مجھے 3 فن کاروں کی کم عمری میں موت کا بہت دکھ رہا ہے۔
ان میں سے 2 کی موت میری پیدائش سے بھی پہلے ہوئی لیکن آج بھی ان کے خیال پر دل لہو سے بھر جاتا ہے۔یہ تین تھے ماسٹر مدن ، امریتا شیر گل اور نسیم بیگم۔جس طرح نسیم بیگم کی موت پر نور جہاں کی طرف انگلیاں اٹھی تھیں ، اسی طرح 14 سالہ ماسٹر مدن کی موت پر بھی کہا گیا تھا کہ کے۔ ایل سہگل نے اس کی مقبولیت سے گھبرا کر پارہ یا زہر دلوایا ہے۔
ماسٹر مدن 28 دسمبر 1927 کو پیدا ہوئے اور 5 جون 1942 تک جی پائے۔ ان کے یہ گیت ریکارڈ ہوسکے
یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائے– غزل
حیرت سے تک رہا ہے– غزل
گوری گوری بئییاں– بھجن
موری بنتی مانو کانھا رے– بھجن
من کی من– غزل
چیتنا ہے تو چیت لے– بھجن
باغاں وچ..- پنجابی گیت
راوی دے پرلے کنڈھے وے مترا– پنجابی گیت
بی بی سی کی ایک رپورٹ…
بچپن میں آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کے مختلف سٹیشنوں سے ایک سُریلی اور مدھر نسوانی آواز میں ساغر نظامی کی دو غزلیں اکثر سننے کو ملتی تھیں، لیکن اناؤنسر جب گلوکارہ کا نام لیتا تو ہمیں خاصی حیرت ہوتی اور ہم سوچتے کہ کسی عورت کا نام ماسٹر مدن کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ عُقدہ تو کچھہ عرصے بعد کھُل گیا کہ یہ آواز ایک دس سالہ بچے کی تھی لیکن یہ راز پھر بھی سربستہ ہی رہا کہ صرف دو غزلیں گا کر یہ بچّہ کہاں غائب ہو گیا۔
ہائی سکول اور کالج کے زمانے میں کچھ دانائے راز کلاس فیلوز نے سرگوشی میں بتایا کہ اس بچّے کی بے پناہ شہرت سے گھبرا کر اسے ایک ہم عصر حاسد نے زہر دے دیا تھا۔ افوّاہ کو حقیقت کا رنگ دینے کےلئے ایک ایسے سِنگر کا نام لیا گیا جو سن تیس اور چالیس کے عشروں میں واقعی گیت اور غزل کی گائیکی کا بادشاہ تھا۔۔۔ یعنی کندن لال سہگل۔
کلکتے اور بمبئی کے اونچی سوسائٹی میں عزت، شہرت اور دولت سے مالا مال زندگی بسر کرنے والے سہگل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ شملہ کے پہاڑی شہر میں اچانک موت سے ہم کنار ہونے والے کم سن گلوکار کی موت کو اسکے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ بہر حال یہ الزام ایک افواہ کی سطح سے بلند کبھی نہ ہوسکا اور سنجیدہ حلقوں میں اس پر کبھی گفتگو نہ ہوئی۔
سن 1980 کی دہائی میں جب راقم کو لندن میں سینئر براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کے ساتھہ کام کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے یہ حیرت افزاء اور مسرت انگیز خبر سنائی کہ ماسٹر مدن نے دو غزلوں کے علاوہ بھی کئی چیزیں ریکارڈ کرائی تھیں جن میں سے کم از کم تین تک ان کی رسائی ہو گئی ہے یعنی ایک غزل اور دو پنجابی گیت اور پھر اگلی بار وہ انڈیا گئے تو اِن تینوں گیتوں کی ریکارڈنگ لے کر آئےجسے راقم نے ایک عظیم اور نایاب تحفے کے طور پر قبول کیا۔ پنجابی گانوں میں ایک کے بول تھے:۔
’راوی دی پرلے کنڈے وے مترا‘‘
اور دوسرا گیت تھا: ’باگاں وِچ پینگاں پیاں‘
وقت گزرنے کے ساتھہ ساتھہ ماسٹر مدن کے بارے میں نئی معلومات منظرِ عام پر آتی رہی ہیں۔ لاہور کے ظہور چوہدری ایم اے ایل ایل بی نے، جو موسیقی کے رسیا ہی نہیں محقق بھی ہیں، ماسٹر مدن کے کُل دس ریکارڈ شدہ گانوں کی کھوج لگائی ہے۔ جن میں پانچ معروف گیتوں کے علاوہ درج ذیل آئٹم شامل ہیں۔
