ارشد محمود
پندرہ اگست 1947 کوتقسیم کے وقت دونوں ملکوں اورعوام کے بیچ نفرت، غصہ، تشدد کا ایک طوفان امڈ آیا۔ آگ اور خون کی ہولی شروع ہوگئ، لاکھوں لوگ دو طرفہ اپنا مال ودولت، گھربارلٹا کرایک دوسرے ملک میں منتقل ہورہے تھے۔ بڑے پیمانے پرقتل عام ہورہا تھا۔ لیکن پاکستان کی قیادت بشمول قائد اعظم کشمیرکو کیسے حاصل کیا جائے اس میں الجھے ہوئے تھے۔ جب کہ نوزائیدہ ریاست کا کوئی ادارہ ابھی سلامت نہ تھا۔ بچھی کچھی ٹوٹی پھوٹی آرمی ہوگی۔ جن کا سربراہ بھی ابھی برٹش تھا۔
ہماری قیادت کی ترجیح اتنے بڑے انسانی بحران کو سنبھالنے اور ریاست، مملکت، حکومت کا سیٹ اپ تعمیرکرنے پرنہ تھی۔ اس بات پرتوجہ نہ تھی، نفرتوں، تشدد، آگ اورخون کے بہاؤ پرکنٹرول کرنے میں اپنا وقت اورتوجہ صرف کی جائے۔ کشمیرکوایندھن اورخوراک کی سپلائی کے مین راستے پاکستان کی طرف سے جاتے تھے۔ 22 اکتوبر1947 کو250 ٹرک پنڈی سے وادی جہلم کے راستے جموں کشمیرکی طرف سے داخل ہوئے۔ جن میں تقریبا 5000 آفریدی اورمحسودقبائل کے لوگ سوارتھے۔ اوران کے پیچھے پاکستانی فوج کے سپاہی، میجرجنرل اکبرخان ان کی قیادت کررہا تھا۔
ان کوامید تھی، کہ 4 دن میں وہ کشمیرکا سارا علاقہ فتح کرلیں گے۔کیونکہ ان کی مزاحمت کرنے والی سامنے کوئی فوج نہ تھی۔ راجہ بھاگ کرجموں چلاگیا۔ اوراس کے ماتحت سپاہی اتنی بڑی یلغارکے سامنے کچھ نہ تھے۔پاکستانی سائڈ کے سوچے سمجھے ٹارگٹ میں یوں گڑبڑہوگئی۔قبائلیوں نےکشمیر فتح کرنے کی بجائے اسلامی روایت کے مطابق مال غنیمت اور لونڈیاں اکٹھی کرنے میں مصروف ہو گئے۔ ادھرراجہ نے انڈین گورنمنٹ کوارجنٹ پیغامات بھیجنے شروع کردیئے، کہ اس کی مدد کی جائے، پاکستان نے کشمیرپرحملہ کردیا ہے اور وہ بھی وحشی ہجوم کے ذریعے۔
انڈین فوج کا چیف بھی ابھی گورا تھا۔ اور ماونٹ بیٹن انڈین دفاعی کمیٹی کا سربراہ تھا۔ انہوں نے فیصلہ لینے میں قانونی اورسیاسی رکاوٹیں ڈالنی شروع کردی۔ ماونٹ بیٹن نے انڈیا والوں کو کہا کہ پہلے راجہ سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا ایگریمنٹ سائن کراکرلاؤ۔ چنانچہ انڈیا کا نمائندہ وی پی مینن 26 اکتوبرکوجموں راجہ کے پاس پہنچا۔ اور اس سے الحاق کے معاہدے پرسائن لے کرواپس دہلی آیا۔ پاکستانی قیادت کا خیال تھا کہ انڈیا اتنی جلدی موثرطریقے سے کشمیرمیں اپنی فوج اورکمک نہ بھیج سکے گا۔ادھرانڈیا نے ہنگامی حالات میں فوج اورسامان حرب کوجہازوں کے ذریعے سرینگراتارا۔
انڈیا میں جہاں کہیں بھی پرائیویٹ طیارے تھے وہ بھی حاصل کئے گے۔ انڈیا کے جوابی آپریشن اورعزم کودیکھتے ہوئے قائد اعظم نے پاک آرمی کے چیف جنرل گریسی کو حکم دیا، کہ پاک آرمی کے فریش ٹروپس کوجموں کشمیر میں پہنچنے کا آرڈردے۔ جنرل گریسی نے ایسا کرنے سے انکارکردیا۔ پہلی نومبرکوماؤنٹ بیٹن قائد اعظم کوملنے کےلئے پاکستان آیا کہ لڑائی کوکیسے روکا جائے، جناح نے کہا، کہ دونوں ایک ہی وقت میں جنگ بندی کریں اورواپس ہوجائیں۔ ماونٹ بیٹن نے قائد اعظم سے کہا، کہ غیرریگولرقبائلیوں کی فوج کیسے حکم مانے گی۔ قائد اعظم نے کہا کہ مجھے اپنے ساتھ سرینگرلے جائیں، 24 گھنٹوں میں قبائلیوں کوواپس نکلوا دوں گا۔
اس سے قبل نہروکے ساتھ میٹنگ میں ماؤنٹ بیٹن یہ منوا چکا تھا کہ اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استصواب رائے کرالیا جائے۔ جب ماؤنٹ بیٹن نے اس کا ذکرقائد اعظم سے کیا، تو قائد اعظم نے اس تجویز کوماننے سے صاف انکارکردیا۔ قائد اعظم نے کہا، کہ انڈین فوج کی موجودگی اورشیخ عبداللہ کی سیاسی حکومت کے زیرانتظام عام کشمیری کیسے پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا۔ نہرو نے 2 نومبرکوریڈیو کےذریعے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، کہ ہم امن اورخون ریزی کو روکنا چاہتےہیں۔ اس لئے بین الاقوامی نگرانی میں ہم کشمیر پرریفرنڈم کرانے کے لئے تیار ہیں۔
