تحریر وتحقیق : پائند خان خروٹی
انسان مسلسل ارتقاء پذیر ہے اور اپنے خمیر میں کسی مخصوص منزل پر روکنے یامطمئن ہوجانے کی خاصیت نہیں رکھتا کیونکہ انسانی وجود کا بنیادی جوہر ہی مسلسل جدوجہد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ارتقائی عمل ہے ۔ اسی مسلسل جدوجہد کی وجہ سے ہی انسان کی اصل عظمت وکردار دیگر مخلوقات کے مقابلے میں واضح ہوجاتی ہے چونکہ تبدیلی وتغیر وجود کااٹل قانون ہے لہذا زندگی کے نشیب وفراز میں انسان کسی خاص مرحلے میں روکنے کی بجائے ہر نئی منزل کے حصول کے بعد ایک اورنئی منزل کا تعین کرکے عصر نو کے مزل کو جاری وساری رکھتا ہے ۔
جدلیاتی مادیت کی رو سے ہر چیز مسلسل بدلتی رہتی ہے ۔ اس لئے زندگی میں ٹھہراؤ اوریکسانیت کا کوئی تصور نہیں ۔ اس تناظر میں کوئی چیز ، رجحان یا مکتبہ فکر ہمیشہ کیلئے جدید نہیں رہ سکتا ہے ۔ آج کی روایت گزشتہ کل جدیدیت تھی اور آج کی جدیدیت آنے والے کل کی روایت بن جائیگی ۔ اس طرح ماضی حال میں اور حال مستقل میں تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ یہ ایک جدلیاتی عمل ہے جو ہماری خواہش کے مطابق اپنے قانون کو تبدیل نہیں کرتا ۔ تبدیلی کی اس کشمکش میں انسان کئی مصائب ومشکلات سے دوچار ہوجاتا ہے ۔ ’’ جب علم کادائرہ وسیع ہوتا ہے اور نظر کے سامنے نئے افق نمودار ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر سارا قدیم اسلوبِ حیات مشکوک دکھائی دینے لگتاہے مگر انسان اپنے ماضی کی نفی کرنے پر مشکل ہی سے رضامند ہوتا ہے اور اس لیے قدیم سے وابستہ رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یوں اس کی زندگی ایک عجیب سی منافقت کی زد میںآجاتی ہے ۔ ذہنی طورپر وہ نئے زمانے کے ساتھ ہوتا ہے اور جذباتی طو رپر پرانے زمانے کے ساتھ ۔‘‘(1)۔
اردو زبان کی کم مائیگی کے باعث اکثر الفاظ اور اصطلاحات کے درست معنی تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے مثلاًجدید، جدت کاری اور ماڈرن کیلئے جدیدیت جیسے الفاظ و اصطلاحات کے معنی اکثر ایک ہی نکل آتے ہیں اور ان کی الگ الگ وضاحت اورصراحت مشکل ہوجاتی ہے ۔ اردو ترجمے سے نہ صرف الجھن اورابہام میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ سائنس وفلسفہ کو مسلمان بنانے کیلئے چند جملوں کااضافہ بھی کیاجاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قاری کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ماڈرنز م یا اسی کے متبادل الفاظ واقعتا لفظ ہے یا اصطلاح ، ذاتی پہچان بناناہوتا ہے یا موروثی شناخت بگاڑنا ہوتا ہے ۔ جدید وقدیم میں تمیز کرنے کی علامت ہے یا ایک مسلسل عمل کانام ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا نے جدیدیت کے مزاج کا تعین ان الفاظ میں یوں کیا ہے :
’’ جدیدیت ہمیشہ تخریب اور تعمیر کے سنگم پرجنم لیتی ہے اور اس لیے جہاں ایک طرف یہ ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کے جملہ مراحل کی نشاندہی کرتی ہے وہاں اس نئے پیکر کے اُبھر نے کامنظر بھی دکھاتی ہے جو قدیم کے ملبے سے برآمد ہورہا ہوتا ہے ۔ یوں تو ہر گزرتا ہوا زمانہ جدید کہلانے کا مستحق ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کو فکری یافنی اعتبار سے ’’جدیدیت ‘‘ کا حامل بھی قرار دیاجائے ۔ جدیدیت اسی وقت نمودار ہوتی ہے جب فکری تناؤ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں مسلمہ اقدار اور اداب ریزہ ریزہ ہونے لگتے ہیں اور اقدار وآداب کی ایک نئی کھیپ وجودمیں آنے کیلئے بے قرار ہوجاتی ہے ۔‘‘(2)۔
