محمد شعیب عادل
نامور مورخ اور مصنفہ عائشہ جلال نے کہا ہے کہ جب تک انڈیا میں مودی سرکار ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بریک تھرو مشکل ہے۔ بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امید تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ ملتا وہ ہو نہیں پایا۔دونوں ممالک میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو تعلقات کو نارمل ہونا نہیں دے رہے۔میں تو کافی ناامید ہوں جب تک مودی سرکار رہتی ہے پاکستان اور انڈیا میں کوئی بریک تھرو ہونا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے سابقہ وزرائے اعظم کا پاکستان سے کچھ نہ کچھ رشتہ تھا چاہے وہ گجرال ہوں یا من موہن سنگھ حتیٰ کہ واجپائی کا بھی رشتہ تھا اس لیے یہ سب پاکستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے جبکہ موجودہ وزیر اعظم مودی کا پاکستان سے کوئی رشتہ نہیں اور وہ پاکستان کو غیر اہم قوم تصور کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو نظر انداز کرکے وہ آگے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کی دلچسپی بھارت میں ہے پاکستان میں نہیں۔
عائشہ جلال امریکہ میں مقیم ایک نامور مورخ ہیں انہوں نے پاکستا ن کی سیاسی ، معاشی تاریخ اور تقسیم ہند کے موضوع پر آٹھ سے زائد کتب لکھی ہیں ۔ آج کل پاکستان کے دورے پر ہیں اور کراچی لٹریری فیسٹول میں انہوں نے اپنے خیالات سے عوام کو مستفید کیا ۔ لیکن موجودہ پاک بھارت تعلقات کے متعلق جو کچھ وہ فرما رہی ہیں حالات و واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے شاید وہ مقتدر اداروں سے کوئی مخاصمت نہیں چاہتیں۔ جب مورخ حالات سے سمجھوتہ کرنا شروع کردے تو پھر اس کی تحقیق پر بھی تحفظات پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہندوستان کے سابق وزرائے اعظم پاکستان سے دوستانہ تعلقات چاہتے تھے ۔ لیکن یہ کہنا کہ مودی ایسا نہیں چاہتے، حالات و واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ عائشہ جلال کی خدمت میں عرض ہے کہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نرنیدر مودی نے انتخابات میں کامیابی کے بعد مئی 2014 میں اپنی تقریب حلف برداری میں نوازشریف کو بطور خاص بلایا تھا ۔ اور نواز شریف پاکستان کے سرکاری دانشوروں اور اینکروں کی طرف سے مخالفانہ اور طنزیہ تبصروں کے باوجود اس تقریب میں شریک ہوئے تھے اور پاک انڈیا تعلقات میں اسے ایک بریک تھرو سمجھا جارہا تھا۔
لیکن اس خطے کے عوام بالخصوص پاکستانی عوام کے ساتھ ہمیشہ دھوکہ ہوتا آیاہے جب بھی پاکستانی حکمران ،چاہے وہ بے نظیر بھٹو ہوں یا نوازشریف یا آصف زرداری، بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں سرگرمی دکھا نے لگتی ہیں تو پاکستانی جنگجو ایسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کچھ نہ کچھ ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں کہ سویلین حکمرانوں کی ایسی تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ پاکستان کی جمہوری قیادت کی طرف سے بھارت دوستی کی کسی بھی تحریک کو جنگجو ایسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جہادی تنظیمیں سبوتارژ کردیتی ہیں اور پھر لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ شرو ع ہو جاتی ہے۔
یادرہے کہ وزیر اعظم مودی نے حلف اٹھانے کے بعد پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا جس کا جواب لائن آف کنٹرول پر بمباری کر کے دیا گیاتھا۔ جس پر مودی نے کہا تھا کہ ہم پاکستان سے دوستی کے خواہش مند ہیں لیکن اگر پاکستان کی طرف سے ایک گولہ فائر ہوتا ہے تو جواباً دس گولے برسائے جائیں۔ عائشہ جلال کو یاد ہوگا کہ کارگل پر حملہ ہو یا انڈین پارلیمنٹ پر، ممبئی حملے ہوں یا پٹھان کوٹ پر حملہ یا حالیہ اڑی سیکٹر پر حملہ، پاکستانی جنگجوؤں کی یہ تمام کاروائیاں ، سویلین حکومت کی کوششوں کو سبوتارژ کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔
عائشہ جلال کو یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ وزیر اعظم مودی نے ایک سے زائد دفعہ انتہائی سنجیدگی سے کوشش کی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں اضافہ ہو۔ اس کے لیے ان کا پاکستان سے رشتہ ہوناضروری نہیں۔ آخری دفعہ، 25 دسمبر 2015 کو تو وہ خود تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے نواز شریف کو ان کی سالگرہ پر مبارک باد دینے لاہور آئے تھے جس پر حسب معمول ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے مودی کی حرکت پر ناک بھوں چڑھائی تھی ا ور پھر چند دنوں بعد دو جنوری 2016 کو جیش محمد نے پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملہ کردیا۔
وزیر اعظم مودی کو پاکستانی وزیراعظم سے آؤٹ آف دی وے جا کر ملنے سے ہندوستانی میڈیا نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ انڈین میڈیا کا کہناتھا کہ پاکستان کبھی بھی بھارت سے تعلقات میں سنجیدہ نہیں ہوتا تولہذا مودی کو ان کے پیچھے پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی کاروائیوں کے بعد بھی مودی سرکار کو یہ طعنہ دیا جائے کہ چونکہ ان کا پاکستان سے کوئی رشتہ نہیں اس لیے وہ پاکستان کو نظر انداز کرکے اپنی ترقی کرناچاہتے ہیں ایک انتہائی بچگانہ بات ہے جس کی کم ازکم عائشہ جلال سے توقع نہیں کی جاسکتی۔
پاک بھارت دوستانہ تعلقات پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کی بھی ضرورت ہیں ۔ بھارتی حکمرانوں نے پوری کوشش کی پاکستانی ریاست بھارت کو واہگہ کے ذریعے افغانستان اپنا مال بھیجنے دے لیکن پاکستانی ریاست سے مسئلہ کشمیر کی آڑ لے کر ہمیشہ ایسے کسی کوشش کو ہمیشہ ناکام بنایا ۔پھر یہ کہنا کہ امریکہ کی دلچسپی پاکستا ن میں نہیں بھارت میں ہے کیونکہ وہ اس سے کاروبار کرنا چاہتا ہے ، بھی عوام کو گمراہ کرنے یا پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ پاکستان طالبان کی مدد سے باز آجائے اور اس خطے میں بھارت اور افغانستان کے ساتھ دوطرفہ دوستانہ و تجارتی تعلقات قائم کرے۔ امریکہ بارہا پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت سے باز آجائے لیکن پاکستان ہر دفعہ کوئی نہ کوئی چکر دے کر طالبان اور جہادیوں کی حمایت سے باز نہ آیا اور یہ صورتحال ابھی تک جوں کی توں ہے۔ پاکستان کے حمایت یافتہ جہادی عناصر اس خطے میں مسلسل بدامنی پیدا کیے ہوئے ہیں۔اگر امریکہ ڈورن حملے نہ کرتا تو اس وقت تک طالبان اس خطے میں بہت زیادہ تباہی پھیلا چکے ہوتے۔
عائشہ جلال کو شاید یاد ہو کہ جولائی 2010میں واشنگٹن میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ایم او یو سائن ہواتھا جس کے تحت افغانستان کو واہگہ کے ذریعے بھارت سے تجارت کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن پاکستانی ریاست نے اس پر آج تک عمل نہیں ہونے دیا۔
افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہل بروک نے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لیے پوری توانائیاں صرف کردیں ۔ مرنے سے پہلے جب وہ امریکہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے تو مرنے سے پہلے انہوں نے اپنے ڈاکٹر (جو کہ پاکستانی تھا) سے کہا کہ’’ اپنے ملک کو سمجھاؤ وہ دہشت گردی سے باز آجائے‘‘۔اب اگر امریکہ یا دوسرے ممالک پاکستان کو تنہا چھوڑ کر بھارت اور افغانستان اور ایران سے تعلق قائم کرتے ہیں تو پھر انہیں قصور وار ٹھہرانا دانشورانہ بددیانتی ہے۔
پاکستان آج جس تنہائی کا شکار ہے اس میں پاکستان کی اپنی پالیسیوں کا دخل ہے کسی اور کو دوش دینا درست نہیں۔
♣
4 Comments