ذوالفقار علی زلفی
کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے…
سلوشن کچھ پتہ نہیں…….
سلوشن جو ملا تو سالا…
کویسشن کیا تھا پتہ نہیں…
دل جو تیرا بات بات پہ گھبرائے..
دل پہ رکھ ہاتھ اسے تو پھسلالے….
دل ایڈیٹ ہے پیار سے اس کو سمجھالے…
ہونٹ گھماؤ…
سیٹی بجا..
سیٹی بجا کے بول…
چاچو ! آل از ویل..
تین چار دنوں سے مجھے ھندی فلم “تھری ایڈیٹ” کا یہ گانا بڑی شدت سے یاد آرہا ہے….عامر خان کی طرح بارہا دل پر ہاتھ رکھ کہ کہا “چاچو ! آل از ویل” پر “دل ہے کہ مانتا نہیں” ….میری یہ کیفیت کسی حسینہ کے , ماہ جبینہ کے دل کو چرانے یا اکھیاں لڑانے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا….
یہ تو براھمدغ بگٹی ہیں جنہوں نے قلب مضطر کے نہاں خانوں میں چھپے اندیشوں اور بے نام وسوسوں کو زہنی سطح پر لاکر ہمیں یاد ماضی کے عذابوں اور بے رنگ مستقبل کے سرابوں سے ایک بار پھر , خوامخواہ , آشنا کردیا…
براھمدغ بگٹی کے خیالات کو سفارتکاری اور سیاسی چال سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا , مگر , برا ہو پاکستانی میڈیا کا جس نے اس بیان کو اس طرح اور اس انداز سے بریک کیا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ماتھا ٹھنکا….پاکستانی میڈیا کی آزاد منڈی میں بلوچستان اور اس سے جڑی سیاست چونکہ نہ بکتی ہے اور نہ ہی دکھتی ہے اس لیے جب یہ خبر نہ صرف دکھنے لگی بلکہ زور و شور سے بکنے بھی لگی تو احساس ہوا لو بھئی , ہم سے تو ہاتھ ہوگیا…
وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جب خوشی کے شادیانے اور وزارت اعلیٰ کے منتظر سردار ثنااللہ زہری نے ڈھول بجائے تو ہمیں بھی دال میں کالا کالا دِکھ گیا…
بلوچ تحریک کی اسٹیئرنگ سیٹ پر ہمیشہ سے وہ طبقہ براجمان رہا ہے جو غلامی کی سیاہ راتوں میں بلک بلک کر کربناک زندگی گزارنے کی اذیتوں سے نہیں گزرا… اسے نہ روٹی کی فکرِ امروز و فردا ستاتی ہے اور نہ دریدہ و مرگ گزیدہ زندگی کے غم , لہو رلاتے ہیں…سو جہاں موقع ملتا ہے وہ طبقاتی اتحادیوں سے مخصوص بالادستانہ مفادات پر سودا بازی کرلیتا ہے…
یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور شاید آئندہ بھی ہوتا رہے گا…بلوچ آزادی آزادی چلاتا رہا , سردار الحاق الحاق کھیل گیا , بلوچ ایشیا سرخ کرتا رہا , سردار وزارت اعلی ٰلے گیا , بلوچ مسخ لاش بنتا رہا اور سردار…………..!!!!!!
پاکستانی مقتدرہ جانتا تھا , کتابوں سے لدھے پھندے بلوچ لوئر مڈل کلاس کے مفادات زمین سے وابستہ ہیں اس لیے خاک نشینوں کو خاک میں ملایا گیا , جو بچے وہ خاک سے چھوٹ کر بس “وطن سے چٹّی آئی ہے” میں الجھ کر رہ گئے….لوئر مڈل کلاس مارکس , لینن , فینن اور فریرے پڑھ پڑھ کر بزعم خود رہنما تو بن گئے مگر سرداری قوم پرستی کے میکیاویلیانہ جادو سے دامن نہ چھڑا سکے…
سو کبھی لندن , کبھی سوئٹزرلینڈ , کبھی وڈھ تو کبھی قلات نشین سرداروں کی بیعت کرتے رہے….تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے اور خاک نشینوں کو تخت پر بٹھانے کی بجائے انہوں نے تاج داروں سے راہ و رسم بڑھانے کی تاریخی غلطی پھر دوہرادی….مزدور مارے گئے , حجاموں کی شامت آئی , آبادکار جلائے گئے , سردار ہلاشیری دیتے رہے , یوں انقلاب خاک آتا سندھی , پنجابی اور پختون خاک نشینوں سے فاصلے بڑھتے گئے…
قومی حق خودارادیت اور تنگ نظر نسل پرستی کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوچکا ہے…
بات یہاں تک رک جاتی تو شاید بنتی بھی , مخبر مخبر کھیل کر آپس میں ہی بھڑنے لگے…آج ثنااللہ اور براھمدغ ایک دوسرے کے بھائی مگر تمپ و مند کے دیرینہ ہمسائے دشمن بن چکے ہیں…سینکڑوں بہترین اور عالی دماغ نوجوان داغ مفارقت دے کر پہلے سے بنجر زمین کو مزید بنجر کرچکے ہیں….
