پاکستان کے ریٹائرڈ چیف جسٹسوں کی خود نوشتوں کے مطالعہ کے دوران چیف جسٹس محمد منیر کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب ’’ زندگی کی شاہراہیں اور پگڈنڈیاں‘‘ یعنی
Highways & Bye-ways of Life
بھی مطالعہ میں آئی۔ کتاب پر سن اشاعت درج نہیں مگر اس کا دیباچہ جنوری ۹۷۸ا کا لکھا ہؤاہے ۔ اس میں جج صاحب موصوف کی زندگی کے متفرق حالات درج ہیں ۔ ان کی شکاریات و تفریحات ، کوہ نوردی و کوہ پیمائی اور اسفار کا تذکرہ بھی ہے ۔ احوال الرجال کے سلسلہ میں واقعات کے بیان میں جہاں تہاں ان کے دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ خود جج صاحب نے دیباچہ میں لکھا ہے کہ’’ عجیب عنوان والی یہ کتاب میری خود نوشت سوانح عمری نہیں مگر آدمی اپنے تجربات و تاثرات کو لکھنے بیٹھے تو موضوعی تو اسے بننا ہی پڑتا ہے‘‘۔اس کتاب میں جج صاحب کےخاندانی حالات ، سرکاری ملازمت کے دوران ان کے تجربات ، پیشہ ورانہ قانونی اور عدالتی تصریحات سب کچھ آگیا ہے گویا موضوع کے لحاظ سے یہ جج صاحب کی خود نوشت بن گئی ہے
جسٹس محمد منیر پاکستان کے بڑے نیک نام اور قابل جج سمجھے جاتے ہیں۔ آپ نے جسٹس اجمل میاں کی طرح اپنی تاریخ پیدائش کے سلسلہ میں رجماً بالغیب سے کام نہیں لیا صاف صاف لکھا ہے کہ ’’۳ مئی ۸۹۵ا کی تاریخ پیدائش میرے سرکاری ریکارڈ میں درج ہے مگر مجھے علم نہیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط کیونکہ جب میں سکول میں داخل ہؤاا س وقت بکرمی سن کا رواج تھا خدا جانے انہوں نے یہ عیسوی تاریخ کس طرح اخذ کی ہوگی‘‘( صفحہ ۲) ان کے دادا فوج میں افسر تھے ان کے ابا نے لاہور میڈیکل سکول میں تعلیم پائی اور ڈاکٹر بنے۔جج صاحب نے قانون کا پیشہ اختیار کیا اورامرتسر میں وکالت شروع کی۔ پھر لاہور میں عدالتی کام کیا۔ دلی میں انکم ٹیکس اپیلیٹ ٹریبیونل کے صدرمقرر کئے گئے اور وہیں سے ۴۲ ۹ا میں ہائی کورٹ کے بنچ پر سرفراز ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت پنجاب باؤنڈری کمیشن میں مسلمانوں کی طرف سے جج نامزد کئے گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور پھر پاکستان کی فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ ان کی عدالتی مصروفیات کی یہ تمام تفصیلات میں اپنی یاد داشت کے بل پر لکھ رہا ہوں جج صاحب نے ان تفصیلات کا ذکر اپنی کتاب میں نہیں کیا۔
سنہ۵۳ ۹ا کی پنجاب کے فسادات کی انکوائری کے لئے جو ٹریبیونل بنایا گیا آپ اس کے صدر تھے دوسرے رکن جسٹس ایم آر کیانی تھے۔ اس کمیشن کی معرکہ آراء رپورٹ شائع ہو چکی ہے جو منیر رپورٹ کہلاتی اور قانونی حلقوں میں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے آپ نے گورنر جنرل کے اسمبلیوں کو بر طرف کرنے کے شہرہء آفاق کیس کا فیصلہ لکھا اور وہ فیصلہ دنیا بھر کے قانونی حلقوں میں آج تک زیربحث ہے۔ جہاں بین الاقوامی حلقوں میں اسے تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے وہاں ہمارے ہاں کی سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کے اوپر اپنا فیصلہ دے کر اس فیصلہ کو مسترد کر دیا ہے ۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کی خود نوشت پر لکھتے ہوئے میں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ججوں کو اپنے جاری کردہ فیصلوں کو اپنی خود نوشت میں زیر بحث نہیں لانا چاہئے ۔مجھے خوشی ہوئی کہ جسٹس منیر نے بھی ایسی ہی بات لکھی ہے اور لکھا ہے ’’جب کوئی جج کوئی فیصلہ صادر کرتا ہے تو فیصلہ صادر کرچکنے کے بعد وہ لاتعلق ہو جاتا ہے اور عموماً عوام کے سامنے اپنے فیصلوں پراظہارِ خیال نہیں کر سکتا‘‘( صفحہ ۲۰۲)۔ اس لئے جسٹس موصوف نے ساری کتاب میں کہیں اپنے فیصلوں کو موضوع نہیں بنایا۔
مگر ہماری قومی عادت یہ رہی ہے کہ ہم ججوں کے ریٹائر ہونے کے بعدنہ صرف ان کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ ان پر گندگی اچھالنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔اس لئے جسٹس منیر نے با دلِ ناخواستہ اس کتاب کے آخری باب میں پاکستان کی دستوری تاریخ کے ان تاریخی فیصلوں کو موضوع بنایا ہے جن میں ان کا وہ تاریخی فیصلہ بھی شامل ہے جس میں جسٹس منیر نے دنیا کی آئینی تاریخ کا پہلا فیصلہ لکھا تھا اور’’ نظریہ ء ضرورت ‘‘ کی ترکیب وضع کی تھی اور یہ ترکیب آج تک سانپ کے منہ میں چھچھوندر بنی ہوئی ہے اگلے بنے ہے نہ نگلے بنے ہے! ہمارے ہاں کے آئینی معاملات کے بزرجمہر اس ترکیب پر اپنی قانونی اورغیر قانونی قابلیتیں صرف کر چکے ہیں مگر اس نظریہ کا بطلان ان سے ممکن نہیں ہو سکا۔کتاب کے اس آخری باب میں جسٹس شیخ انوار الحق صاحب کا وہ فیصلہ بھی زیر بحث آیا ہے جس کے باب میں ایس ایم ظفر کی روایت بیان کی جا چکی ہے کہ کس طرح جج صاحب موصوف نے اپنے قلم سے اور اپنے دستِ مبارک سے ایک ہمہ مقتدر شخص کو آئین میں بھی ترمیم کرنے کا حق تفویض کردیا تھا کیونکہ وہ ایسا نہ کرتے تو ان کی چیف جسٹس کی کرسی ان سے چھن جاتی۔جسٹس منیر نے لکھا ہے کہ’’ انہیں مارشل لاء کو جائز قرار دینا ہی تھا نہ کرتے تو تین صورتیں ممکن تھیں ۔
۔(ا) یا تو عدالت برطرف شدہ حکومت کو بحال کردیتی مگر عدالت تو اس حکومت کے اقدامات کی بڑی سختی سے مذمت کر چکی تھی جن اقدامات کی وجہ سے مارشل لا ناگزیر ہو گیا تھا۔
۔(۲) عدالت اور مارشل لا حکومت میں محاذ آرائی ہوتی اور حکومت عدالت کے احکامات کی تعمیل نہ کرتی
۔(۳) ایسا ہوتا تو ملک کے قانونی نظام میں خلا پیدا ہوجاتا اور افراتفری پھیل جاتی‘‘ ( صفحہ ۲۵۳) ۔
جسٹس منیر نے ان تینوں صورتوں سے یہ نتیجہ نکالاہے کہ قانونی طور پر کوئی نہ کوئی قانونی صورت نکالنی ضروری ہو جاتی ہے ۔جسٹس نسیم حسن شاہ نے نام لئے بغیر جسٹس منیر کی تردیدکرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اگر حکومت عدالت کے احکام کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اسے یہ صلیب بھی اٹھانی چاہئے اور اس کے نتائج بھگتنے کو تیار رہنا چاہئے ‘‘( خود نوشت صفحہ ۔ ۷۹) عدالت کا کام صرف فیصلہ دینا ہے۔ غالباً اسی لئے جج صاحب نے نواز شریف کے کیس کی سماعت کے آغاز ہی میں کہہ دیا تھا کہ ’’ میں جسٹس منیر نہیں ہوں۔ میں ایسا فیصلہ لکھوں گا جس سے قوم خوش ہو جائے گی‘‘ ( سجاد علی شاہ کی خود نوشت صفحہ۷۶ا) ۔