جس راز کو دنیا نے ۔۔۔ (غزل)۔
آنے لگا ہے کوئی ۔۔۔ (غزل)۔
گوری گوری بیّاں ۔۔۔ (راگ لچھا ساکھہ)۔
موری بینتی مانو ۔۔۔ (راگ کھماج)۔
من کی بات من ہی میں ۔۔۔ (راگ سورتھہ)۔
لیکن قبولِ عام کا درجہ محض ساغر نظامی کی دو غزلوں ہی کو کیوں ملا؟ اسکا جواب ظہور چوہدری یہ دیتے ہیں کہ ماسٹر مدن نے متکلم فلموں کے رواج سے پہلے گانا شروع کیا تھا اور گراموفون کمپنی نے جو ریکارڈ جاری کیا اسکے دونوں جانب ایک ایک غزل تھی۔ یہ ریکارڈ دھڑا دھڑ بِکا لیکن اسی دوران بولتی فلموں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور مارکیٹ میں فلمی نغموں کی بھرمار ہوگئی۔ گراموفون کمپنی بھی فلمی گیتوں کی طرف متوجہ ہوگئی کیونکہ غیر فلمی گیتوں کی مارکیٹ بہت محدود ہوگئی تھی۔
یہ صورت حال ماسٹر مدن کے مداحوں کےلئے بہت پریشان کن تھی۔ چنانچہ ننھے گلوکار کے شیدائیوں نے اپنے ذاتی سرمائے سے ماسٹر مدن کے کچھہ گیت ریکارڈ کروائے اور اپنے ذاتی ذخیرے میں محفوظ کر لئے۔ چونکہ اِن ریکارڈوں کی کمرشل ریلیز کبھی نہ ہوئی تھی اس لئے تیس چالیس برس تک لوگوں کو ان کی موجودگی کا علم ہی نہیں تھا۔
جنوری 2002 میں جب ماسٹر مدن کی نو دریافت غزلیں امریکہ پہنچیں تو معروف صحافی اور کالم نگار خالد حسن نے اِن کی ریکارڈنگ لاہور کے ماہرِ موسیقی سعید ملک کو روانہ کی اور پوچھا کہ کیا یہ واقعی ماسٹر مدن کی آواز ہے؟ سعید ملک اس ریکارڈنگ کو مزید تحقیق کےلئے ریڈیو پاکستان کے ریسرچ سیل میں لےگئے اور وہاں چند ماہرین کی موجودگی میں اسے سُنا گیا۔
سعید ملک نے خالد حسن کے نام اپنے خط میں لکھا۔۔۔ ٰ ٰ پانچ جنوری (2002) کو ریڈیو پاکستان لاہور میں اِن گیتوں کو کئی افراد نے اجتماعی طور پر سُنا، اِن میں سے دو پنجابی گیت پہلے ہی ریسرچ سیل کے ذخیرے میں موجود تھے۔ دیگر چار گیتوں کو یہ متعین کرنے کےلئے بار بار سُنا گیا کہ آیا یہ واقعی ماسٹر مدن کی آواز ہے۔۔۔ اور پھر سب سامعین نے اسے ماسٹر مدن ہی کی آواز قرار دیا۔ میرے علاوہ جن لوگوں نے اپنی رائے دی اُن میں میوزک ریسرچ سیل کے سربراہ اُستاد بدرالزماں، استاد غلام حیدر خان اور ساؤنڈ انجنئر سعید قریشی شامل تھے، جوکہ پچیس برس سے اس ریسرچ سیل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن کی سماعت، آوازوں کے لطیف ترین فرق کو بھی محسوس کرلیتی ہےٰ ٰ۔ (خالد حسن کا خط بنام روزنامہ ڈان مورخہ گیارہ جنوری 2002 )۔
اس تحقیق کو اب کئی برس گزر چُکے ہیں۔ اِن برسوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کہیں سے کہیں پہنچ چُکی ہے۔ آج ڈجیٹل تکنیک کی بدولت 78 آر پی ایم کے پرانے ریکارڈوں کو نئے اور آسان فارمیٹ میں محفوظ کرنا ممکن ہو چُکا ہے اور یو ٹیوب جیسی ویب سائٹس دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ماسٹر مدن کے مداحوں کو گھر بیٹھے اُن کی آواز پہنچا رہی ہیں۔
خوش قسمت ہے نئی نسل جو اپنے گھریلو کمپیوٹر کا ایک بٹن دبا کر دنیا کے نایاب ترین آواز خزانوں تک پہنچ جاتی ہے۔
بشکریہ: اسلم ملک
One Comment