ایمل خٹک
پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر اور پاک افغان تعلقات میں تلخی اور کشیدگی کے مزید بڑھنے سے خطے میں عسکریت پسندی کے خلاف مشترکہ اور بھرپور کوششوں کی ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے۔ دونوں ممالک کے اعلی سیاسی اور فوجی حکام کے رابطوں اور درپردہ جاری سفارتی سرگرمیوں کے نتیجے میں تلخی کو بڑھنے سے روکنے اور دونوں ممالک کے درمیان اعلی سطحی ملاقاتوں کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ تاکہ دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے مشترکہ اور مربوط کوششیں کی جائیں۔ عسکریت پسندی سے نمٹنے کیلئے فریقین نے مطلوب افراد کی فہرستوں کا تبادلہ بھی کیا ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ یہ ملاقاتیں دوبارہ ماضی کی طرح بے معنی مذاکرات ثابت ہونگے یا کچھ نتیجہ خیز ٹہوس اقدامات بھی اٹھائے جائینگے۔
پر امید باتوں کے علاوہ کچھ تشویشناک باتیں بھی ہو رہی ہے ۔ پاک افغان سرحد پر دونوں طرف سے ہائی الرٹ اور مزید فوجی دستوں کی تعیناتی کی خبریں بھی آرہی ہے ۔ کشیدگی اور تناؤ کی فضا میں اور سرحدوں پر فوجوں کے اجتماع کے دوران کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ، معمولی غلطی یا چنگاری جنگ کی آگ کو بھڑکا سکتی ہے۔ ادھر انڈیا نے پاک افغان کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کیلئے وزیراعظم نریندرا مودی نے بیان داغ دیا ہے کہ افغانستان پر کسی بھی ملک کی جانب سے حملہ انڈیا پر حملہ تصور کیا جائیگا ۔ اور انڈیا افغان عوام کے تحفظ اور سلامتی کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائیگا ۔
افغان مسئلے کی نوعیت اور فوری حل کی خواہش کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ تین ماہ میں افغانستان کے حوالے سے کئی اہم علاقائی کانفرنسیں ہوئی۔ پچھلے سال دسمبر میں امرتسر میں ھارٹ آف ایشیا کانفرنس کے اعلامیے اور امسال 15 فروری کو ماسکو میں چھ فریقی کانفرنس نے خطے میں انسداد دہشت گردی کیلئے علاقائی سطع پر مربوط اور سنجیدہ کوششوں پر زور دیا ہے ۔ کئی حوالوں سے ماسکو کانفرنس کی کاروائی اور فیصلے پاکستانی پالیسی سازوں کیلئے امرتسر کانفرنس کے اعلامیےکی طرح کچھ کم پریشان کن نہیں ۔
پاکستانی پالیسی سازوں کی فرسٹریشن دیکھنے کےقابل ہے ۔ افغان طالبان کے بارے میں پاکستانی موقف اور روس یا حتی کہ چین کے موقف میں کافی فرق ہے۔ روس اور چین طالبان کو قومی مصالحتی عمل کے نتیجے میں افغان حکومت کا حصہ بنانے کیلئے تو شاید تیار ہو مگر طالبان کی دوبارہ عملداری کے مخالف ہیں۔ حزب اسلامی کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں کس کا کردار تھا لیکن اس سہولت کاری کو سراہنا یا کریڈٹ دینا تو دور کی بات اس کا کہیں ذکر بھی نہیں ہو رہا ہے۔ دوسری طرف اب حزب اسلامی ماڈل کی طرز کی دیگر افغان حکومت مخالف گروپوں سے قومی مفاہمت کی بات ہو رہی ہے ۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دیگر حکومت مخالف گروپوں کو بھی حزب کی طرح تشدد کو ترک ، بعض عالمی دہشت پسند گروپوں سے ناطہ توڑنا اور افغان آئین اور قانون کو تسلیم کرنا ہوگا ۔