جسٹس منیر صاحب نے تفصیلاً اس فیصلہ پر بحث کی ہے مگر وہ قانونی معاملات ہیں اور ہماری فہم سے برتر ہیں۔ ہمیں تو صرف اتنا پتہ ہے کہ جسٹس منیر نے اپنے برادر ججوں کے بارہ میں جنہوں نے ان کے فیصلہ سے اختلاف کر کے اسے مسترد کیا ہے کوئی ناروا ناملائم کلمہ نہیں لکھا۔ عدالتی نظام عدالت ججوں وکلاء کسی کے باب میں اس نہایت مجبوری کے عالم میں لکھے گئے باب میں بھی کوئی سخت بات موجود نہیں اور یہی دنیا بھر کی انصاف کی روایت ہے۔ مگر ہمارے ہاں کے ججوں نے اپنی ہی عدالت کو کانچ کے گھر میں لا کھڑا کیا ( جسٹس سجاد علی شاہ کی خود نوشت) اور اپنے ہی ساتھیوں اور پیش رووں کے بارہ میں ’’ بد دیانت اور بے اصولے‘‘ کے لفظ لکھے۔( جسٹس اجمل میاں )۔ اور تو اور ایک جونئیر سے نیک نہاد جج ( جسٹس جاویداقبال ) نے اپنی خود نوشت اپنا گریباں چاک میں اپنے ساتھیوں کے بارہ میں باقاعدہ ہسٹری شیٹ مرتب کی کہ فلاں جج شیزو فرینیا کا مریض تھا فلاں جج دشمن کا موت تک پیچھا کرنے والا تھا فلاں ٹرکس آف ٹریڈ کا ماہر تھا۔ یہ سب کچھ کیا ہے ؟ کیا ان نام نہاد دانشوروں کو اتنا بھی علم نہیں ہوتا کہ عدالت اور نظام عدالت کے احترام کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ یوں تو وہ ذراذرا سی بات پر توہینِ عدالت کے قانون کا سہارا لینے پر تل جاتے ہیں۔ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو! ۔
جسٹس منیر کی یہ کتاب ان کی شکاریات اور اسفار کی تفصیل سے بھری پڑی ہے کیونکہ جج کے مرتبہ پر فائز ہونے کے بعد ان کے لئے دیگر معاشرتی تقریبات میں حصہ لینا ممکن نہیں رہا تھا کہ یہی اس عدالتی نظام کا ورثہ تھا جو انہوں نے پایا تھا۔ جو وقت بچتا اسے شکاراور تفریح اور کوہ پیمائی میں صرف کرتے ۔ اس طرح یہ کتاب سارے بر صغیر جس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں شامل ہیں، کی سیاحت کا ایک نادر نمونہ بن گئی ہے ۔رہتانگ، کیلانگ، لنگتی، دھرمسالہ، چمبہ سے پانگی، کشمیر، مشرقی پاکستان، نئی دہلی، دہرہ دون، کرنال، پٹیالہ، شوالک کی پہاڑیاں، دریائے کابل، کاغان، بلتستان، سوات، دیر چترال، چولستان، بہاولپور، خیر پور، بلوچستان، ڈیرہ غازی خان، سندھ، رانی پور، رحیم یار خان ،خانپور، فورٹ منرو، جہلم ، جھنگ، بجوات، کالا باغ، جابہ، اورْ خدا جانے کہاں کہاں جج صاحب سیاحت اور شکار کرتے پھرے ہیں ہم نے توبیشتر جگہوں کے نام پہلی بار ان کی کتاب میں پڑھے ہیں۔ یہ درست بات ہے ججوں کو اگر بے محابہ سوشل تقریبات میں شرکت کی مناہی ہے تو ان کے پاس اس کے سوا اور چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے؟ مگر ہمارے معاشرہ میں جج سوشل تقریبات تو الگ رہیں سیاسی تقریبات میں بھی مہمانِ خصوصی بننے سے گریز نہیں کرتے جسٹس نسیم حسن شاہ نے تو فخر کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ’’ عدالتی کام کے بعد میرا سوشل کیلنڈر ہمیشہ بھرا رہتا تھا‘‘(خود نوشت صفحہ ۷۹) اور نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ ہمارے عدالتی نظام نے اپنا وقار کھو دیا ہے۔
