میڈیا اور مفادات کا کھیل۔۔۔

enhanced-19332-1405525493-19

پاکستان ایک انتہائی عجیب ملک ہے جو نہ صرف اپنے قیام سے ہی خطرے سے دوچار ہو گیا بلکہ آزادی صحافت پر بھی تلوار لٹک گئی۔پاکستان بنانے والوں کو جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔بادشا ہ تو آزادی صحافت جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لہذا صحافی اور صحافتی ادارے بادشاہوں کے غیض و غضب کا نشانہ بننا شروع ہو گئے۔

نوے کی دہائی کا آخری حصہ تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کا دوسر ا دور حکومت شروع ہو چکا تھا کہنے کو تو وہ منتخب وزیر اعظم تھے مگر رویہ بادشاہوں والا تھا۔ لہذانہوں نے کسی بات پر ناراض ہو کر فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر نجم سیٹھی کو گھر سے اٹھا لیا ۔ عام آدمی کو پتہ چلا کہ آزادی صحافت خطرے میں ہے لہذا اس نے ان کی رہائی کے لیے جلوس نکالے ، سیمینار کیے اور بالاخر نجم سیٹھی رہاہوگئے ۔

آج وہ آزادی صحافت کے لیے بہترین’’ خدمات‘‘ سر انجام دے رہے ہیں۔ کچھ ماہ بعد بادشاہ کی روزنامہ جنگ سے لڑائی شروع ہو گئی۔ مفادات کی اس جنگ کو روزنامہ جنگ نے بڑی کامیابی سے آزادی صحافت کی جنگ بنا دیا۔عام آدمی کو بتایا گیا کہ جب تک اس ملک میں صحافت آزاد نہیں ہوگی تمہارے مسائل کبھی حل نہیں ہونگے۔ یہ جنگ غریب کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی مدد سے جیتی گئی۔

جنگ جیتنے کے بعدعام آدمی ابھی اپنی حالت میں تبدیلی کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ اس دوران جنرل نے بادشاہ کو معزول کر دیا۔ عدلیہ، سول سوسائٹی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے جنرل کا خیر مقدم کیا۔ انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ملک میں مذہبی انتہا پسند دندنانا شروع ہوگئے۔ مذہبی جماعتیں، مہنگائی کے مارے عوام سے جہاد کے نام پر چندہ وصول کرنا شروع ہو گئیں۔

ایسٹیبلشمنٹ بدستور بلوچستان میں بلوچ عوام کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتی رہی ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت نجی ٹی وی چینل بھی میدان میں آگئے۔ آزاد میڈیا اور اس کے ٹاؤٹ عام آدمی کو جہاد کے فوائد اور اس کی برکتوں سے آگاہ کرنا شروع ہوگئے۔اسے بتایاگیا کہ طالبان پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں انہوں نے پہلے کافر روس کو یہاں سے بھگایا تھااور اب مردود امریکہ کو بھگا کر ہی دم لیں گے۔

پھر جب ان انتہا پسندوں کی سرگرمیاں ریاست کی نظر میں سرخ لائن عبور کرنے لگیں تو جنرل نے ان کولگام دینے کے لیے لال مسجد آپریشن کیا۔ آزاد میڈیا نے لال مسجد آپریشن میں ہلاک ہونے والے بے گناہ طالب علموں کی ’’شہادت‘‘ پر ماتم شروع کر دیا۔ چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے لیا۔

جنر ل نے آنکھیں دکھائیں تو عام آدمی کو پتہ چلا کہ چیف جسٹس نے ایک آمر کو ناں کر دی ہے اوراسے معطل کر دیا گیا ہے۔ صحافت توآزاد تھی ہی لیکن عدلیہ کی ’’آزادی ‘‘ خطرے میں پڑ گئی۔ عام آدمی کو بتایا گیا کہ جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہو گی تمہارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔عام آدمی پھر جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے لگا اور چیف جسٹس کو بحال کر کے دم لیا۔

جنرل پر چاروں طر ف سے دباؤ بڑھتا جارہا تھا ۔ اس نے سیاستدانوں کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا۔ بے نظیر بھٹو سے مذاکر ات ہوئے اور بحالی جمہوریت کا ایک طریقہ کار طے ہواجسے این آر او کا نام دیا گیا۔جہادی قوتیں نہیں چاہتیں تھیں کہ ملک میں ایسا جمہوری عمل شروع ہو جس میں کچھ روشن خیال اقتدار میں آجائیں۔

لہذا آزاد عدلیہ نے اس معاہدے کا از خود نوٹس لے لیا کہ ایک آمر کو یہ کیسے حق دیا جاسکتا ہے کووہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے معاہدہ کرے۔جنرل نے غصے میں آکر ایک بار پھر چیف جسٹس کو گھر بٹھا دیا۔ جیسے تیسے جمہوریت کی بحالی کی کوششیں شروع ہوئیں۔این آر او کے تحت بے نظیر بھٹو اور پھر نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑی۔ خدا خدا کرکے انتخابات ہوئے اور ایک ایسا پرامن انتقال اقتدار ہوا جس میں بے نظیر بھٹو کا خون شامل تھا۔ جمہوریت بحال ہو گئی، جنرل کی چھٹی ہو گئی مگر چیف جسٹس نہ بحال ہوسکا۔