ماضی کے تجربے اور بین الاقوامی رائے عامہ کو دیکھ کر پاکستان کو دوبارہ طالبان گھوڑے پر شرط لگانا یا اس پر جوا کھیلنا بہت مشکل پڑے گا ۔ علاقے میں سرگرم عمل عسکریت پسندوں سے تعلق خاص کر افغان طالبان ، جیش محمد اور جماعت الدعوہ کی حمایت جاری رکھنا پاکستان کیلئے ایک سٹرٹیجک بوجھ ( لائبلیٹی) بن گیا ہے۔ پالیسی سازوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ پاکستان کی مشکلات اور مسائل کی ایک وجہ عسکریت پسندوں کی حمایت یا اچھے اور برے طالبان میں تمیز کی پالیسی بھی ہے۔ سویلین میں تو یہ احساس پہلے سے موجود ہے جس کا وقتا فوقتا اظہار بھی دیکھنے کو ملتا ہے مگر فوجی قیادت میں اگرچہ اب بھی پرانے مائینڈ سیٹ کا غلبہ ہے مگر ایسے اشارے بھی ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ بدل رہا ہے ۔ اب لگتا ہے کہ پالیسی اور ٹیکٹیکل لیول پر پہلی جیسی ہم آہنگی نہیں رہی ۔
سویلین اور فوجی تعلقات کے حوالے سے جاری مباحث اور بعض افسران کی کردار کشی کی مہم داخلی اختلاف نظر کا شاخسانہ لگتا ہے۔ نئی اور پرانی سوچ میں کشمکش تو ہرادارے میں جاری رہتی ہے ۔ اور نئی سوچ کی ہمیشہ مزاحمت ہوتی ہے۔ پُل کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ آرمی چیف کی جانب سے سٹیو والکنسن کی کتاب آرمی اینڈ نیشن جو آنڈین سول اور ملٹری ریلشنز ماڈل پر ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ انڈین سیاستدانوں نے کیسے فوج کو سیاست سے دور رکھا۔ جمہوری اداروں اور کلچر کو پروان چڑھایا اور ملک کو ترقی سے ہمکنار کیا کو افسران کو مطالعہ کرنے کیلئے تجویز کرنا تلخ حقائق کے احساس کے ساتھ ساتھ دبے الفاظ میں اصلاح احوال کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔
سی پیک اور علاقائی کشیدگی اور تناؤ کئ فضا ایک ساتھ چل نہیں سکتے ۔ چین سی پیک کی کامیابی کیلئے دو سطحوں پر کام کرئیگا یا کرنے پر مجبور ہوگا ۔ چین کو ایک تو علاقائی کشیدگی اور تناؤ کو کم کرنے کیلئے کوشش کرنی ہوگی ۔ جس میں افغان مسئلے کے پرامن حل کے ساتھ پاک انڈیا تعلقات کو معمول پر لانا اور اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان کے اندر پنجاب کے علاوہ دیگر قومیتوں کی تحفظات اور خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرنا شامل ہے۔
چین اپنے روایتی خاموش تماشائی کے کردار سے آہستہ آہستہ علاقائی اور عالمی کھلاڑی کی کردار میں سامنے آرہا ہے اور عالمی امور میں فعال حصہ لینے کی کوشش کررہا ہے ۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا گرینڈ اقتصادی اور تجارتی منصوبہ جو ایشیا اور امریکہ کے تقریباً 60 ممالک پر محیط ہوگا جو علاقائی ممالک کو مختلف آبی اور زمینی راھداریوں کی ترقی اور تعمیر کے ذریعے آپس میں جوڑنے اور منڈیوں تک رسائی کا منصوبہ ہے ۔ اس منصوبے کی وجہ سے چین اب علاقائی اور عالمی تنازعات میں فعال کردار کرنے پر مجبور ہوگا۔
حقیقت میں اب علاقے کی سیاست چین کا ذکر کئے بغیر نامکمل ہوگی ۔ خاص کر پاکستان کے حوالے سے چین کا کردار بہت اہم ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی پالیسی سازی پر چین کے اثر و نفوذ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ کی نسبت چین خاموشی سے بغیر شور شرابے کے اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔ البتہ امریکیوں کی طرح سیدھی اور الٹی دونوں طرح انگلیوں سے گھی نکالنے کی کوشش کرتا ہے ۔
علاقے میں دہشت گردی کے حوالے سے اب علاقائی اور عالمی سطع پر اتفاق رائے وجود میں آچکا ہے ۔ چاہے جیش محمد ہو یا لشکر طیبہ یا افغان طالبان اس حوالے سے پاکستان کی طرف شک کی انگلیاں اٹھ رہی ہے ۔ پاکستان کی انسداد دہشت گردی مہم کے حوالے سے دنیا میں متضاد خیالات موجود ہیں ۔ مگر زیادہ تر علاقائی اور عالمی قوتیں اس کو ناکافی سمجھتے ہوئے سب ڈو مور یاہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