مکران تو ادھ موا ہوکر کراہ رہا ہے , قبائلی بلوچ کیلئے کل بھی اوپر اللہ نیچے سردار اور درمیان میں مخفی سرکار تھا سو آج بھی ہے اور شاید کل بھی رہے گا…..آزادی کا وہ خواب جو سینکڑوں نوجوان آنکھوں میں لیے مسخ لاش کی صورت رخصت ہوئے ان ٹوٹے ہوئے خوابوں کا اب شاید دھندا ہوگا……
وہ نقاب پوش بلوچ حسینائیں جنہوں نے ہاتھوں میں مہندی لگانے اور کسی کیّا و شہ مرید کی صدو اور ہانی بننے کی بجائے بلوچستان کی سڑکوں پر لاپتہ پیاروں کی بازیابی اور وطن کی آزادی کے سپنے بنے , ان کے شکستہ ارمانوں کا اب کے پھر سودا ہوگا……
وہ جو خان ہے ، وہ صرف خان ہے ،اس میں نصیر و محراب ڈھونڈھنا عبث ہے , وہ جو تراتانی میں امر ہوا وہ اناپرست تھا جو کبھی جذبات میں بہا نہیں ، جسے خیابان سحر سے نوید سحر دینی تھی وہ کبھی انقلابی تھا ہی نہیں….انقلابی بلیدہ و توتک کے پہاڑوں میں بکریاں چراتے ہیں ، وہ لیاری کی تنگ گلیوں اور خضدار کے بوسیدہ مکانوں میں دن رات کرتے ہیں ، مگر یہ بلوچ سیاست کا کرشمہ ہے کہ ہمارا انقلاب بھی ہمیشہ محلوں سے شروع اور محلوں پر ختم ہوتا ہے….
بلوچ نے کبھی پارٹی بنائی ہی نہیں…..کامریڈ لینن سے منقول ہے “انقلاب کیلئے تین چیزیں ضروری ہیں نظریہ , نظریہ اور نظریہ“…دوسرے لفظوں میں پارٹی , پارٹی اور پارٹی جبکہ بلوچ سیاست میں پارٹی کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہی سو نظریہ کہاں ٹکتا…
ایک غلام محمد ہوا کرتے تھے ، جوشیلے اور دھن کے پکے ، انہوں نے کبھی طبقاتی تضادات کو سمجھا ہی نہیں….انگریز بچہ کیوں اٹھالیا؟؟؟ یہ سوال انہوں نے کبھی پوچھا ہی نہیں…انہیں کارکن عزیز تھے مگر انقلابی وہ سردار کو ہی سمجھتے رہے…یہی حال خلیل و منان کا بھی ہے ،لندن کی کشتی سے اترے ، جنیوا کے جہاز پر چڑھ بیٹھے…
ڈاکٹر ،امید کا ستارہ تھا یا شاید ہے , پر وہ بھی سردار کی زلف گرہ گیر کے اسیر رہے ،تبھی تو سردار کہتا ہے “آواران میں محدود گروہی ڈاکٹر! اوقات میں رہو” افسوس یہ آوارانوں میں محدود ڈاکٹر اوقات میں ہی نہیں رہتے…..
چلیں ! اب اوقات میں رہ کر ان سے تعلق بڑھائیں جن کی کوئی اوقات نہیں , نسل پرست قوم پرستی کو طاق میں رکھ کر اب ہر اس انسان سے تعلق بڑھائیں , جسے کبھی لاڑکانہ و نوابشاہ , کبھی لہور و پنڈی تو کبھی نوشہرہ و پشین سے اوقات میں رہنے کا حکم دیا جاتا ہے…
سردار کو قیمت لگانے دیں ،
ابھی بھی حکم کا اکّا گرا نہیں ہے , خواب زندہ ہیں , حوصلے جواں ہیں , بس صفیں توڑ کر امام بدلنے ہیں……
One Comment