یہ وہ سوال ہے جو میں گذشتہ ایک ہفتے سے متواتر کینیڈا میں موجود اہلِ علم و دانش سے پوچھ رہا ہوں۔
پندرہ فروری، 2017 کو ہاؤس آف کامنز (کینیڈین پارلیمنٹ) میں بر سرِ اقتدار لبرل پارٹی آف کینیڈا کی نوجوان مسلم ممبر پارلیمنٹ، محترمہ اقراء خالد کی ایک تحریک استحقاق جس کو موشن نمبر 103 کا نام دیا گیا ہے، پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ و رائے شماری کے لئے پیش کی گئی ہے۔ یہ تحریک اقراء خالد نے پچھلے سال دسمبر کے پہلے ہفتے میں جمع کرائی تھی، جس پر بحث کا آغاز اب ہوا ہے۔
اس تحریک کے پیش کئے جانے کے بعد، پورے کینیڈا میں ایک بھونچال آگیا ہے، اس تحریک کی حمایت اور مخالفت ، دونوں ہی نہایت شدّت کے ساتھ کی جارہی ہیں۔ تحریک کے حامیوں میں زیادہ تر بنیاد پرست مسلمان اور لبرل پارٹی آف کینیڈا کے سپورٹرز اور ہمدرد کمیونٹی لیڈرز ہیں۔ جبکہ تحریک کی مخالفت میں زیادہ تر روشن خیال ترقّی پسند مسلمان، مین سٹیم ملٹی کلچرل آرگنائزیشنز، اور انتہا پسندی کی مخالف اور آزادی اظہار کی حمایتی تنظیمیں اور کمیونٹی لیڈرز اور لبرل پارٹی کے مخالف نظریات کے حامی اور غیر مسلم کینیڈین کی اکثریت شامل ہے۔
اقراء خالد کی تحریک ، کینیڈا میں اسلاموفوبیا کی مذمّت، سماج /نظام میں موجود ہمہ اقسام کی نسل پرستی، اور مذہبی تعصّب کی بیخ کنی سے متعلّق ہے۔ اس تحریک کے مخالفین ، معترضین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک جس کی حمایت کے لئے پہلے ہی 70ہزار دستخط آن لائن پیٹیشن کے ذریعے لے لئے گئے ہیں، اگر بھاری اکثریت سے مجلسِ قانون ساز سے حمایت حاصل کرکے منظور ہوجاتی ہے، تو پھر اس بات کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں کہ آگے چل مجلسِ قانون ساز ، اِس تحریک میں توجّہ دلائے گئے مسائل کو حل کرنے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کر نے کے لئے اینٹی اسلاموفوبیا قانون کی تشکیل کے لئے اسے ایک بِل کی شکل دے سکتی ہے۔ جو پارلیمنٹ اور سینیٹ سے منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
اگر اینٹی اسلاموفوبیا قانون ظہور میں آجائے گا تو کینیڈا میں اسلام اور مسلمانوں سے جڑے کسی بھی معاملے یا اسلامی انتہا پسندی سے جڑے کسی بھی واقعہ پر کسی بھی قسم کی گفتگو یا ریمارکس، قابلِ نفرت جرم قرار پاجائیں گے اور اس طرح چارٹرڈ آف رائٹس اینڈ فریڈم میں د یا گیااظہارِ رائے کی آزادی کا حق ساقط ہوجائے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کو کھلی آزادی اور امیونٹی حاصل ہوجائے گی، مسلمان قانون سے بالاتر ہوجائیں گے۔
اکثریت کی رائے ہے کہ جس اسلاموفوبیا کا خوف دلایا جارہا ہے، اس کا کینیڈین معاشرے میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ کینیڈا ایک کثیر الثقافت اور کثیر العقائد معاشرہ ہے ، جس میں دنیا کے 193 ممالک کے تارکین وطن ، 40 اور سے زیادہ مذاہب کے پیروکار تمام تر نسلی و ثقافتی تنوّع کے ساتھ باہم شیرو شکر ہو کر رہتے ہیں۔ معاشرتی تنوّع ،کینیڈا کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس ہے۔
کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز ایک عظیم فلسفہ ِ اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔
اِس عظیم ملک کے تمام باشندے بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت مساوی شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہی کینیڈا کے آئین کے نفسِ ناطقہ یعنی پلورل ازم (اجتماعیت ) کی اصل روح ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کے فوبیا ، امتیاز اور تعصّب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لہذا اسلاموفوبیا نامی بیماری کا بھی کینیڈین معاشرے میں کوئی وجود نہیں ہے۔
البتّہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی، مذہبی جنونیت، اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے ، جس طرح پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں، اس ہی طرح ، کینیڈا کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ خود اسلامی ممالک بھی اِس انتہا پسندی کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے مقاماتِ مقدّسہ مکّہ اور مدینہ بھی ان دہشت گردوں سے نہیں بچ سکے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کی آگ نے اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
کینیڈا تو ایک لبرل، سیکولر ملک ہے۔ جو اپنے آئین و قانون میں دی جانے والی رعائتوں کے سبب آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے۔ انتہا پسند خیالات اور انتہا پسندی کے پیروکاروں کی کینیڈا میں کوئی کمی نہیں ہے۔ کینیڈا کے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں میں مذہبی انتہاپسندوں نے کمیونٹی لیڈروں کے روپ میں اپنی پناہ گاہیں قائم کرلی ہے۔ اسلامو فوبیا ، انہی مذہبی انتہا پسند مسلمانوں کے ذہنوں کی اختراع ہے۔ اسلامو فوبیا کا خوف دلا کر یہ مذہبی انتہا پسند ، کینیڈا کے آئین و قانون سے مزید رعائتوں کے طلبگار ہیں۔
مذہبِ اسلام کو کینیڈا سے کوئی خطرہ نہیں، مگر کینیڈا کو انتہا پسند مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی جنونیت سے لازمی خطرہ ہے۔ فوبیا تو ایک نفسیاتی بیماری ہے ، جیسے مایوسی، افسردگی، پژمردگی وغیرہ وغیرہ۔ فوبیا جس کی لاتعداد اقسام ہیں، جیسے ہائیڈرو فوبیا، ہوموفوبیا، ایکرو فوبیا، گائنو فوبیا، سائنوفوبیا وغیرہ وغیرہ۔ اگر اسلاموفوبیا نامی بیماری کے خلاف قانون سازی کرنا لازم ہے، تو کیا دنیا میں موجود ہر نفسیاتی بیماری کے خلاف قوانین بنائے جائیں گے ؟
ظاہر ہے ایسا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اینٹی اسلامو فوبیا قانون کا مطالبہ غیر منطقی اور غیر ضروری ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی قانون منظور ہوجاتا ہے تو یہ امتیازی قانون ہوگا۔ جس سے کینیڈا میں بسنے والے تمام غیر مسلموں کو احساسِ محرومی ہوگا، کیونکہ اسلاموفوبیا قانون کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کو امیونٹی اور فوقیت حاصل ہوجائے گی۔
کینیڈا میں موجود اہلِ علم و دانش سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا کینیڈا کے مسلمانوں کو اسلامو فوبیا سے کوئی خطرہ ہے، تو اکثریت میں اہلِ علم و دانش نے کینیڈا میں اسلاموفوبیا نامی بیماری کے وجود سے یکسر انکار کیا۔ اہلِ علم و دانش کا کہنا تھا کہ کینیڈا میں اسلامو فوبیا کا کوئی وجود نہیں ہے، اور اکثریت نے اس تجویز یا تحریک کی مذمّت کی۔ اہلِ علم کا کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی خدشہ پر یقین کرلینے سے مسلمانوں کو آگے چل کر مسائل کا سامنا کرنا پڑجائے گا۔ مسلمان کینیڈا میں جزائر بنا کر نہیں رہ سکتے، مسلمانوں کو مین اسٹریم ثقافت کے ساتھ جڑ کر رہنا ہوگا۔ بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے اسلاموفوبیا کے خلاف قانون نہیں بلکہ ثقافتی پل بنا کر معاشرتی روابط کو بڑھانے اور معاشرے میں ضم ہونے کی ضرورت ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کی کوئی جسامت یا شکل نہیں ہوتی۔ مذہبی انتہا پسندی ، انسانی دماغوں میں پنپتی ہوتی ہے، اور پھر جب یہ حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ عملی دہشت گردی کی شکل میں معاشرے میں تباہ کاریاں پھیلاتی ہے۔ یہ بات نادان لیڈروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کہ وہ ایسے اقدامات نہ اٹھائیں جس سے پر سکون کینیڈین معاشرہ انتشار اور بدنظمی کا شکار ہو۔ اہلِ علم و دانش کی اکثریت کینیڈا میں اسلاموفوبیا کے وجود سے انکار اور لبرل رکن اسمبلی اقراء خالد کی پیش کردہ تحریک ایم-103 کو یکسر مسترد کرتی ہے۔
♦
One Comment