لیاقت علی
جماعت اسلامی برصغیر کے تین ممالک۔۔ پاکستان ،بھارت اور بنگلہ دیش میں سیاسی طور پر سر گرم عمل ہے۔کشمیر کے دونوں حصوں۔۔بھارت کے زیر انتظام اور پاکستان کے زیر انتظام میں بھی جماعت کی شاخیں موجود ہیں۔ جماعت اسلامی کی یہ تمام شاخیں مولانا مودودی کو اپنا فکری رہنما تسلیم کرتی ہیں اور انہی کی فکر کی روشنی میں سیاسی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کرتی ہیں لیکن ساتھ ہی عموی طور پر یہ دعوی ٰبھی کرتی ہیں کہ جماعت اسلامی کے نام سے کام کرنے والی یہ سبھی جماعتیں ایک دوسرے سےالگ تھلگ اور آزاد سیاسی پالیسی پر یقین رکھتی اور عمل کرتی ہیں۔
پاکستان کی جماعت اسلامی پاکستان مین ’مکمل اسلامی نظام‘ کے نفاذ کی داعی ہے۔اس کے برعکس جماعت اسلامی ہند بھارت میں سیکولر ازم کا فروغ چاہتی ہے کیونکہ اس کے نزدیک سیکولرازم بھارت کے مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کی جماعت اسلامی کشمیر کو بھارت کے’غاصبانہ قبضے سے آزاد کروانا چاہتی ہے جب کہ جماعت اسلامی ہند کو کشمیر کی آزادی سے کوئی دلچسپی نہیں اور اس کی کشمیر کے حوالے سےکوئی قابل ذکر پالیسی نہیں ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان آئے روز کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان میں انضمام کے لئے جلسے جلوس کرتی رہتی ہے اور کشمیر کو ’جہاد‘ کے ذریعے آزاد کرانے پر یقین رکھتی ہے۔ متحدہ جہاد کونسل کے چئیرمین سید صلاح الدین کا تعلق جماعت اسلامی ہی سے ہے اور وہ جماعت کی ’پناہ‘ میں اپنی جہادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن جماعت اسلامی ہند بھارت کی ایکتا کے خلاف کام کرنے والے افراد، جماعتوں اور اداروں سے لا تعلقی کا اظہار کرتی ہےاور بھارت کی اکھنڈتا پرکامل یقین رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے جماعت اسلامی ہند نے سٹوڈ نٹس موومنٹ آف انڈیا جو اسلامی جمیعت طلبا کا بھارتی ورشن ہے،کے ساتھ اس وقت اظہار لا تعلقی کر دیا تھا جب اس نے بھارت مین دہشت گرد حملے کئے تھے۔
پاکستان کی جماعت اسلامی فوجی آمروں سے سیاسی ملاپ میں کوئی قبا حت خیال نہیں کرتی جب کہ جماعت اسلامی ہند جمہوریت کوتمام ترکمیوں اور خرابیوں کے باوجود ایک قابل عمل سیاسی نظام خیال کرتی ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کا موقف ہے کہ مولانا مودودی نے کسی بھی مرحلے پر قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کی تھی ۔ جسے ان کےمخالفین قیام پاکستان کی مخالفت پرمحمول کرتے ہیں وہ دراصل مسلم لیگی قیادت کی کو تاہ اندیشی اور موقع پرستی پر مبنی پالیسیوں کی مخالفت تھی نہ کہ قیام پاکستان کی۔
جماعت اسلامی ہند مولانا مودودی کی ان تحریروں اور تقریروں کو نمایاں کرتی ہے جس میں انھوں نے بانی پاکستان اور تصور پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ثابت کیا تھا کہ جو پاکستان مسٹر جناح کی قیادت میں قائم ہونے جارہا ہے وہ قطعی طور پر ’اسلامی‘ نہیں ہوگا ۔جماعت اسلامی پاکستان توہین مذہب کے قوانین کی بہت بڑی محافظ اور ان میں کسی قسم کی ترمیم خواہ پارلیمنٹ ہی کیوں نہ کرے کی مخالف ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے ایجنڈے پر ایسا کوئی قانون تو کجا وہ تبدیلی مذہب کو فرد کو حق سمجھتی ہے اور اس پر کسی قسم کی سزا کو انسانی حقوق کے منافی خیال کرتی ہے۔
بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نےمولانا غلام اعظم کی قیادت میں بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کی مخالفت کی تھی اور ’البدر‘ اور ’الشمس‘ منظم کرکے بنگلہ دیش کے نامور دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے قتل عام میں حصہ لیا تھا ۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مولانا غلام اعظم پاکستان تشریف لے آئے اور ایک طویل عرصہ یہاں جماعت اسلامی کے مہمان بن کر رہے۔
