حسن باجوہ
ملک سے محبت ایک قدرتی عمل ہے مجھے بھی شاید اپنی جنم بھومی سے اتنی محبت ہے جتنی ایک عام پاکستانی کو ہےجو کسی بھی وجہ سے ملک سے دور رہتا ہے ۔ کچھ سال پہلے جب میں برطانیہ میں مستقل قیام كے لیے پاکستان کو خیر آباد کہہ کر آیا تو اب کی بار یہ اِرادَہ کر چکا تھا كے اپنے آپ کو نئی دنیا ( برطانیہ) كے رسم و رواج میں ڈھال لوں گا۔ اِس سے شاید کچھ قرض چکا سکون جو برطانیہ نے مجھے ایک بے خوف زندگی اور معاشی آسائشوں کی شکل میں دیا ہے ۔
کچھ برس برطانیہ میں گزار کر جب میں کچھ عرصے كے لیے پاکستان لوٹا تھا تو میرا نظریہ زندگی خصوصاً ریاست اور سوسائٹی كے رشتوں كے حوالوں سے بہت بدل چکا تھا۔اب میں مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا قائل ہو چکا تھا چنانچہ میرے لیے دوبارہ برطانیہ میں آ کر بسنا قدر آسان تھا ۔ ایک دو ماہ گزرنے كے بعد یہاں بھی دوستی اشتراکی معاشرے كے قائل ترقّی پسند دوستوں سے ہوئی جن کی نسبت سے دہائیوں سے بسنے والے پاکستانیوں سے ہوئی ۔ دھیرے دھیرے مجھ پر یہ آ شکار ہونا شروع ہو گیا کہ ہَم پاکستانی ملک تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اپنی فرسودہ اور پسماندہ رسم و رواج کا بوجھ ساتھ ساتھ اٹھائے پھرتے ہیں ۔
ترقّی پسند حلقوں میں بھی خواتین کی نمائندگی پاکستان كے مقابلے میں بھی کم پائی ۔ لیکن حوصلہ مند پہلو یہ ہے کہ ترقّی پسند دوستوں نے اپنے بچوں پر پابندیاں عائد نہیں کی جو رجعت پسند پاکستانیوں كے بچوں کو سامنا کرنا پڑتی ہیں مثلاً جبری شادیاں ، اسکارف کی پابندی وغیرہ ۔
آخر یہ سب تمہید باندھنے کا مقصد کیا ہے آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے لہذا میں اپنے کالم كے مقصد کی طرف آتا ہوں ۔ تو حضور قصہ کچھ یوں ہے كے جسے ہَم اپنی مشرقی روایات یا پاکستانی ویلیوز کہتے ہیں ان كے ثمرات ملاحظہ کریں ۔ایک اندازے كے مطابق برطانیہ ميں تقریباً 60 فیصد پاکستانی معاشی تنگ دستی کا شکار ہیں جب کہ بھارتيوں میں یہ شرح کم ہے ۔
ڈی موس نامی تھنک ٹینک كے اعداد و شمار كے %70 بھارتی اوریجن کی عورتیں معاشی طور پر فعال ہیں جب کہ یہ شرح پاکستانی عورتوں میں 30 سے 40 فیصد ہے ۔ بھارتی جو کہ برطانیہ کی آبادی کا محض %2 ہیں لیکن وہ ڈاکٹروں کی مجموعی تعداد كے% 12 ہیں ۔ اِس کی بہت سی وجوھات میں سے ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی معاشرےمیں گھلنے ملنے کی کمی ہے اور دوسرا پاکستانی زیادہ تعداد میں یا تو نیم خواندہ ہیں یا پِھر غریب علاقوں میں ایک کلوز کمیونیٹی میں رہتے ہیں جس سے ان کا باہر کی دنیا سے ميل جول کم رہتا ہے ۔
میل جول کی کمی کی وجہ سے نئی نسل كے نوجوان مذھبی دہشت گردی کی طرف رجحان کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کی ایک بڑی مثال 7 / 7 لندن كے دھماکوں کی ہیں جس میں 2 حملہ آوروں کا تعلق پاکستانی کمیونیٹی سے تھا ۔ انجم چوھدری جو مذہبی انتہا پسندی کو پھیلانے كے جرم میں پہلے سے جیل میں ہے وہ بھی پاکستانی ہے ۔ ان تمام اعدادو شمار سامنے رکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں میں غدار وطن ہوں بلکہ ان کا مقصد صرف و صرف کمیونیٹی کی اصلاح ہے ۔
مغربی ممالک میں آ کر بسنے والے پاکستانیوں کو اِس امر کی اشد ضرورت ہے كے وہ ان اقدارکو پاکستان میں ہی دفن کر آئیں جو ان کی اگلی نسلوں کو یہاں رہنے میں دشواریاں پیدا کریں ۔ مغربی معاشروں میں رہنے کا یہی تقاضہ ہے كے ہَم ان معاشروں کو اپنا معاشرہ سمجھ کر اِس کی بہتری میں حصہ لیں ۔ 60 اور 70 کی دہايوں میں آ کر بسنے والوں کی ترجیحات شاید پیسہ ہوں لیکن نئی نسل کی ترجیحات ان سے بہت مختلف ہیں ۔
خدارا اپنی نئی نسلوں پہ اپنے فرسودہ روایات اور دقیانوسی مت تھوپيں اور انھيں معاشرے کا مکمل حصہ بننے دیں ۔ مغربی طرز زندگی اپنانے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ آپ شراب خانوں میں جائیں یا حلال اور حرام کی تمیز کو خیر آباد کہہ دیں۔ کیوں کہ اگر یہی شرائط ہوں تو بہت سے مغربی لوگ خود بھی اپنے آپکو اِس سوسائٹی کا حصہ نا مانيں کیوں كے بہت سے لوگ ایسے ہیں جوصرف سبزی خور ہیں اور بہت سے شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ایسا وہ شايدمذہبی نہیں بلکہ اخلاقی وجوہات کی بنا پر کرتے ہیں ۔ بچوں کو دوسرے مذاہب کی عزت کرنا اور مغربی روایات کی عزت کرنا سیکھائیں ۔ ہاں البتہ جن حضرات پر شریعت کا بھوت سوار ہے وہ شوق سے سعود ی عرب سكونت اختیار کر سکتے ہیں۔
♦
One Comment