گے۔

ڈاکٹر: بھائی عبداﷲ یہ تو سب آپ لوگوں کی دوڑ دھوپ کا ثمر ہے ورنہ رمضان میں تو عمرے کی بکنگ بند ہو چکی تھی۔اچھا یار اپنا سٹاک دیکھ لینا سٹور پر۔ابھی کم نکلا ہو گا کیونکہ 15 دن کے بعد آج آئے ہیں۔

عبداﷲ: ہاں سر سٹاک تو سارا پڑا ہے ابھی۔

ڈاکٹر:فکر نہ کرو یار اسی ہفتے دیکھ لینا نکل جائے گا سارا۔جب تم اتنا خیال رکھتے ہو ہم بھی تمہیں شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔یہ بتاؤ اس بقر عید پربچھڑا کتنے میں مل سکے گا؟ہے کوئی اندازہ؟

عبداﷲ: نوازش ہے سر آپ کی!بچھڑے کی قیمت تو چڑھ جائے گی اس دفعہ۔سر ویسے باس کہہ رہے تھے کہ اونٹ زیادہ مناسب آپشن ہے۔گوشت بھی زیادہ ہوتا ہے اور قیمت بھی مناسب رہے گی۔اور اسلامی روایت کی پاسداری بھی۔

ڈاکٹر: یار تمہارے باس کا خیال برا نہیں ہے ۔ تمہاری بھابھی اور بچے بھی اونٹ کی ضد کر رہے ہیں اس دفعہ!

عبداﷲ: سر اس کی ذرا بھی فکر نہ کریں آپ۔باس نے پہلے سے سوچ رکھا ہے۔ سر یہ رہا آپ کا بلینک چیک (لفافہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے)۔سرقیمت کی پرواہ مت کیجئیے گا جانور کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔بلکہ مجھے حکم کیجئیے گا۔سر اکٹھے ہی دیکھ لیں گے۔

ڈاکٹر: بالکل یار تم نے تو میری ساری پریشانی ہی ختم کر دی ہے۔مجھے ذرا اگلے سٹاک کا شیڈول بھی بتا دینا کسی دن۔
عبداﷲ: ضرور سر۔اب اجازت چاہتا ہوں۔

ڈاکٹر:اٹھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے۔اپنا خیال رکھنا بھائی۔اتوار کو آنا دوپہر کا کھانا اکٹھے کھائیں گے۔

دروازہ کھلتا ہے تو باہر بیٹھے میڈیکل ریپس کے لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر عبداﷲ تیزی سے باہر نکل جاتا ہے۔

اختتام

Comments are closed.