بعد ازاں جب فوج نے شیخ مجیب الرحمان کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو مولانا واپس بنگلہ دیش نشریف لے گئے تھے اور جنرل حسین محمد ارشاد کے ساتھ مخلو ط حکومت میں شامل ہوگئے تھے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کو جماعت اسلامی پاکستان سقوط ڈھاکہ قرار دیتی ہے اور اس کا موقف ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام قطعاً آزادی نہیں چاہتے تھے یہ تو پاکستان دشمن سیاسی قیادت اوربھارت اور سوویت یونین کی سازش تھی جس نے پاکستان کے ایک بازو کو علیحدہ کر دیا تھا۔
بنگلہ دیش کے عوام تو آج بھی دوبارہ پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں لیکن ابتدائی طور پر بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت کے باوجود جماعت اسلامی بنگلہ دیش بنگلہ دیش کی تحریک آزای کو درست خیال کرتی ہے اور اس کی مخالفت کو اپنی سیاسی غلطی تسلیم کرتی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش سمجھتی ہے کہ بنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اس کا پاکستان کے ساتھ دوبارہ ملنے کاکوئی امکان نہیں اور ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔گذشتہ سال کی پھانسیوں کے بعد جماعت اسلامی بنگلہ دیش سیکولر ازم کی مخالفت سے بھی پیچھے ہٹی ہے اور بنگلہ دیش میں’مکمل اسلامی نظام‘ کے نفاذ کے نعرے کو ترک کرنے پر راضی ہوگئی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جماعت اسلامی ہند کے ساتھ کوئی تنظیمی اور نظریاتی روابط نہ ہیں جب کہ پاکستان کےزیر انتظام کشمیر کی جماعت اسلامی پاکستان کی جماعت اسلامی کے ماتحت ہے اور اس کے تمام سیاسی اور تنظیمی امور منصورہ میں طے پاتے ہیں۔ اس کی کوئی آزاد حیثیت نہیں ہے۔ پاکستانی کشمیر کی جماعت اسلامی تنظیمی طور پر اتنی آزاد ہے جتنا پاکستانی کشمیر انتظامی طورپر آزاد ہے۔
جماعت اسلامی بھارتی کشمیر نے عرصہ ہوا سید علی شاہ گیلانی کو پارٹی سے خارج کر دیا ہوا ہے لیکن پاکستان کی جماعت اسلامی ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتی اور انھیں نیلسن منڈیلا ثانی قرار دیتی ہے۔سید علی گیلانی ہندو پنڈتوں کو کشمیری سماج کا لازمی جزو خیال کرتے ہیں اور کہتے کہ ہم کشمیر کا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں انضمام نہیں۔ سید علی گیلانی کے مجوزہ آزاد کشمیر میں سبھی شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے حتی کے لامذہب افراد کے ساتھ بھی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کی اتنی شدت سے داعی نہیں جتنی شدت سےپاکستان اور پاکستانی کشمیر کی جماعت اسلامی ہے۔
نظریاتی طور پر مولانا مودودی کی فکر سے وابستہ ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ہر ملک کی جماعت اسلامی مختلف سیاسی اور سماجی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک مخصوص سیاسی اور سماجی ماحول کی پیدا وار ہوتی ہیں ۔ ان کے رہنما بھلے ہی جو مرضی دعوے کرتے رہیں لیکن وہ اپنے ارد گرد کے سیاسی اور سماجی ماحول سے کٹ کر سیاست نہیں کر سکتے۔یہی حال جماعت اسلامی کا ہے جماعت اسلامی لاکھ کہتی رہے کہ مولانا مودودی نے ’اسلامی نظام سیاست اور معیشت‘ کا جو خاکہ پیش کیا تھا وہ دنیا کے ہر ملک میں قابل عمل ہے یہ نعرہ تو ہو سکتا ہے لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے۔
جماعت کا موقف ہے کہ ہر ملک کے سیاسی اور سماجی حالات مختلف ہیں لہذا وہاں کی جماعت کی حکمت عملی بھی مختلف ہے۔ درست تسلیم ۔ لیکن اس جواب کا مطلب ہے کہ دین اسلام کسی حتمی سیاسی اور سماجی نظام کا داعی نہیں وہ اپنے پیروکاروں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور سماجی حالات کی روشنی اپنا سیاسی ا ور سماجی لائحہ عمل ترتیب دینے میں آزاد ہیں کیونکہ اسلام کسی مخصوص نظام ریاست تجویز نہیں کرتا ۔ یہ ایک مخصوص ملک اور خطے کے رہنے والے مسلمانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے کون سا سیاسی نظام پسند کرتے ہیں اور منتخب کرتے ہیں۔ اس ضمن میں کوئی ہارڈ اور فاسٹ اصول نہ ہیں۔ کوئی حتمی سیاسی نظام ایسا نہیں جس پر عمل پیرا ہونا اور جس کا نفاذ مسلمان کے لئے لازم ہےبلکہ وہ حالات کے مطابق اپنی سیاسی اور سماجی راہ منتخب کی جاسکتی ہے۔
♦
One Comment