رائٹرز
اسلام آباد:پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی اور سہ فریقی تجارت کے معاہدوں پرعمل درآمد ناکامی سے دوچار ہے جس کی بنیادی وجہ تعلقات میں تناؤ، آپس کی مخاصمت اور شکوک و شبہات ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے پچھلے سال صدر کا حلف اٹھاتے ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔جن میں تجارت کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان طالبان کی نقل و حرکت روکنے کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ بھی تھا ۔
اس معاہدے کا مقصد دہشت گردوں کو لگام دینا تھا جو دونوں ملکوں میں ہر سال کئی ہزار جانیں لے رہے ہیں جو دونوں ملکوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔تجارتی معاہدے کا مقصد باہمی تجارت کا فروغ تھا اور اندازہ تھا کہ اس معاہدے کی بدولت موجودہ باہمی تجارت 1.6 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2017 میں پانچ بلین ڈالر ہو جائے گی۔
افغان حکام نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان معاہدوں کی رو سے ٹیرف میں بتدریج کمی اور ایک دوسرے کو تجارت میں رعایتیں دینا شامل تھا لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
افغان وزارت تجارت کے ترجمان مسفر کوکندی نے کہا ’’وجہ نزاع افغانستان کی بھارت کے ساتھ تجارت ہے اور پاکستان بھارتی اشیاء کو اپنی سرزمین سے گذرنے کی اجازت نہیں دے رہا‘‘۔
اس معاہدے کو اس وقت ایک بڑا دھچکا لگا جب اپریل میں دونوں ملک معاہدے کو برقرار رکھنے کے معاملے پر بات کرنے کو ہی تیار نہ ہوئے۔
پچھلے ماہ اگست میں افغانستان پر طالبان کے پے درپے حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور ان معاہدوں کا مستبقل خطر ے سے دوچار ہو چکا ہے۔
دونوں ملکوں کے سفارتکار ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں ۔ افغان حکام کابل میں طالبان کی کاروائیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا رہے ہیں اور اس پر پر طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگا رہے ہیں جبکہ پاکستان نے اس الزام کو رد کر دیا ہے۔
اسلام آباد میں غیر سرکاری تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ) کے ڈپٹی ڈائریکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ ’’اگر دونوں ملک تجارتی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کرتے تو پھر دونوں ملکوں کے درمیان سیکیورٹی کی صورتحال کو کیسے بہتر بنایا جاسکے گا‘‘۔
افغانستان کے ڈپٹی وزیر تجارت مزمل شنواری نے رائٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل’’ غیر منطقی اور غلط‘‘ ہے کہ افغانستان پاکستان کے راستے بھارت سے تجارت کیوں نہیں کر سکتا۔
دونوں ملکوں کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے کی رو سے افغانستان نے پاکستان کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنا مال بذریعہ افغانستان، وسطی ایشیا
کے ممالک بھیج سکتا ہےلیکن افغانستان پاکستان کے راستے انڈیا سے تجارت نہیں کر سکتا۔
“اگر پاکستان انڈیا کے ساتھ میز پر بیٹھ کر معاملات طے کرے تو معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں ‘‘ ایک پاکستانی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔
پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے تصدیق کی کہ معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا لیکن انہوں نے اس کا الزام افغانستان کو دیا کہ وہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ٹیرف کم کرنے کے لیے مذاکرات نہیں کر رہا۔
دوسری طرف سینئیر افغانی حکام نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’اگر ہم تجارت کرنے میں سنجیدہ ہوں تو یہ تجارت دوہفتوں میں شروع ہو سکتی ہے‘‘
نومبر 2014 میں پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغان کارگو اور افغان تاجروں کے مال کو نہ صرف جلدی کلئیر کرے گا بلکہ ان کو پاکستان ریلوے کے ذریعے اپنا مال بھیجنے کے لیے ترجیح بنیادوں پر سہولتیں دے گا اور کراچی میں افغان مال کو کلئیر کرنے کے لیے ایک علیحدہ ڈیسک بنایا جائے گا۔
خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سی شقوں پر عمل درآمد ہو گیا ہے جبکہ وزارت تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے یہ معاہدے تعطل کا شکار ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وجہ نزاع پاکستان آرمی ہے جو دونوں ملکوں کی باہمی تجارت میں رکاوٹ ہے۔ وزارت تجارت کے ساتھ کام کرنے والے ایک کنسلٹنٹ کے مطابق ’’پاکستان کی وزارت تجارت کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں‘‘۔’’پاک افغان ٹریڈ کے لیے وزرات تجارت کو چھوٹی چھوٹی بات کے لیے آرمی سے کلیئرنس لینی پڑتی ہے ‘‘۔
جبکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اس چپقلش کا فائدہ ایران اٹھا رہا ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے مطابق 2007 کے بعد افغانستان اور ایران کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 2011 میں پاکستان کی جگہ ایران نے لے لی تھی اور اس وقت ایران اور افغانستان کے درمیان سب سے زیادہ تجارت ہو رہی ہے‘‘۔
ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر وقار احمد کے مطابق ’’ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ تجارت کو روک کر افغانستان کی کلائی مروڑ سکتا ہے ‘‘۔ ’’لیکن جلد ہی ایران پاکستان کو اس تجارت سے باہر کردینے والا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
یاد رہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپریل میں دورہ بھارت کے اختتام پر پریس کانفرنس( ڈیلی ڈان یکم مئی) سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان نے واہگہ کے راستے افغانستان کو بھارت کے تجارت نہ کرنے دی تو افغانستان کوئی متبادل راستہ تلاش کرے گا۔
اشرف غنی نے کہا تھا کہ پھر افغانستان بھی پاکستان کو وسطی ایشیا میں مال بھیجنے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈمعاہدے کا احترام کرنا چاہیے جس کے تحت دونوں ممالک اپنی ملکی حدود سے باہر تجارت کر سکتے ہیں اگر پاکستان افغانستان کے راستے وسطی ایشیا میں اپنا مال بھیجنا چاہتا ہے تو افغانستان بھی بھارت کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا ہے۔
بشکریہ : ڈیلی ڈان