افغان خاتون زرینہ نے بیرون ملک اپنے علاج کی خاطر امداد کی اپیل کی ہے۔ تئیس سالہ زرینہ کے بقول اسے نہیں معلوم کہ اس کے شوہر نے اس کے دونوں کان کیوں کاٹ دیے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے دو فروری بروز جمعرات اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغان خاتون زرینہ اس وقت مزار شریف کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس کے کان کاٹ دیے جانے کے باعث سوجن اس کے چہرے تک پہنچ چکی ہے اور اسے فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔
اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے زرینہ نے بتایا کہ وہ یہ نہیں سمجھ پائی کہ اچانک اس کے شوہر نے منگل کی رات اس کے کان کیوں کاٹ دیے؟ یہ واقعہ ازبکستان سے متصل افغان سرحدی صوبے بلخ کے ایک دور دراز ضلع میں رونما ہوا۔
زرینہ نے بتایا، ’’میرے شوہر نے مجھے رات تین بجے نیند سے جگایا اور میری ٹانگیں اور ہاتھ باندھ دیے۔ میں اس کی منت سماجت کرتی رہی کہ مجھے چھوڑ دے لیکن اس نے میری ایک نہ سنی‘‘۔
زرینہ کے بقول اس کے شوہر نے اسے مکے مارے اور بعد ازاں تیز دھار چاقو سے اس کے دونوں کان کاٹ دیے اور فرار ہو گیا۔ زرینہ بعد ازاں گھر میں اکیلی پڑی رہی اور صبح اس کے ہمسایوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اس کے رشتہ داروں کو خبر کی۔ تمام رات کی تکلیف کے بعد اگلے دن زرینہ کے رشتہ داروں نے اسے بلخ صوبے کے دارالحکومت مزار شریف کے ایک ہسپتال منتقل کیا۔
مزار شریف میں ہسپتال کے ڈاکٹر شافر شائق نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اسے (زرینہ کو) صبح ساڑھے نو بجے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا۔ تصور کیجیے کہ رات بھر اس کا کتنا خون بہہ گیا ہو گا‘‘۔
زرینہ کے مطابق وہ حیران ہے کہ اس کے شوہر نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا کیونکہ وہ تو ہمیشہ ہی اس کے حکم کی تابع رہی تھی اور اپنے شوہر کی اجازت نہ ملنے پر اپنی ماں سے ملنے بھی نہ جاتی تھی، ’’میرا شوہر بہت زیادہ سخت ہے، جب اسے غصہ آتا ہے تو وہ سبھی کو مارنے پیٹنے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ماں باپ کا بھی خیال نہیں کرتا۔‘‘
زرینہ نے مخیر خواتین و حضرات سے اپیل کی ہے کہ بیرون ملک علاج کی خاطر اسے مالی امداد فراہم کی جائے۔ اس نے کہا کہ اگر اسے علاج کے لیے مطلوبہ رقم بطور امداد نہ ملی تو وہ افغان حکومت سے مطالبہ کرے گی۔
صوبہ بلخ کے گورنر کے ترجمان جان درانی نے بتایا ہے کہ ملزم کی تلاش جاری ہے۔ اس واقعے کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید مذمت کی ہے۔ بلخ میں حقوق نسواں کے لیے سرگرم کارکن فہیمہ رحیمی نے کہا ہے کہ اس قدامت پسند معاشرے میں مردوں کی طرف سے خواتین کے خلاف یہ ایک اور حملہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کابل حکومت کو اس حوالے سے فوری ایکشن لیتے ہوئے ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب ممکن ہو سکے۔
فہیمہ کے بقول افغانستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے ایسے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ جنوری سن 2016 میں ایک گھریلو تنازعے پر صوبہ فریاب میں ایک مرد نے اپنی اہلیہ کی ناک کاٹ دی تھی۔ ایسے ہی ایک اور واقعے میں وسطی صوبے غور میں ایک مرد نے اپنی چودہ سالہ حاملہ بیوی کو آگ لگا دی تھی، جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کابل کے ایک ہسپتال میں چل بسی تھی۔
♦