یہ اکتوبر ۲۰۰۲کی بات ہے جب میں ٹیکساس کے بین الاقوامی ہوائی مستقر پر اترا تو اس دن امریکی امیگریشن کے ترمیم شدہ قوانین پر عملدرآمد کا پہلا دن تھا ۔ امریکی امیگریشن کے قوانین میں ترامیم کے مطابق کچھ ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر کچھ خاص سوالات پوچھے جانے تھے اور ان کے ہاتھوں اور انگلیوں کے نشان لینا وغیرہ لازمی قرار پایا تھا ۔
پہلے دن سرکاری طور پر پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں تھا جن کے شہریوں پر اس قانون کا اطلاق ہونا تھا۔ ٹیکساس کے اس امیگریشن آفیسر کے سامنے پیش ہونے والا اس دن شائد پہلا شخص تھا جس کے ہاتھ میں سبز پاکستانی پاسپورٹ تھا۔ اس آفیسر نے فون پر کسی سے اس بات کی تصدیق کرنے کے بعد کہ پاکستانیوں کو بھی اس مرحلے سے گزرنا ہوگا مجھ سے کہا کہ وہ میرے ساتھ میری نسلی اور مذہبی وابستگی کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے والاہے جس کے لئے اس نے پیشگی معذرت چاہی ۔
اس نے یہ بھی کہا کہ وہ انسانی مساوات کے اس مقدس مقصد کی خلاف ورزی کرنے والا ہے جس پروہ آزاد امریکی معاشرہ قائم ہے جس کے لئے اس کے آباؤاجداد نے قربانیا ں دی تھیں ۔ یہ کہتے وقت میں اس کی آنکھوں میں آنسو صاف دیکھ سکتا تھا۔ اس کے بعد اس نے سوال جواب کا آغاز کیا جو دو گھنٹے تک جاری رہا۔ مجھے آج بھی اس کا چہرہ نہیں بھولتا نہ الفاظ بھولتے ہیں ۔
مجھ جیسا شخص کو اس کےسکول کالج اور یونیورسٹی نہ بدل سکے تھے ، جس کو اس کا مذہب اور معاشرہ نہ بدل سکا اس کو اس دن ایک سیاہ فام امریکی سے چند منٹوں کی گفتگو نے بدل کر رکھ دیا تھا اور اس دن کے بعد کسی بنیاد پر ترجیح ، عدم رواداری یا امتیازی سلوک میرے لئے گالی بن چکی تھی۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد شائد وہ امیگریشن افیسر بھی ان لوگوں میں شامل ہو چکا ہو جنھوں نے اپنے ملک کے منتخب صدر کے امتیازی سلوک پر مبنی اقدامات پر عمل دراآمد کرنے پر گھر بیٹھنے کو ترجیح دی ہو اور امریکہ کی سڑکوں پر مظاہرین میں شامل ہو۔
سن دو ہزار کے بعد امریکہ میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔ نئی پالیسیاں بنائی گئیں اورنئے ادارے وجود میں آگئے ہیں۔ میں نے سن دو ہزار کے ابتدائی پانچ سالوں میں امریکہ کا سفر تقریباً ہر سال کیا اور ان تبدیلیوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اب پاکستان سے امریکہ پہنچنے کے لئے کئی کئی دنوں اور گھنٹوں کا انتظار نہیں کرنا پڑتا کیونکہ دو ڈھائی گھنٹے بعد ہی سر زمین حجاز کے ساتھ ابو ظہبی میں ہی ریاستہائے متحدہ امریکہ میں خوش آمدید کی تختی نظر آ جاتی ہے ۔ ابو ظہبی میں امریکہ میں داخل ہونے کے لئے امیگریشن کے عمل سے گزرتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ بندہ امریکہ میں نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ سب سے بڑی تبدیلی ڈونلڈ جے ٹرمپ کی ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بطور صدر انتخاب کے بعد اب آئی ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران کئی لوگ شائد وائٹ ہاوس کو باہر سے گزرتے ہوئے بھی نظر اٹھا کر دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے اب یہاں ایک دفعہ پھر عقیدت کے پھول نچھاور کیا کریں گے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو وائٹ ہاؤس کے اس نئے مکین کی یہاں آمد سے خوش نہیں کیونکہ وہ ان کو امریکہ کے لئے اور پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
کچھ لوگ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی مذمت کئے جارہے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کی امریکہ میں آمد پرمذہبی اور نسلی تعصب کی بنیاد پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے۔نیویارک کی سڑکوں پر خواتین کے جلوس سے ابتدا ہوئی تو اب بات یورپ اور مشرق وسطیٰ کی سڑکوں تک آگئی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسلام کے خادم کہلانے والے بادشاہوں کی راجدھانیوں میں تو اس طرح کی پابندیوں کو نئے جمہوری امریکی بادشاہ کا استحقاق قرار دیا لیکن اس کے خلاف تل ابیب نام کی یہودی بستی میں سب سے بڑا جلوس نکال کر مجھ سمیت کئی ایک کمزور عقیدہ مسلمانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ اپنی تباہی کے لئے دن رات دعائیں مانگنے والے مسلمانوں کے حق میں احتجاج کرنے والے یہ کون لوگ ہیں ؟
