حیدر چنگیزی
سینٹ ویلنٹا ئن ڈے جسے ویلنٹائن ڈے کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، ایک مخصوص عالمی دن ہے جو ہر سال14 فروری کو اکثر مغربی اور سیکولر ممالک میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے ویسے تو عیسائی مذہب کا تہوار ہے لیکن یہ تہوار دنیا کے تمام مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ بعض اسلامی ممالک میں بھی منایا جا تا ہے جہاں کے مسلمان سیکولر اور مغربی سوچ و فکر کے حامی ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کیا ہے اور اسکی ابتداء کب اور کہاں سے ہوئی؟اس حوالے سے کوئی مستندحوالہ تو موجود نہیں لیکن اس بارے میں کئی روایات ملتی ہیں۔
اس حوالے سے ایک داستان بتائی جاتی ہے جسےِ تیسری عیسوی صدی کے ایک عیسائی پادری سے منسلک کی جاتی ہے۔ اس روایت کے مطابق اہلِ کلیسا کے پادریوں پر نکاح اور ازدواجی زندگی کی سخت پابندی تھی لیکن یوں ہوا کہ ویلنٹائن نامی ایک مشہور عیسائی پادری ایک حسین لڑکی کی عشق میں گرفتار ہو ا اور رفتہ رفتہ اسِ عشق کے سرِعام ہونے پر اس کا قتل عام کیا گیا۔ دوسری روایت کے مطابق ویلنٹائن کے نام سے منسوب ایک اور عیسائی پادری کی داستان یوں رقم کی جاتی ہے کہ جب روم کے بادشاہ کلاودیوس کو روم کیلئے ایک مستحکم فوج کی تشکیل دینے میں پریشانی کا سامنا ہوا تو اُنہوں نے اسِکی وجوہات کا پتہ لگایا کہ شادی شدُدہ سپاہی اپنے گھر بار چھوڑ کر کبھی بھی جنگ کیلئے ہمہ دم آمادہ نہیں ہو سکتا جسکی وجہ سے کلاودیوس نے روم کے تمام فوجیوں پر شادی کرنے کی پابندی لگادی ۔
لیکن ویلنٹائن جو اس وقت کے ایک مشہور پادری تھے، نے اس شاہی حکم نامے کی نافرمانی کرتے ہوئے نہ صرف فوج میں موجود سپاہیوں کی چُپکے سے شادی کرادی بلکہ اُس نے خود بھی خفیہ شادی کی۔ اس حکم نامے کی خلاف ورزی پر14 فروری کو کلاودیوس نے سینٹ ویلنٹائن کو سزائے موت دی جسکے بعد اس دن کو محبت کا عالمی دن قرار دیا گیا اور دنیا کے اکثر وبیشتر مختلف مذہبوں کے ممالک میں یہ دن سرَ عام منا یا جانے لگا۔
اب اگر پاکستان کی صورت حال کو دیکھا جائے تو پچھلے دو تین سالوں سے پاکستان کے نوجوان طبقہ اسِ تہوار کو جوش خروش سے مناتے نظر آرہے ہیں اور ہر سال اس دن کو لیکر پاکستان میں ایک نیا تنازعہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ سال2016 میں وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد میں ویلنٹائن ڈے منانے پر جزوی پابندی عائد کی تھی اور اس طرح امسال بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ویلنٹائن ڈے کی پروموشن اور پر باقاعدہ پابندی عائد کی گئی ہے۔در اصل یہ تمام کاروائیاں اس تہوار پر پابندی نہیں بلکہ پاکستان کو مزید اسلامائزیشن کی جانب دکھیلنے کی سازش ہے جسے پاکستان کی نام نہاد مذہبی اسٹیبلشمنٹ اسلام کو سا لمیت اور تحفظ دینے کی بجائے اپنی ذاتی مفادات کو پورا کرنے کیلئے استعمال کرتی آرہی ہیں۔
جیسا کہ اسِ سے پہلے بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان کے آزاد ہوتے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے سیکولر فکر و نظریہ کو چھپانے اور دفنانے کیلئے اسلامائزیشن کا سہارا لے کر قرار داد مقاصد کو قائد اعظم کے فکر و نظریہ کے برعکس روبرو لاکر فروغ دیا گیا اور قائد اعظم کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی اُس تقریرکو جس میں انہوں نے پاکستان کومذہبی ریاست کی بجائے ایک سیکولر ریاست قرار دیا تھا اور ایک ایسی پاکستانی قوم کی بات کی تھی جس میں ہر مذہب و عقیدے کے لوگ شامل ہوں گے اور مذہب لوگوں کا نجی معاملہ ہوگا، کو نشر نہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اُس ریکارڈ کو آج تک دفن کرکے چھپایا گیا۔