آزاد میڈیا بشمول گولی کھانے والے صحافیوں نے بتایا کہ عام آدمی تو انتہا ئی بے وقوف ہیں جنہوں نے ’’چوروں اور ڈاکوؤں‘‘ کو اسمبلی میں بھیج دیا ہے ان کا احتساب توآزاد عدلیہ ہی کرے گی۔ عام آدمی کے اصرار پر نئے جنرل نے چیف جسٹس کو بحال کر دیا۔ دوبارہ بحال ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اب کوئی کرپٹ قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکے گا۔

جہادی تنظیمیں تو ملک میں دندنا ہی رہیں تھیں۔ آزادی صحافت کے علمبردار جنگ ، جیو اور آزاد عدلیہ نے بھی جمہوری حکومت کے خلاف اعلان جہاد کر دیا۔معزول بادشاہ بھی میثاق جمہوریت کا لبادہ اتار کر ان قوتوں کو ہلہ شیر ی دینا شروع ہو گئے۔

جمہوری حکومت نے تمام مخالفت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا شروع کیا اور کسی کے خلاف انتقامی کاروائی کیے بغیر ملک کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دی۔ گندم سمیت فصلوں کی امدادی قیمت بڑھائی تاکہ دیہاتوں میں بڑھتی ہوئی غربت کو کم کیا جا سکے۔ این ایف سی ایوارڈ تشکیل دیا۔ اٹھارویں ترمیم جیسا سنگ میل عبورکیا تاکہ صوبے مرکز کی مداخلت سے آزاد ہو کر اپنے طور پر عوام دوست پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔

بادشاہی طریقہ کار کو ختم کرتے ہوئے اداروں کے سربراہوں کے تقرر کا طریقہ کار طے کیا ۔ اس دوران آزاد میڈیا، سیلز ٹیکس کی آڑ میں ریاست کا اربو ں روپیہ ڈکار لیے بغیر ہضم کر گیا اور چیف جسٹس کا لخت جگرفیصلوں کی قیمت وصول کرتا رہا۔

معزول بادشاہ قلابازیاں کھاتارہاکبھی جمہوریت کے حق میں بات کرتا اور کبھی کالا کوٹ پہن کر غیر جمہوری قوتوں کی مدد کو لپکتا۔ جمہوری حکومت نے کوشش کی کہ آئی ایس آئی کو وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کے ماتحت کیا جائے لیکن گولی کھانے والے صحافی، آزاد میڈیا،آزاد عدلیہ اور معزول بادشاہ نے سختی سے مخالفت کی لہذا حکومت پیچھے ہٹ گئی۔

اگر آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور مسلم لیگ نواز کا رویہ درست ہوتا تو پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں بہت سی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں آسکتی تھیں اور کئی ادارے نواز حکومت کے دور میں اپنے مقام پر واپس جا سکتے تھے مگر کسی کو اس سے دلچسپی نہیں تھی۔ ہر کوئی اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہا تھا ۔آج نواز حکومت کو اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے اور اپنی سیاسی غلطیوں کی بدولت ایسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ہائی جیک ہو چکی ہے۔

جنرل ایوب کے دور سے سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی جو مہم شروع ہوئی تھی وہ آج جنرل راحیل شریف کی سرپرستی میں جاری ہے۔ کیا فوج کا کام سیاست دانوں کا احتساب کرنا ہے؟ ایک ایسا ادارہ جو خودکرپشن میں ملوث ہو وہ سیاست دانوں کا احتساب کر سکتا ہے؟ یہ صریحاً آئین کی خلاف ورزی ہے لیکن میڈیا خاموش ہے۔ ملکی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ فوج نے جب بھی اپنے طور پر جو بھی فیصلے کیے ہیں چاہے وہ اپنے ہی ملک کے اقتدار پر شب خون مارنا ہو یا ہمسایہ ممالک پر حملہ ۔ خود ہی جنگیں لڑتے ہیں اور شکست کھا کر  اپنے سینوں پر تمغے سجا لیتے ہیں لیکن ان کی سیاسی و مہم جوئی پر مبنی پالیسیوں کا ملبہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں پر گرتا ہے۔

جنرل راحیل شریف نئے نجات دہندہ بن گئے ہیں۔فوج آپریشن کے نام پر جو کچھ کررہی ہے وہ پاکستانیوں پر کوئی احسان نہیں ہے یہ اپنے ہی ڈالے ہوئے گند کو صاف کر رہی ہے ۔یہ کیسا آپریشن ہے کہ دہشت گردوں کو تو مار دیا گیا ہے مگر بے گھر ہونے والے افراد ابھی تک خیموں تلے بے یار ومددگار بیٹھے ہیں۔چونکہ ہم نے بڑھکیں مار کر آزادی حاصل کی اور مسلسل ستاسٹھ سالوں سے بڑھکیں مارتے آرہے ہیں ۔اس لیے عام آدمی سمجھتا ہے کہ بڑھکوں سے ہی مسائل حل ہو ں گے۔

قوموں کے مسائل ایسے حل نہیں ہوتے اس کے لیے سنجیدگی سے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔مگر میڈیا کے بازی گر چاہتے ہیں کہ بٹن دبانے سے تمام مسائل حل ہو جائیں وگرنہ جمہوریت کو ناکام قرار دے دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی پاک فوج کی کرپشن اور اس کی جارحیت پر مبنی پالیسیوں پر بات کرنے کو تیار نہیں۔آزاد میڈیا کو جمہوریت یا آمریت سے کچھ غرض نہیں اسے صرف اور صرف اپنے کاروبار سے غرض ہے۔

محمد شعیب عادل

2 Comments