اس کے بعد جب یہ دیکھا گیا، کہ فوجی لحاظ سےکشمیرپرپاکستان کی پوزیشن کمزورہوتی جارہی ہے،اورحملہ سے قبضہ کرنے کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے، تو قائد اعظم نے بھی ریفرنڈم کی تجویز کومان لیا۔ 15 نومبرکونہرو کشمیروادی میں گیا تو اس نے اپنی آنکھوں سےہمارے قبائلیوں کے ہاتھوں لٹے اور تاراج کئے علاقے دیکھے۔ 27 نومبرکودہلی میں لیاقت علی اور نہروکے درمیان مذاکرات ہوئے، جس کا ماحول خاصہ تلخ رہا۔ ماونٹ بیٹن نے پھرریفرنڈم کی تجویز آگے رکھی۔ شیخ عبداللہ کی سربراہی میں عبوری حکومت بنائی جائے، قبائلیوں کوکشمیر سے نکالاجائے۔ اورانڈین فوج کوبھی۔
لیکن اس دوران میرپور اورپونچھ کے علاقوں پرقبائلیوں کے لوٹ مارکے حملے جاری رہے۔ وسیع پرتشدد اورعورتوں کواٹھانے کے واقعات رپورٹ ہورہے تھے۔ قبائلیوں کے مسلسل نئے دستے داخل ہورہے تھے۔ اور ہزاروں لوگوں کا قتل ہورہا تھا۔ نہرو کے احتجاجی مراسلے کے جواب میں پاکستان نے کہا، کہ پاکستان سرکاری طورپراس میں ملوث نہیں ہے۔ حملہ آوروں کے پاس اپنا اسلحہ ہے یا پھرافغانستان اور سوویت یونین ان کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ (چالبازی ملاحظہ کریں)۔ سوویت یونین کو اس لئے ملوث کرلیا، کہ برطانیہ اور امریکہ کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں۔
معاملات صلح اور سمجھوتے کی طرف نہیں جارہے تھے لہذا انڈیا یکم جنوری 1949 کو مسئلہ کولے کرسلامتی کونسل میں چلاگیا۔ انڈیا کے نمائندے نے اپنا موقف پیش کیا، ادھروزیر خارجہ سر ظفراللہ (جو کہ احمدی تھے) نے ساڑھے پانچ گھنٹے کی تقریر میں بڑے زور دار طریقے سے پاکستان کے “موقف “کا دفاع کیا۔13اگست 1948 کوسلامتی کونسل نے ایک قراداد کے ذریعے فیصلہ دیا۔ کہ سیزفائرہو، اور کشمیرکا فیصلہ وہاں کے لوگوں کی مرضی سے ہوگا۔ پاکستان کشمیرکے علاقے سے اپنی فوجیں واپس کرے۔ انڈیا سیز فائرکے وقت کی لائن کوبرقراررکھے گا۔ اوراتنی فورسز رکھے گا، جس سے لا اینڈ آرڈرقائم کرسکے۔
اب انڈیا کاکہنا ہے، کہ پاکستان نے قراداد کی شرط کہ پاکستانی فوج کشمیر (آزاد کشمیر) کا علاقہ خالی کرے، اس پرکبھی عمل نہیں کیا۔ سلامتی کونسل 1964 تک 124 میٹنگزکرچکی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں دونوں طرف سے الفاظ بولے جاچکے۔ نتیجہ زیرو۔ کیا کشمیر کا مسئلہ کبھی حل ہوسکے گا؟ اگرنیت ٹھیک نہیں تو کبھی نہیں، 70 سال ہوگئے، کئی تباہ کن جنگیں اورلڑائیاں ہوچکی۔انڈیا کی مدد سے اوراپنے بنگالی عوام کے ساتھ پاکستانی حرام زدگیوں کی وجہ سے پاکستان آدھا ہوچکا۔
ہماری اسٹیبلش منٹ کچھ لو، کچھ دو کرکے سیاسی قیادت کوآگے نہیں بڑھنے دیتی۔ ان کے وسیع مفادات انڈیا دشمنی سے جڑچکے ہیں۔ پاکستانی فوج کبھی کشمیرکوجنگ سے آزاد نہیں کراسکتی۔ کشمیر میں کبھی تاقیامت ریفرنڈم نہیں ہوسکتا۔ اب دونوں نیوکلئیرطاقت بھی ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلش منٹ اور اس کے پالے ہوئے اسلام پسند غنڈےباز آنے کو تیارنہیں۔ ورنہ سیدھا حل ہے، جو انڈیا کےپاس ہے وہ اس کا ہے، جو پاکستان کے پاس ہے وہ ہمارا ہے۔ دوطرفہ صلح اوردوستی کرکے کشمیرکے درمیان بارڈر کوغیرموثرکردیا جائے۔ تاکہ دونوں طرف کے کشمیری آزادانہ ایک دوسرے کے پاس آ جاسکیں۔ تجارت ہو، امن ہو۔۔ اوریہ خطہ ترقی کرے۔
♦
One Comment