ہمیں تو یہ بتایا گیا ہے کہ عالم اسلام کی حفاظت حجاز مقدس سے خادمین الشریفین ہی نے کرنا ہے اس لئے ان کی خدمت ، فرمانبرداری، اور اطاعت ہم پر لازم ہے۔خادمین الشریفین کی قیادت میں انتالیس ملکوںپر مشتمل ایک فوج بھی بنائی گئی ہے جو امہ کا تحفظ کرنے والی ہے۔ اس مشترکہ فوج کی سربراہی جو ہمارے حصے میں آنے والی تھی چند حاسدوں کی کوتاہ نظری کی وجہ سے رک گئی ہے ورنہ ہم عالم اسلام کے سالار ہوتے۔ خادمین الشریفین کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں کا امریکہ میں داخلے کے احکامات کو عین ا سلامی قرار دینے کے اعلان سے تو لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نہیں بلکہ ان کی مخالفت کرنے والے ہی اسلام کے دشمن ہیں۔
اس امریکی صدر کے سب سے پہلے مخالف تو اس کی اپنی پارٹی کے وہ ارکان تھے جنھوں نے ان کی بطور صدارتی امید وار نامزدگی کی مخالفت کی اور ان کا جی جان سےمقابلہ کیا۔ جب وہ اس مرحلے سے کامیاب ہو کر آگے بڑھے تو ان کا راستہ روکنے والے مخالف پارٹی کے لوگ تھے ۔ ہم نے تو سنا تھا کہ امریکہ کا اپنے اصلی نام کو چھپا کر بائبل پر قسم اٹھانے والا سیاہ فام صدر ہی مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے ، پھر وہ اس سفید فام صدر کا مخالف کیوں ہے؟ اب یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا کاروبار مشرق وسطیٰ میں ہے اور یہیں سے ان کے انتخابات کا خرچہ اٹھایا گیا۔ کہیں یہ سفید فام نیا صدر مسلمانوں کا خفیہ ایجنٹ تو نہیں؟ پھر تو مبارک حسین اوبامہ یہودیوں کا ایجنٹ ضرور ہے کیونکہ تل ابیب اور وہ دونوں ہی ٹرمپ کے مخالف ہیں۔
ہمیں تو یہ بتایا گیا ہے کہ مغربی میڈیا اصل میں دجالی میڈیا ہے جو عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت ہرزہ سرائی اور پروپیگنڈے میں مصروف رہتی ہے۔ اس دجالی میڈیا کو ڈونلڈ ٹرمپ بھی شیطان کا آلہ کہتا ہے کیونکہ مغربی میڈیا بھی ان کے اقدامات کا مخالف ہے۔ ہمارے ترکی کے سلاطین ، مشرق وسطیٰ کے خلفاء اور شاہوں کی طرح جناب ٹرمپ بھی اس دجالی میڈیا کو پسند نہیں کرتےاور اگر ان کے بس میں ہو تو وہ فضول سوالات کرنے والے دو دو ٹکے کے صحافیوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال کر ان پر کتے چھوڑ دے۔ اگر میڈیا اچھا ہوتا تو ہمارے خادمین الشریفین اس کو اپنے ہاں بھی آزاد نہ کرتے۔ یقیناً میڈیا دجالی ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کرتاہے۔
ہم تو یہ جانتے ہیں کہ کسی خلافت میں فائز قاضی کے علاوہ دنیا کا ہر عدالتی نظام شیطانی قوانین کا محافظ ہے جو منصفانہ ہو ہی نہیں سکتا۔ امریکہ کی سب سے بڑی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف اس امتیازی سلوک کو امریکی مساوات اور برابری کے معیار کا منافی قرار دیکر معطل کردیا ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات اتنے غلط ہوتے تو کیا حجاز کا کوئی قاضی جو ہر وقت کثیر الازدواجیت جیسے اہم امور پر فتوے صادر کرتے رہتے ہیں کوئی فتویٰ نہیں دیتا ۔ یقیناً امریکی عدالتی نظام بھی کفریہ اور شیظانی قوانین کا محافظ ہے جو ایک خود مختار منتخب صدر کو من مانی جیسے مشرق وسطوی امر سے روکنے کی ناپاک جسارت کر رہا ہے۔
پس اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا جو بھی مخالف ہے وہ یہود و نصاریٰ کا ساتھی ہے لہذا ہم پر واجب ہے کہ ان کی حمایت میں ایک عدد جلوس کا اہتمام کرکے اپنا فرض ادا کریں ورنہ ہم یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ کہلائیں گے۔
♦