آصف جاوید، ٹورونٹو
پاکستان کے بعد اب کینیڈا کو جہنّم بنانے کی تیّاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ انتہا پسند مسلمان جو تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں کے روپ میں کینیڈا آکر آباد ہوئے ہیں، اپنی چودہ سو سال پرانی بہیمانہ شریعت کے ساتھ کینیڈا میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اِس مقصد کے لئے انتہا پسند ذہنیت رکھنے والے شاطر مسلمانوں نےفلاحی تنظیموں، اور کمیونٹی لیڈروں کے روپ میں کینیڈا کے سیاسی نظام میں اپنی پناہ گاہیں قائم کر لی ہیں۔
یہ کمیونٹی لیڈرز عام انتخابات میں اپنی فلاحی تنظیموں، اور مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کے پلیٹ فارم سے مخصوص ذہنیت کے حامل مسلمان لیڈروں کی حمایت کرکے ان کو پہلے سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے اسمبلی ممبر کا الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ دلوانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، پھر باقاعدہ منظّم منصوبہ بندی اور باہمی تعاوّن سے ان کی کامیابی کو ممکن بناتے ہیں۔ جب یہ کمیونٹی لیڈر زانتخابات جیت کر اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر ان کے ذریعے اپنے درپردہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی نژاد نوجوان اور ذہین رکنِ اسمبلی محترمہ اقراء خالد نے پچھلے دونوں ایک تحریکِ استحقاق بنام “ایم 103 ” کینیڈین پارلیمنٹ میں ممبران کی توجّہ ، بحث اور رائے شماری کے لئے پیش کی۔۔ اگر پارلیمنٹ میں یہ تحریک بھاری اکثریت سے منظور ہوجاتی ہے، تو پارلیمنٹ کے پاس مناسب جواز ہوگا کہ پارلیمنٹ کینیڈا میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے جڑے مسائل سے نمٹنے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کرے۔ اور یہ تحریکِ استحقاق اگر باقاعدہ بِل کی شکل اختیار کر لیتی ہے، تو آگے چل کر کینیڈا میں اسلامو فوبیا کو ایک نفرت انگیز جرم قرار د یا جاسکتا ہے۔
اس تحریکِ استحقاق میں تین اہم نقاط پر قانون سازوں کی توجّہ دلائی گئی ہے۔ تحریکِ استحقاق کے پہلے نقطے کے مطابق “اسلامو فوبیا کی مذمّت ، منظّم اور بتدریج نسل پرستی کے خاتمے اور ، اور مذہبی تعصّب کی بیخ کنی کو یقینی بنانے والے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ دوسرے نقطے میں مسلمانوں کے خلاف مبنی بہ نفرت جرائم کی مکمّل چھان بین اور جرائم کے اعداد وشمار کی ریکارڈ سازی کے اقدامات کا مطالبہ ہے، جبکہ تیسرے نقطے میں متاثّرہ کمیونٹیوں کی ضروریات کا جائزہ لے کر مناسب اقدامات کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔
اِس تحریکِ استحقاق پر رواں ہفتے میں مجلسِ قانون ساز میں بحث اور رائے شماری متوقّع ہے۔ اگر یہ تحریک استحقاق بھاری اکثریت سے مجلسِ قانون ساز سے توجّہ حاصل کرنے کے لئے منظور ہوجاتی ہے، تو پھر اس بات کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں کہ آگے چل مجلسِ قانون ساز ، اِس تحریک میں توجّہ دلائے گئے مسائل کو حل کرنے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کر نے کے لئے اسے ایک بِل کی شکل دے سکتی ہے، جو کہ مروّجہ پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق ، پہلی دوسری اور تیسری خواندگی مکمّل ہونے، بحث مباحثے اور رائے شماری کے بعد مجلسِ قانون ساز اور ایوانِ بالا سے منظوری لینے کے بعد گورنر جنرل کے دستخط سے شاہی فرمان کے حصول کے بعد قانون کا درجہ حاصل کرسکتا ہے۔
اگر ممبر اسمبلی اقراء خالد کی تحریک استحقاق پہلے مرحلے میں توجّہ اور مومینٹم حاصل کرلیتی ہے تو پھر اینٹی اسلامو فوبیا بل کینیڈا میں مسلمانوں اور اسلام کے کے تحفّظ کے لئے قانون توہینِ مذہب (اسلامِک بلاسفیمی لاء ) کی شکل میں کینیڈا میں ظہور پذیر ہو جائے گا۔
اس قانون کے منظور ہونے کے بعد اسلام اور مسلمانوں سے جڑے کسی بھی مسئلے پر گفتگو اور کسی بھی قسم کی تنقید، قابلِ نفرت جرم تصوّر کی جائے گی، اور قابلِ سزا ہوگی۔ مسلمانوں کو آزادی حاصل ہوگی کہ وہ کینیڈا میں جو چاہیں کرتے پھریں، انہیں ہر طرح سے تحفّظ حاصل ہو گا، مسلمانوں کی حرکتوں ،انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف بات کرنے والے ، اور تنقید کرنے والے قانون کی نظر میں مجرم ٹھہرائے جائیں گے۔
اگر یہ تحریکِ استحقاق آگے چل کر کسی بھی مرحلے پر قانون کی شکل اختیار کرلیتی ہے، تو مسلمانوں کے شدّت پسند رویّے پر کوئی بھی کینیڈین اظہارِ خیال یا تنقید کی جراءت نہیں کر سکےگا ، اور اگر ایسا قانون بن گیا تو یہ کینیڈا کے آئین ، قوانین اور چارٹرڈ آف فریڈم اینڈ رائٹس کی کھلی خلاف ورزی ہوگا۔
لبرل ممبر پارلیمنٹ اقراء خالد کی جانب سے پیش کی جانے والی یہ تحریک ، آگے چل کر کینیڈا میں قانون توہینِ مذہب (اسلامِک بلاسفیمی لاء) کے نفاذ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ جو مزید آگے جاکر مسلم پرسنل لاء اور مسلمانوں کے لئے شرعی قوانین کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
اِس تحریک استحقاق کے حامی اس تحریک کے مضمرات کو جھٹلانے کی شعوری کوششیں اپنی پوری شدّت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ اس تحریک استحقاق کی پارلیمنٹ سے رائے شماری کے ذریعے تصدیق و حمایت میں ہی ان کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کا راز پوشیدہ ہے۔
عربی کہاوت کے مطابق اونٹ خیمے میں پورا کا پورا داخل ہونے کے لئے پہلے خیمے میں اپنا سر داخل کرنے کی اجازت مانگنا چاہ رہا ہے، بس ایک دفعہ اِس اونٹ کو خیمے میں سر داخل کرنے کی اجازت ملنے کی دیر ہے، آپ دیکھئے گا کہ پورا کا پورا اونٹ کیسے رازداری اور خاموشی کے ساتھ خیمے میں داخل ہوتا ہے۔
لہذا ضروری ہے کہ اونٹ کے سر کو خیمے میں داخلے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے۔ ویسے بھی اونٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ اونٹ بہت کینہ پرور ہوتا ہے۔ وما علینا الالبلاغ
♣
One Comment