حافظ سعید:نظر بندی اور سول۔ملٹری تعلقات 

ایمل خٹک  

جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی نظربندی اور فلاح انسانیت فاونڈیشن کو واچ لسٹ پر ڈالنا ایک اہم حکومتی اقدام ہے ۔ اور اگر اس پر ثابت قدمی سے قائم رہا جائے تو اس کے اندرون ملک اور بیرون ملک دور رس اثرات پڑیں گے۔ حکومتی ایوانوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ حالیہ دہشت گردی کی کاروائیوں سے ایک طرف پاک انڈیا تعلقات کو معمول پر لانے اور علاقائی امن اور تعاون کی کوششوں کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ تو دوسری طرف مغربی ممالک کے دباؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اور سفارتی تنہائی کی ایک اہم وجہ عسکریت پسندوں کی کاروائیاں ہیں۔  فوجی قیادت میں تبدیلی سے سویلین قیادت نے تھوڑا سکون کا سانس لیا ہے کیونکہ نئے لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کیلئے کچھ وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سویلین قیادت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جاری پالیسیوں کا قبلہ درست کرنے کی کوشش شروع کی ہے ۔ 

یہ کاروائی بھی ایک اہم پالیسی قدم ہے۔ داخلی اور بیرونی دباؤکے تحت حکومت نے وزارت داخلہ کو ایک مکتوب مورخہ 27 جنوری کے مطابق فلاح انسانیت فاونڈیشن اور جماعت دعوت کے پانچ راہنماوں کی حفظ ماتقدم کے طور پر نظر بندی کا حکم دیا گیا ہے ۔ ان راہنماؤں میں حافظ سعید کے علاوہ عبداللہ عابد، ظفر اقبال، عبدارحمان عابد اور قاضی کاشف نیاز شامل ہیں۔ اس طرح لشکر طیبہ پر جنوری 2002 اور جماعت الدعوۃ پر دسمبر 2008 میں پابندی کے بعد اب فلاح انسانیت فاونڈیشن کو بھی چھ ماہ کیلئےاینٹی ٹیررازم ایکٹ مجریہ 1997 کے تحت زیر نگرانی تنظیموں کی فہرست (شیڈول دوم ) میں شامل کیا گیا ۔ 

ایک دہشت گرد تنظیم ڈیکلئر ہونے کے بناء پر لشکر طیبہ پر پاکستان کے علاوہ انڈیا ، امریکہ ، برطانیہ اور یورپی یونین میں بھی پابندی عائد ہے ۔ اور اقوام متحدہ نے القاعدہ سے تعلق کی بناء پر اس کو دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کی فہرست میں ڈالا ہے اور جماعت الدعوۃ کو لشکر طیبہ کی فرنٹ تنظیم قرار دیا ہے ۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 2008 میں جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیم قرار دئے جانے کے بعد پاکستان میں بھی اس پر پابندی عائد کی گئی۔ امریکہ نے حافظ سعید کی گرفتاری میں مدد دینے پر دس ملین ڈالر کا انعام بھی رکھا ہے۔  

اقتدار کے ایوانوں میں حافظ سعید کے کردار کے حوالے سے ناراضگی اور فرسٹریشن بڑھ رہی ہے ۔ بند کمرے کے اجلاسوں کے احوال اور چہ میگوئیاں کسی نہ کسی طرح باہرنکل آتی ہیں ۔ چند ماہ قبل قومی اسمبلی کی اسٹنڈنگ کمیٹی برائے خارجہ امور  کے اجلاس میں مسلم لیگی ایم این اے رانا محمد تنویر کا یہ  بیان کہ حافظ سعید کونسے انڈے دیتا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم نے اس کو پال رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مسئلہ کشمیر کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کسی بھی ملک جائیں وہاں کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات حافظ سعید کی وجہ سے خراب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے دنیا ہمیں تنہا کرکے دہشت گرد ملک قرار دینے کی کوشش کرتی ہے ۔ 

اس طرح سینیٹر اعتزاز حسن کے چند ماہ قبل پارلیمان میں کہے گئے اس جملے پر بھی کافی لے دے ہوئی کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز  کی وجہ سے ملک سفارتی تنہائی کا شکار ہوا ہے اور حکومت قومی منصوبہ عمل کے تحت نان اسٹیٹ ایکٹرز کی سرگرمیاں روکنے میں ناکام رہی ہے جو  ملک بھر میں دندناتے پھر رہے ہیں اور کھلے عام ریلیاں نکال رہے ہیں ۔ اور جلسے کر رہے ہیں۔ 