جسٹس منیر نے ڈاکٹروں کے باب میں پورا ایک باب باندھا ہے شاید اس لئے کہ ان کے والدِ محترم بھی ڈاکٹر تھے ۔ ڈاکٹروں کے علاج کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے اور ان کی پیشہ ورانہ عادتوں کا جج صاحب نے کہیں کہیں مذاق بھی اڑایا ہے مگر ایک حد تک ہی گئے ہیں کسی کے بارہ میں حد اعتدال سے تجاوز نہیں کیاالبتہ مولویوں کے استنجے کے ڈھیلوں کا بہت مضحکہ اڑایا ہے ۔ ’’وٹوانی‘‘ کے لئے انہیں کوئی انگریزی لفظ نہیں ملااس لئے آپ نے یہ بعینہ اسی صورت میں استعمال کی ہے ( میرا مطلب ہے ترکیب )۔ مری میں ایک بنگلہ میں ٹھہرے ہوئے تھے تو سامنے کے بنگلے میں ایک سول سرونٹ کے پیر صاحب اپنے مریدوں کے ساتھ قیام فرما تھے ان کے مریدانِ با صفا بلا ناغہ ان کے بنگلے کے سامنے ٹہلتے ہوئے وٹوانی فرماتے تھے ، ان سے یہ برداشت نہ ہؤا۔سول سرونٹ دوست سے شکایت کی تو وہ فرمانے لگے’’ یہ لوگ سنت پر عمل پیرا ہیں آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘ ۔ جج صاحب نے کہا’’ اگر میں نے انہیں سنت پر دوبارہ عمل پیرا دیکھا تو ان کو پٹوا دوں گا‘‘ ( صفحہ۵۷ ا)۔
لکھتے ہیں ’’ یہی سول سرونٹ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر بن کر گئے تو بازار میں گدھے پر سواری فرمائی اور ڈاکٹرنذیر احمد پرنسپل گورنمنٹ کالج جھنگ کو بھی مشورہ دیا کہ وہ طلبا ء کے جلو میں گدھے پر سوار ہو کر کالج جائیں‘‘( صفحہ ایضاً) بات یہیں ختم نہیں کی لکھتے ہیں ’’ میں ہائی کورٹ میں مسٹر سلیم کے ہمراہ بیٹھا تھا ۔ وہ ایک گواہ کا بیان سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے جس نے کہا تھا کہ’’ جب میں نے یہ وقوعہ دیکھا اس وقت میں چالیسیویں بار وٹوانی کر رہا تھا۔‘‘ سلیم صاحب کو ان باریوں کی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ پھر یہ قصہ جنیوا تک پہنچ گیا۔ لکھتے ہیں ’’ میں ہوٹل میں ٹھہرنے کے لئے گیا تو انہوں نے کہا افسوس ہے ہم پاکستانی مہمانوں کو نہیں ٹھہرا سکتے ۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگا پاکستانی مہمان ہمارے فلش کے پائپ بند کر دیتے ہیں ۔اور ایسی مٹی سے بند کردیتے ہیں جو یہاں کی مٹی ہے ہی نہیں ۔وہ اپنے ساتھ اپنی مٹی لے کر آتے ہیں ‘‘ ( صفحہ ۵۷ا)۔
