تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حافظ سعید پر پاکستان میں کوئی مقدمہ درج نہیں ہے تو پھر انھیں کیوں نظر بند کیا گیا ہے۔ ان پر جتنے الزامات ہیں وہ بھارت اور امریکہ نے لگائے ہیں۔ جبکہ پاکستان کا موقف تھا کہ بھارتی اورامریکی الزاما ت کی بنا پر حافظ صاحب کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور ان کے خلاف یہ ممالک جوشہادت دیتے ہیں اس کی بنیا د پرحافظ صاحب کے خلا ف قانونی کاروائی ممکن نہیں ہے۔
ایک اہم بیان پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی جاری کیا ہے کہ حافظ سعید کی نظر بندی کا فیصلہ قومی مفاد میں کیا ہے۔کیا پاکستان آرمی نے اپنی پالیسی بدل لی ہے اور واقعی اپنے سٹرٹیجک اثاثوں سے جان چھڑانا چاہتی ہے؟کیا ہماری ریاست نے بھارت اور امریکہ کے حافظ صاحب پر لگائے گئے الزامات کو درست تسلیم کر لیا ہے؟کیا اب مناسب شہادت فراہم ہوگئی ہے جس کی بنیاد پر انھیں نظر بند کیا گیا ہے؟
کیاحافظ سعید پہلے کی طرح اپنی نظربندی کو عدالت میں چیلنج کریں گے؟کیا دوران سماعت ہمارے سیاسی ادارےوہ شہادت فراہم کریں گے یا پھر آئیں بائیں شائیں کرکے وقت گذرا جائے گا اور کچھ ماہ بعد وہ پھر آزاد ہو ں گے؟
یاد رہے کہ حافظ سعید کو پہلی مرتبہ نظربند نہیں کیا گیا۔وہ ماضی میں بھی دو دفعہ نظر بند رہ چکے ہیں۔ 2002میں جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تھا تو بھارت نے اس حملے کا الزام حافظ سعید پر لگایا تھا ۔پرویز مشرف حکومت نے اس الزام میں حافظ سعید کو نظر بند کر دیا تھا۔ حافظ سعید کئی ماہ نظر بند رہے۔ پھر عدالت نے ان کی نظر بندی کو غیر قانونی قراردے دیا تھا ۔
نومبر 2008 میں جب ممبئی پردہشت گرد حملے ہوئے تو بھارت نے اس کا الزام بھی حافظ سعید پر لگایا۔ اس مرتبہ بھی حکومت نے انہیں نظر بند کر دیا تھا۔حسب سابق عدالت نے ان کی نظربند ی کو غیر قانونی قراردے دیا تھا۔ امید ہے کہ عدالت ان کی حالیہ نظر بندی کو بھی غیر قانونی قرار دے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حافظ سعید کی نظر بندی کوئی حل نہیں ہے بلکہ ان کے فکری ہمراہیوں سے قطع تعلقی اصل حل ہے۔ اس پالیسی سے لا تعلقی جو ہمسایوں سے جنگ پر اکساتی ہے۔ پاکستان کا مفاد امن میں ہے۔ پاکستان کے عوام کو جنگ نہیں تعلیم، علاج ،رہائش اور بہتر اور خوشحال مستقبل چاہیے۔
دوسری جانب انڈیا کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان صحیح معنوں میں شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تب تک یہ یقین کرنا مشکل ہوگا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف واقعی سنجیدہ ہے۔
بی بی سی کے مطابق بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ’پاکستان نے حافظ سعید کو پہلے بھی اسی طرح نظر بند کیا تھا۔ ممبئی حملے کے اصل ملزم اور پاکستان کی سرزمین سے انڈیا میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والی تنظیموں کے خلاف صحیح معنی میں سخت کارروائی سے یہ ثابت ہو گا کہ پاکستان دہشت گردی پر قابو پانے میں واقعی سنجیدہ ہے‘۔
انڈیا کے داخلی امور کے وزیرِ مملکت کرن ریجیجو نے کہا کہ انڈیا نے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالا ہوا ہے۔ ’ہم دنیا کو بتاتے رہے ہیں کہ پاکستان نے صرف حافظ سعید کو ہی نہیں بلکہ دوسرے دہشت گردوں کو بھی پناہ دے رکھی ہے۔ اگر پاکستان پر ہر طرف سے دباؤ پڑے گا تو وہ ان عناصر کے خلاف صحیح معنی میں کارروائی کرنے کے لیے مجبور ہو گا‘۔
ممبئی حملے کے مقدمے میں حکومت کی نمائندگی کرنے والے سرکاری وکیل اجول نکم نے بھی پاکستان کے اس اقدام پر شک کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا ’میرا خیال ہے کہ پاکستان نے یہ قدم امریکہ کی نئی حکومت کو گمراہ کرنے کے لیے اٹھایا ہے، جس نے شدت پسندی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے‘۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان گذشتہ تین برس سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔بھارتی حکومت ممبئی حملوں کے سلسلے میں حافظ سعید کے خلاف کاوررائی کا ایک عرصے سے مطالبہ کرتی رہی ہےجبکہ پاکستانی حکومت اس سے انکار کرتی چلی آرہی ہے۔
♥