جدیدیت کاآغاز یوں تو براعظم یورپ میں تحریک نشاۃ ثانیہ سے ہوتا ہے ۔ دھیرے دھیرے یہ صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد, صنعتکاری ،شہری زندگی اور اشیائے ضروریات(کموڈیٹی) کے مرحلوں سے گزر کر اس کے اثرات بہت واضح ہوجاتے ہیں مگر اردو ادب میں طویل اور موثر ترقی پسند تحریک کے مقابلے میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جدید پسندی کوایک مخصوص مکتبہ فکر کے طو رپر متعارف کرایاگیا جس کے نتیجے میں تقسیم ہند کے بعد خاص کر ادبی دنیا میں ترقی پسندوں اور جدید پسندوں کے مابین کشمکش اور بعض اوقات ٹکراؤ کی صورت بھی دیکھنے میں آئی ۔ واضح رہے کہ یہ تقسیم اور ٹکراؤ بین الاقوامی سطح پر ادب وسیاست میں تقسیم کاتسلسل ہے ۔جدیدیت پسند اہل علم ودانش نے شعر وادب میں بے معنونیت ،الجھن ، گڈو ڈی اور ابہام کے رجحانات کو خاص طورپر فروغ دیاجو ترقی پسندوں کے ادب برائے زندگی کے نظر یے سے متصادم تھا ۔ جدیدیت چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا بائی پروڈکٹ ہے۔ لہذا استحصال اور منافع اس کے بنیادی عناصر ہیں ۔ عمران شاہد بھنڈر کہتا ہے کہ ’’ استحصال کے پہلو کو مغربی سماج کی سیاسی اور معاشی جہات سے الگ کرکے سمجھا نہیں جاسکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی سامراج نے شعوری فلسفوں کو ایک ایسے نظام کے دفاع کیلئے استعمال کیا کہ جس میں تضادات کی نوعیت اس سطح تک پہنچ جاتی ہے کہ شعوری فلسفوں کا استعمال بھی اس نظام کا دفاع نہیں کرسکتا ۔‘‘(3)۔
اکثر اہل فکر وقلم جن کاتعلق ہر اعتبار سے مڈل کلاس سے ہوتا ہے سیل پسندی اور مراعات کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ دوسری جانب حکمران طبقے کو اپنے سرمایہ دار اور اقتدار کے تحفظ اور استحکام کیلئے میڈیا ادب اور سیاست میں عوامی رائے ہموار کرنے اور ذہن سازی کرنے کیلئے ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔مراعات اور استحصال پر مبنی اس گٹھ جوڑ کے بعد محروم اور محکوم طبقات کو جزوی اصلاحات پر صبر وشکر ادا کرنے، زردار اور زوردار کے بے جاء تقدم اور تقدس کی پاسداری پر مائل کرنے ، فردیت کوفروغ دینے اور استحصالی نظام کو نئے سرے سے معاشی مساوات وبرابری کی بنیادوں پر استوار کرنے کے مطالبے سے دستبردار کرنے کیلئے مختلف حربے وہتھکنڈے استحصال کرنا روز مرہ کامعمول بن جاتا ہے ۔
ایسا کرکے جدید پسندوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہ بھی آسانی تھی اور ہے کہ انہیں کینسر زدہ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے خواہش مند عناصر کے مقابلے میں ریاست کی سرپرستی اور پشت پناہی حاصل رہی ہے ۔لہذا انہیں جدیدیت پسندی کے رجحان کوفروغ دینے میں آسانی اور پناہ میسر ہوئی ۔ آج بھی اکثر ادیب وشعراء حضرات خود کو غیرجانبدار اور بے ضرر ظاہر کرنے کیلئے گرے ایریا میں رہنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں تاکہ کسی دباؤ اور پریشان ہوئے بغیر مراعات یافتہ گاں کی فہرست میں شامل رہ سکیں ۔
مغرب میں سرمایہ دارانہ نظام ظہور پذیر ہونے اور اس کا اجارہ داری میں تبدیل ہوجانے کے بعد حکمران طبقے میں کسی نئی ممکنہ تبدیلی کاخوف بڑھنے لگا جسے اشتراکی مفکر اعظم کارل مارکس نے براعظم یورپ میں ضد انقلاب ،سامراجی واستحصالی قوتوں کے سرپرمنڈلاتا ہوا بھوت اور انقلابی نظریہ ومبارزہ کا راستہ روکنے کو یوں بیان کیا ہے :
” A spectre is haunting Europe-the spectre of communisim. All the powers of old Europe have entered into a holy allience to exercise this spectre: Pope & Tsar, Metternich & Guizot, French radicals & German police-spies.”(4)