جسٹس اجمل میاں نے اپنی خود نوشت میں ججز کیس میں اس امر پر پر بڑا زور دیا ہے کہ سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس بنائے جانے کا رواج رائج ہے ۔ ’’ ایس ایم ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ایوب کے مارشل لاء کے دوران بھی اس رواج کا خیال رکھا جاتا تھا‘‘ ( صفحہ۷۸ا) میں نے ان کی خود نوشت پر لکھتے ہوئے لکھا تھا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے منظور قادر صاحب کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تھا حالانکہ وہ ہائی کورٹ کے جج تک نہیں تھے۔ جسٹس منیر کی اس کتاب سے اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے ۔ لکھتے ہیں ۔ ’’ قومی اسمبلی کے پہلے دن منظور قادر کو بہت گالیاں پڑیں۔ بوگرا صاحب نے انہیں راسپوٹین کہا۔ دوسروں نے انہیں ایوب کا نفسِ شیطانی قرار دیا۔ حالانکہ وہ اسمبلی میں موجود نہیں تھے (کیونکہ ان کی جگہ جسٹس منیر وزیر قانون تھے )۔ایوب بھی اس رویہ سے بہت نالاں ہوئے اور مجھے کہا کہ جلد سے جلد منظور قادر کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا جائے‘‘( صفحہ ۹۵) جس روز منظور قادر صاحب پر لے دے کی جارہی تھی میں شام کے وقت ایوب سے ملا۔ کہنے لگے اور میں ان کے الفاظ دہراتا ہوں ’’یہ لوگ مجھے اتنا احمق سمجھتے ہیں ؟ میں انہیں اس لونڈے کی انگلی پکڑ کر چلنے والا نظر آتا ہوں‘‘ ( صفحہ ایضاً)۔ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ یہ دستور ان کی اپنی تصنیف ہے جس میں منظور قادر کا صرف نام کا حصہ ہے۔
جسٹس منیر نے عدالتی زندگی میں جو فیصلے دئے ان میں سے اکثر اپنی نوعیت کے پہلے پہلے فیصلے تھے اور عدالتی ریکارڈ میں ان کی نظیر موجود نہیں تھی ۔ وکیل تھے تو بھی ایک ایسا مقدمہ لڑا اور جسٹس شادی لال جیسے جج سے جیتا اور پریوی کونسل تک سے توثیق حاصل کی ، جس کی نظیر پہلے نہیں تھی اوراب، اب تک اس نظیر کی مثال دی جاتی ہے ۔ قانونی نکتہ یہ تھا ’’ آیا کوئی باپ خود کو اپنے نابالغ بیٹے کا ولی مقرر کئے جانے کی درخواست کر سکتا ہے؟ ‘‘ہمارے ہاں جو موشگافی کا محاورہ ہے وہ غالباً ایسی ہی صورتوں کو دیکھ کر وضع کیا گیا ہے۔
سر فضلِ حسین کی ایک بد حواسی بھی پہلی بار جج صاحب کی اس کتاب میں نظر سے گذری۔ قائد اعظم کے دبدبہ کے بارہ میں لکھتے ہوئے لکھا ہے ’’قائد اعظم سے سامنا ہؤا تو سر فضلِ حسین ایسے گھبرائے کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کی بجائے کہنے لگے میں آپ سے فرماتا ہوں‘‘(صفحہ ۳۷)۔کسی کو دیکھا تو ساقی کے ایسے ہوش اڑے۔ شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشہ میں! قائد اعظم کے سامنے بڑے بڑوں کے اوسان خطا ہو جاتے تھے۔
جسٹس منیر کی یہ کتاب ان کے اس عمل کی منہ بولتی تصویر ہے کہ ججوں کو عام لوگوں سے ملنے جلنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح ججوں کی جانبداری کا دروازہ کھلتا ہے ۔ ہمارے ہاں روایتیں بدل گئی ہیں اور لوگوں کی اور ججوں کی عادتیں بھی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ہمارے عدالتی نظام کے باب میں اپنی خود نوشت کے سر ورق پر جو ترازو کی تصویر دی ہے وہ ترازو صرف جھکی ہوئی نہیں اس کاانصاف کا پلڑا ہوا میں معلق ہے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار!۔
♦