اس کے بعد 1970 کی دہائی میں مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش کے قیام کو روکنے کیلئے” نظریہ پاکستان” کو تشکیل دیکر اسے مذہبی رنگ دیا گیا تا کہ مشرقی پاکستان اور بنگالیوں کے مسائل کا سیاسی اور معاشی حل ڈھونڈا جا سکے ۔ اس اسلامائزیشن پالیسی کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں کو سیاست کے دھارے سے کاٹ دیا گیا، کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی سے روایتی ملاؤں کو بے انتہا طاقتور بنایا گیا، تعلیمی نظام کو یوں اسلامی بنایا گیا کہ تحقیق و تخلیق کی صلاحیتیں ختم ہونے لگی اور تعلیمی معیار گرنے لگا،تعلیمی نصاب میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان جیسے مضامین کا اضافہ کیا گیا جسے لازمی قرار دیکر محمد بن قاسم کو بر صغیر ہندوستان میں اسلام کا علمبردار اور پہلا پاکستانی قرار دیا گیا اوراسیِ اسلامائزیشن کے تحت ہماری اصل تاریخ کو چھپایا گیا۔
آج پھر سے پاکستان میں اسیِ اسلامائزیشن کے عمل کو دہُرایا جا رہا ہے تاکہ پاکستان میں بچے کھچے عیسائی اقلیتوں اور سیکولر طبقوں کو زیر کر کے قائد اعظم کے سیکولر نظریہ کے تحت بننے والی پاکستان کو صرف اورصرف ایک اسلای ریاست دکھایا جائے۔ لیکن حقیقت کو کب تک چھپایا جا سکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر سینٹ ویلنٹائن کو مسلمان کی جانب سے زانی اور ریپسٹ کا لقب دیا جاسکتا ہے تو الباکستانیوں سے یہ سوال کرنا قطعاََ غلط نہ ہوگا کہ کیا محمد بن قاسم کی راجا داہر کے بیٹیوں اور بیوی کے ساتھ وہ ناروا سلوک صحیح تھا؟
پاکستان کی پہلی بندر گاہ بن قاسم پورٹ کراچی، پی این ایس قاسم نیول ہیڈکوارٹر، بن قاسم ایوی ایشن بیسجنہیں مسلمانوں کے مشہور جنرل محمد بن قاسم کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، راجا داہر کی بیٹیوں اور بیوی کو مالِ غنیمت کے طور پراستعمال کرنے کے بعدخلیفہ کے ہاں بطور کنیزپیش کرنے والا مردِمومن اور کوئی نہیں بلکہ محمد بن قاسم ہی تھے لیکن اس بات کو تاریخ سے مٹادیا گیا ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے شاہی خزانہ کے لاکھوں کروڑوں کے دولت کوضائع کرکے اپنی بیگموں میں سے سب سے پسندیدہ بیگم ممتاز کا مقبرہ یعنی “تا ج محل” جسے آج عشق کا نشان کہا جاتا ہے، کو بنانے والا کوئی ہندو، سکھِ یا عیسائی نہیں بلکہ مغل بادشاہ” شاہ جہاں” ہی تھا۔
اور اب اگر ایک نظر جنوری 2016 کی اُس رپورٹ پر بھی دوڑائی جائے جو پنجاب پولیس کی جانب سے شائع کی گئی تھی ،جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ سال 2016 کے پہلے مہینے یعنی جنوری میں صرف 197 ریپ کے کیس رپورٹ ہوئے جن میں 23 گینگ ریپ شامل ہیں ، بھی ہم مسلمانوں کے ہی کالے کرتوت ہیں لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں کہ انِ حقائق پر سنجیدگی سے غور و فکر کر کے ان تمام برائیوں پرآواز بلند کر سکے اور ایسے واقعا ت کو روکا جائے ۔
کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ویلنٹائن ڈے کو پاکستان میں بھی منانے کی اجازت دی جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو مزید اسلامائزیشن کے عمل سے روکا جائے تاکہ مزید ہمیں اس عمل سے منفی تاثرات اور مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ اگرریاستِ پاکستان کے محمد بن قاسم صحیح معنوں میں اور اسلامی معیار کے مطابق پاکستان کوایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو آئے دن رونما ہونے والی ریپ کیسز کے ساتھ ساتھ تمام برائیوں کو روکنا ہوگا ۔
♥