سیاسی اور فوجی قیادت کی اہم سلامتی امور پر اختلافات کی خبریں اب تو کھلا راز ہے ۔ سیاسی اور فوجی قیادت کی مابین سنگین اختلافات رائے کی جھلک  ہمیں ڈان لیکس میں بھی ملتی ہے ۔ جہاں تک سول ملٹری تعلقات کی بات ہے تو اس میں تین باتیں اہم ہیں ۔ ایک تو 1958 کے بعد سول ملٹری تعلقات میں توازن ملٹری کے حق میں بگڑ چکا ہے ۔ دوسرا حساس قومی معاملات کی فیصلہ سازی میں سول کا رول واجبی سا بن گیا ہے ۔تیسرا ان تعلقات میں اتار چڑھاؤ اب ایک نارمل بات ہے ۔ ماضی کی حکومتوں کے برعکس سابق آرمی چیف اور موجودہ وزیراعظم کے تعلقات نسبتاً اچھے رہے ۔ جس کی ایک اہم نشانی دونوں کے درمیان متواتر اور کثرت دے ملاقاتیں تھی ۔ 

جنرل راحیل شریف نے میاں نواز شریف سے 87 ملاقاتیں کی ہیں جو کہ کسی آرمی چیف کی پاکستانی وزیراعظم سے ریکارڈ ملاقاتیں ہیں ۔ مگر ان ملاقاتوں اور کسی حد تک ہم آہنگی کے باوجود دونوں اداروں یعنی حکومت اور فوج میں شکوک و شبہات اور اعتماد کا فقدان رہا ۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں اور احتجاج کے پیچھے اسٹبلشمنٹ کی آشیرواد اور پس پردہ حمایت کےالزامات لگتے رہے۔ اور حکومتی حلقے نے برملا کچھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کے نام بھی لیے ۔ دھرنوں کے عروج اور بعد کئی اہم پالیسی معاملات میں سویلین حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے ۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی پسپائی اختیا کی تھی ۔   

سویلین اور فوجی قیادت عسکریت پسندی کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ۔ عسکریت پسندی اور خصوصاً حافظ سعید کے بارے میں حکومتی حلقوں میں چار قسم کے خیالات موجود ہیں ۔ ایک اس کو سفارتی تنہائی کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے ، دوسرا اس کو پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے اور تیسرا ان کو سخت بیرونی دباوُ کی ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ چوتھاحکومتی حلقوں میں اڑی واقعے کا شک لشکر طیبہ پر کیا جارہا ہے۔۔  اور یہ احساس بڑا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے اور عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کے حوالے سے نئی پہل کاری جو انڈیا کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتی تھی عسکریت پسند کاروائیوں کی وجہ سے ناکام ہوگئی ۔

سویلین کی نسبت فوجی حلقوں کی ان کے بارے میں سوچ مختلف ہے ۔ فوجی حلقے اس کو ایک اہم سٹرٹیجک اثاثہ سمجھتے ہیں ۔ انڈیا کو زک پہنچانے اور نیچا دکھانے کے لیے وہ اور اس کی تنظیم ایک اہم ہتھیار ہے ۔ ان حلقوں کے مطابق عسکریت پسند انڈیا کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں ورنہ انڈیا کو نکیل ڈالنا مشکل تھا۔ اور بغیر جنگ اور کم سے کم جانی اور مالی  نقصان کے انڈیا کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اور اہم فوجی مقامات پر حملوں کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔  اسلئے ان اثاثوں کو جو کئی تجزیہ کاروں کی نزدیک اب اثاثوں کی بجائے لائبلٹی یعنی بوجھ بن چکا ہے کو آسانی سے ترک کرنے والے نہیں ۔ پلان بیاور پلان سیتیار ہے اور گھوڑا وہی ہوگا زین بدل جائیگی ۔ 

پاک۔انڈیا پراکسی وار زوروں پر ہے ۔ اسٹبلشمنٹ کے اندر غالب اکثریت انڈیا سے نرمی کے حق میں نہیں جبکہ کچھ حلقے بلوچستان میں مداخلت بند کرنے کے عوض انڈیا کو رعایت دینے کے حامی ہیں۔ اور باتوں کے علاوہ اس سلسلے میں حال میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹنٹ جنرل امیر ریاض کا انڈیا سے سی پیک کی مخالفت چھوڑنے اور اس میں انڈیا کو شمولیت کی دعوت کے بیان کو اہمیت دے رہے ہیں۔  اس بیان پر چینی حکومت نے بھی خوشی کے شادیانے بجائے تھے اور مثبت ردعمل کا اظہار کیا تھا ۔  کو ئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ بھارت دشمنی چھوڑ کر افغانستان ، ایران اور سینٹرل ایشیا کی ممالک کے ساتھ مل کر سی پیک سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ 

 کسی فوجی حلقے کی طرف سے یہ بیان انتہائی اہم ہے کیونکہ پاکستان میں بھارت کے ساتھ دوستی میں سب سے بڑی رکاوٹ فوج  کو سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں کئی مواقعوں پر سیاسی قائدین کی جانب سے بھارت سے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کو فوج نے ویٹو کیا ہے۔ فوج کا بھارت کے حوالے سے موقف بڑا جارحانہ اور غیر لچکدار رہا ہے۔ سدرن کمانڈر کا یہ بیان ،ادارہ جاتی سوچ میں نئے رحجانات اور اندرونی سوچ و بچار میں تبدیل کی غمازی کر رہی ہے ۔ گو کہ یہ تبدیلی ابھی بہت ہی ابتدائی نوعیت کی ہے مگر خوش آئند ہے۔