اسی خوف کے تحت اور نئی ممکنہ تبدیلی کوروکنے کیلئے اجارہ دار سرمایہ دار طبقے نے تمام سماجی علوم میں ایسے رجحانات کوفروغ دیا جو انسان کو کنفیوژن ، اکیلا پن، تجرید اور بیگانگی کااسیر بناتا ہے ۔ علم وادب میں جدیدیت کی تحریک بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جسے وجودیت کاتڑکہ لگا کر تازہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ناامیدی اور بے یقینی کوجنم دینے والے رویے انسان کو اپنے مشترکہ مستقبل پر اعتماد اور تعمیر وتخلیق کے جذبے سے محروم کرتے ہیں ۔ اس لیے جدید پسند عناصر ارتقاء انسانی پر یقین کرنے والے مارکسی دانشوروں کیلئے ناقابل قبول ہیں ۔
جدیدیت اور مابعد جدیدیت پر بعض اہل علم وسیاست کے چھوٹے موٹے اعتراضات بھی ہیں کہ جدیدیت کی تحریک مغرب کی غیر ضروری اور بلا جواز تقلید اور نقالی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔ گویا جدیدیت کے ذریعے مغربیت مسلط کرنے کی رہ ہموار کی جارہی ہے ۔ جدیدیت کا مشرقی سماج کی معروضی سچائیوں سے کوئی تعلق نہیں کہ ہمارے معاشرے میں عموماً قبائلی ذہنیت اور جاگیردارانہ نظام کے اثرات غالب ہیں جبکہ جدیدیت مغربی سرمایہ داری نظام کی نمائندہ ہے ۔ ان تحفظات اور خدشات میں کس حد تک حقیقت پائی جاتی ہے یہ ایک توجہ طلب مسئلہ ہے مگر جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے سے مغرب کے پوری دنیا پر خصوصی احسانات ہیں ۔ کوئی ذی فہم انسان مغرب کے علوم وفنون کی افادیت سے انکار نہیں کرسکتا ۔
ویسے بھی علم وفن تمام انسانوں کی مشترکہ میراث ہے ۔ شرق وغرب کے نام پر چیزوں کو قبول یا رد کرنے کی بجائے چیزوں کو مفاد خلق کے تناظر میں نظریاتی بنیادوں پراپنانا یا ترک کرنا ہی اصل علمی وعقلی رویہ ہے ۔ فرد کی بجائے سماج کی آزادی ، تنقید وتخریب کی بجائے تخلیق وتعمیر ، موضوعیت کی بجائے معروضیت ،شُتر بے مار بننے کی بجائے ایک ذمہ دار شہری بننے اوراستحصالی نظام کے متبادل معاشی مساوات وبرابری پر مبنی نظام تشکیل دینے کی صلاحیت ہی مارکسی دانشوروں کی امتیازی خصوصیات ہیں جن سے بورژوا فلاسفرزعاری رہتے ہیں ۔ البتہ اپنے خطے میں تمام جدید افکار اور علوم کا معروضی حقائق کے مطابق تخلیقی اطلاق کیا جانا اشد ضروری ہے اور تخلیقی اطلاق اعلیٰ علمی بصیرت ، عقابی نگاہیں اور تخلیقی جوہر کاتقاضہ کرتا ہے۔
معاشی عدم مساوات ، سیاسی محکومیت ، ثقافتی یلغار ، دہشت ووحشت پرمبنی مذہبی ذہنیت اور دنیا کے مختلف حصوں میں تنازعے اور جنگیں اسی بات کاثبوت ہے کہ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام بنی نوع انسان کی آخری منزل نہیں ہے بلکہ آج بھی متبادل نظام کیلئے انقلابی تبدیلی کاعمل جاری ہے ۔ ترقی پسند نقطہ نظر کے مطابق اب بھی حرکت ہی وجود کی بنیادی جوہر ہے اور جدلیاتی مادیت بھی ہم سب کو پل پل رقم ہوتی ہوئی نئی تاریخ کا حصہ بننے اور نسل انسانی کومعاشی غلامی سے نجات دلانے، سماج میں طبقاتی ناہمواریوں کوہموار کرنے اور اس کے پائیدار ترقی کیلئے مشترکہ شعوری کاوشیں کرنے کا درس دیتی ہے ۔کامیابی اور سرخروئی کاراز طاقتور سے طاقت اورسرمایہ چھیننے اور زیردست طبقات کودینے میں پوشیدہ ہے ۔
حوالہ جات:۔
1۔ ڈاکٹر وزیر آغا ، جدیدیت کیا ہے؟،جنوری تامارچ2007ء، ادب معلیٰ سہ ماہی ، شمارہ 1
2۔ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔ عمران شاہد بھنڈر ، فلسفہ مابعد جدیدیت تنقیدی مطالعہ، صادق پبلیکیشنز لاہور2009،ص18
4۔ کارل مارکس/ فیڈر ک اینگلز ، مینی فیسٹو آف کیمونسٹ پارٹی ، 1848
2 Comments