پاک افغان تعلقات کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ریاستی بیانیوں کے مطابق طالبان دور سے پہلے ساری افغان حکومتیں پاکستان دشمن حکومتیں تھی تو اس اس کے بعد ماسوائے طالبان کے حکومت کے جس پر تفصیل سے کسی اور وقت بات کرنے کی ضرورت ہے باقی تمام حکومتوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کیوں خراب رہے ۔ سابق افغان صدر پروفیسر برھان الدین ربانی سے بات شروع ہوتی ہے جس کو پاکستان ہی نے منصب صدارت پر بیٹھایا تھا سے اس وقت تعلقات خراب ہونا شروع ہوگے جب افغان حکومت نے انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کئے۔
انڈیا سے تعلق تب سے لے کر آج تک پاک افغان تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اور تمام افغان صدور کو اس وجہ سے بے وفائی اور احسان فراموشی کے طعنے ملتے ہیں۔ بنیادی مشکل یہ ہے کہ اگر افغانستان ایک آزاد اور الگ ملک کی حیثیت سے علاقے میں خصوصا انڈیا سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر پاکستان خفا ہوجاتا ہے۔ افغان انڈیا نارمل تعلقات پر غیر ضروری ناراضگی سے اور افغان حکومتوں کو کمزور کرنے کی پالیسی کے نتیجے میں ہم نے افغانستان کو انڈیا کی گود میں پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
چاہے پروفیسر ربانی کی حکومت تھی یا حامد کرزئی کی اور ابھی ڈاکٹر اشرف غنی کی سب کو انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنے اور پاکستان مخالف بیانات دینے پر مجبور کرنے میں ہمارے پالیسی سازوں کا ا ہم کردار ہے۔ صدر حامد کرزئی جیسے افغان صدر جس نے پاکستان کے تقریباً بائیس دورے کیے جو کہ پاکستان کے کسی بھی دوست ملک کے سربراہ مملکت سے ریکارڈ زیاد دورے ہیں، کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا۔
سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے آن دی ریکارڈ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے حامد کرزئی کی انڈیا سے تعلقات کی وجہ سے اسے کمزور کرنے کیلئے طالبان کو سپورٹ کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی جی ایچ کیو تک گئے اور پاکستان کیلئے انڈیا کے ساتھ کئی معاہدے منسوخ کئے ۔ مگر پھر اس کو بھی انڈیا کے کیمپ میں جانے پر مجبور کیا گیا۔ بعید نہیں کہ کل کوئی اور ریٹائرڈ افسر پرویز مشرف کی طرح اشرف غنی کو سبق سکھانے کا کوئی اعتراف یا انکشاف نہ کرے۔
آخر پاکستان کی افغان پالیسی میں نقص کہاں ہے۔ یہ نقص سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی میں ہے۔ حالات اس وقت خراب ہونا شروع ہوگئے جب فوجی آمر جنرل ضیا ء الحق کے دور میں پاکستانی پالیسی سازوں کے ذھن میں سٹرٹیجک ڈیپتھ کا کیڑا پیدا ہوا ۔ اور افغانستان کو ایک دوست ، آزاد اور خودمختار ملک کی بجائے پاکستان کے پانچویں صوبے کی طرح سلوک روا رکھے جانے لگا ۔
ہماری افغان پالیسی کا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے پالیسی ساز جب پہلے مجاہدین اور اب طالبان کا ذکر آتا ہے تو افغانوں کی آزادی پسندی ، غیرت اور بہادری کے قصے سناتے اور گیت گاتے نہیں تھکتے تو دوسری طرف افغانوں کے ان اقدار اور تاریخ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ایک کٹھ پتلی کی طرح ڈیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً افغان جب ڈکٹیٹشن لینے سے انکار کرتے ہیں اور ایک آزاد اور ملک کی طرح اپنے فیصلے کرتا ہے تو پھر ہم انہیں ان کو ان کی اس بےوفائی اور احسان فراموشی کی سزا دینے پر تُل جاتے ہیں ۔