جہاں تک انڈیا کی بلوچستان پالیسی کا تعلق ہے تو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی پچھلے سال یوم آزادی کی تقریب سے خطاب میں ذکر کے بعد اب وہ  برائے راست بلوچستان کا تذکرہ کرنے سے اجتناب کررہے ہیں ۔ انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق براہمداغ بگٹی کی شہریت کی درخواست بھی ابھی تک زیر التوا ہے ۔ البتہ انڈیا میں بلوچ اور دیگر قوم پرستوں کی آمد و رفت بڑھ چکی ہے۔ اور انڈین میڈیا پر پاکستان کی قوم پرست آزادی کی تحریکوں اور پاکستان کی اندرونی صورتحال کی کوریج میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ لگتا ہے انڈیا مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو کاؤنٹر کرنے کیلئے قوم پرست کارڈ استعمال کر رہا ہے ۔ 

موجودہ حکومت نے کشمیر میں انسانی حقوق کے مسئلہ کو اٹھانے اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی مگر کشمیر میں سرگرم عمل عسکریت پسند تنظیموں نے دہشت گردی کے واقعات سے اس کو ناکام بنایا ۔ دنیا میں مسئلہ کشمیر کو دہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔ اور اکثر ممالک کشمیر میں عسکریت پسندی کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ جب تک مسئلہ کشمیر اور دہشت گردی کا تعلق رہے گا، دنیا میں پاکستانی موقف کو پذیرائی ملنے کی امید کم ہے ۔ لے دے کے اسلامی ممالک کی تنظیم رہ جاتی ہے مگر اب خلیجی ممالک میں انڈین جارحانہ سفارتی کوششوں کے نتیجے میں او آئی سی کا موقف بھی دیکھنے کے قابل ہوگا ۔  

اقتدار کے ایوانوں میں آج کل یہ سوال زیر گردش ہے کہ ملک اہم ہے یا حافظ سعید جیسی شخصیات جس کی وجہ سے ملک بے انتہا اندرونی اور بیرونی مشکلات اور مسائل کا شکار ہے۔ ماضی میں لشکر طیبہ یا اس سے متعلقہ عسکریت پسندوں کی دہشت گرد کاروائیوں کے نتیجے میں کم از کم تین دفعہ پاکستان اور انڈیا کے بیچ جنگ کے آثار پیدا ہوگئے تھے ۔ سرحدوں پر تناؤ او کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کی افواج کی نفری بڑھ گئی تھی اور فوجی نقل وحرکت میں اضافہ ہوا تھا ۔  13 دسمبر 2001 انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد جس میں لشکر طیبہ پر شک کیا گیا تھا سرحدوں پر تناؤ پیدا ہوگیا تھا اور بین الاقوامی ثالثی سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا تھا۔ پھر نومبر 26 نومبر 2008 میں ممبئی دہشت گرد حملوں کے بعد جس میں ایک عسکریت پسند زندہ پکڑا گیا تھا اور اس نے اپنا تعلق لشکر طیبہ سے بتایا تھا سے دوبارہ سرحدوں پر تناؤ بڑھ گئی تھی اور جنگی فضا پیدا ہوگئی تھی۔

اس طرح آخری بار 18 ستمبر 2016 کو اوڑی فوجی کیمپ پر حملہ ہوا جس کا الزام بھی لشکر طیبہ پر لگایا گیا کی وجہ سے سرحدوں پر جنگ کی فضا پیدا ہوئی اور کشیدگی میں تھوڑی کمی کے باوجود صورتحال نارمل نہیں ۔ سرکاری سطح پر ممبئی حملوں کی پاکستان کی سرزمین پر منصوبہ بندی یا پاکستانی شہریوں کی اس میں ملوث ہونے کو خارج امکان تو نہیں قرار دیدیا گیا اور کشمیر میں عسکریت پسندوں کی مراکز پر چھاپہ پڑا اور اسے بند کیا گیا اور گرفتاریاں بھی کی گئیں۔  مگر اس میں کسی ریاستی ادارے کی معاونت یا ملوث ہونے کے امکان کو رد کیا گیا تھا ۔ 

 ماضی میں پابندیوں اور بنک اکاونٹس منجمد کرنے سے پہلے بہت سے عسکری تنظیمیں متبادل انتظامات کرلیتی تھی ۔ اور دوسرے نام سے کام جاری رکھتی ۔ اب بھی شاید اس طرح ہو مگر مجبوری یہ ہے کہ یہ روایتی طریقے اب بہت زیادہ افشاء ہو چکے ہیں ۔ بار بار ایک طریقے سے دنیا کے آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جا سکتی ۔ اب امریکہ کے ساتھ ساتھ چین بھی بہت سے معاملات میں دباؤ ڈال رہا ہے ۔ چین امریکیوں سے زیادہ معاملہ گر اور اپنا الو سیدھا کرنے کا گُر جانتا ہے ۔ 

Comments are closed.