اب جب ہم کبھی افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کی اصلاح کی بات کرتے ہیں ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور اقدامات کی نشاندہی کرتی ہیں تو پاکستانی معاشرتی علوم اور ریاست کی پروردہ اور متعصب میڈیا کے مارے کئی دوستوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ۔ جہاں تک پاکستانی میڈیا کا تعلق ہے تو اس کو پنجاب میں دہشت گرد کاروائیوں میں مرنے والے شہید اور خیبر پختونخوا وغیرہ میں مرنے والے جان بحق یا ہلاک نظر آتے ہیں ۔ اس طرح پنجاب کے معمولی سے معمولی واقعے پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں بڑے بڑے اندوھناک واقعات کو نظرانداز کردیتے ہیں ۔ اب اس متعصب اور امتیازی روئیے کے خلاف خود میڈیا کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہے۔
حالات کی ستم ظریفی ہے یا جبر کہ چند سال پہلے بلوچستان میں ہمیں یہی شکایتیں سننے کو ملتی تھی جو آج سندھ اور خیبر پختونخوا یا فاٹا میں سننے کو مل رہی ہے۔ کبھی کبھار جب اس حقیقت کا سامنا کرتا ہوں تو مجھے خوف آتا ہے کہ اگر حالات اس نہج پر جاری رہے اور جب غلط پالیسیوں اور اقدامات کی نشاندہی اور اس کی مخالفت یا شکایت کرنے پر دھتکار ، ملک دشمنی اور غداری کے تمغے مل رہے ہوں تو کہیں ہمارے نوجوانوں کو تو بلوچ نوجوانوں کی طرح کسی اور راہ پر گامزن ہونے کیلئے مجبور نہیں کیا جا رہا جہاں پھر ہم جیسے لوگ جو اصلاح احوال اور اپنے صفوں کو درست کرنے کی باتیں کرتے ہیں کو نوجوان نہیں سنیں گے۔ اور اپنے راستے کا انتخاب خود کریں گے۔
پاکستانی پالیسی سازوں کے پاس اب بہت کم آپشنز رہ گئے ہیں یا تو اچھے عسکریت پسندوں کے خلاف بھی کاروائی کرنی ہوگی اور یا سفارتی تنہائی برقرار رہے گی۔ کیونکہ پاکستان کی سفارتی تنہائی کی ایک اہم وجہ یہی اچھے اور برے طالبان میں تمیز کی پالیسی ہے جس کی وجہ سے ان عسکریت پسند گروپوں کو جن پر کچھ علاقائی یا عالمی طاقتوں کو شک ہے الزام ہے کہ وہ پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں ۔
عسکریت پسندی کے حوالے سے پاکستان کے بعض ریاستی بیانیوں کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ریاستی بیانیےبنانے اور اس کو فروغ دینے والے حلقے قسماقسم خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کے شکار نظر آرہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ میڈیا کے دور میں ایک طرح کی چالوں اور گھسے پٹے دلائل سے وہ اندرون ملک عوام کو بیوہ قوف اور بیرونی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں گے۔ اب سارے ڈرامے افشا ہوچکے ہیں ، بد اعتمادی بڑھ چکی ہے اور دنیا خالی خولی وعدوں سے زیادہ عملی نتائج میں دلچسپی رکھتی ہے ۔
پاکستان افغانستان کے حوالے سے پالیسی دلدل میں پھنس چکا ہے ۔ داخلی مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔ مختلف علاقائی اور بین الاقومی فورمز میں کئے گئے وعدے اور بنائے گئے روڈ میپ اور ایکشن پلان پر عملدرامد کے تقاضے ہورہے ہیں اور اب ڈیلیور کرنے کی باتیں ہو رہی ہے۔ اب طالبان کے حوالے سے پلان “اے” کے علاوہ پلان “بی” ” سی” وغیرہ کو ترک کرنا ہوگا ورنہ ملک کا درپیش سنگین بحرانوں سے نکلنا تو پہلے ہی مشکل ہے مزید مشکل ہو جائیگا ۔
♦