قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کے لئے ایک بل پاس کیا ہے لیکن قرآن کے ترجمے کے حوالے سے سول سوسائٹی ابھی سے سوالات اٹھا رہی ہے اور تمام فرقوں کے علماء میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
اس بل میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ پہلی کلاس سے بارہویں تک وفاقی حکومت کے زیرِ ا نتظام تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی تعلیم دی جائے گی۔ پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک ناظرہ جب کہ قرآن کا ترجمہ چھٹی کلاس سے بارہویں کلاس تک پڑھایا جائے گا۔ وفاقی وزیر برائے تعلیم و پروفیشنل ٹریننگ بلیغ الرحمان کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’قرآن شریف کا ایک سادہ سا ترجمہ جو تمام مکاتبِ فکر کے لئے قابلِ قبول ہو وہ پڑھایا جائے گا۔‘‘۔
لیکن سول سوسائٹی، سیاست دان اورماہر ینِ تعلیم کے خیال میں اس سے معاشرے میں مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم مزید بڑھ سکتی ہے۔ اس فیصلے پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر مہدی حسن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارا معاشرہ پہلے ہی مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسا ترجمہ پڑھایا جائے گا اور یہ پڑھانے کے لئے اساتذہ کہاں سے بھرتی کئے جائیں گے۔ بریلوی ایسے کسی ترجمے کو منظور نہیں کریں گے جو دیوبندی حضرات نے لکھا ہو اور دیوبندی بریلوی علماء کے ترجمے کو نہیں پڑھیں گے۔ اہلِ تشیع بھی اس فیصلے پر اعتراضات کریں گے۔ اس طرح کی کوششیں انیس سو پچاس کی دہائی اور بعد میں جنرل ضیاء کے دور میں بھی ہوئیں اور اس کاکوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مذہبی تعلیم والدین کو گھر پر دینی چاہیے۔ اگر اس طرح سرکاری اسکولوں میں تعلیم دی جائے گی تو اس سے مسائل بڑھیں گے‘‘۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے خدشات کوکئی لوگ صحیح سمجھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے سنی تحریک کے علماء بورڈ کے رکن علامہ طاہر اقبال چشتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کسی صورت یہ قبول نہیں کریں گے کہ بریلوی اسٹوڈنٹس کو ایسے تراجم پڑھائیں جائیں، جو دیوبندی علماء نے کئے ہیں۔ ہمیں اور ہمارے اکابرین کو ان تراجم کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں اور ان تراجم کے حوالے سے بریلوی علماء کے فتوے بھی موجود ہیں۔ ہمارے خیال میں اگر حکومت ترجمہ پڑھانا چاہتی ہے تو احمد رضا خان صاحب بریلوی کا لکھا گیا ترجمہ پڑھایا جائے۔ اگر علمائے دیوبند کا ترجمہ پڑھایا گیا تو اس پر شدید احتجاج کیا جائے گا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہمارے اس حوالے سے بھی خدشات ہیں کہ زیادہ تر اساتذہ دیوبندی مکتبہ ء فکر سے لئے جائیں گے۔ اس ملک میں آبادی کی اکثریت بریلوی ہے لیکن مدارس زیادہ دیوبندیوں نے قائم کئے ہوئے ہیں۔ آرمی میں بھی زیادہ تر خطیب کی نوکری دیوبندی مولویوں کو ملتی ہے۔ اب کہیں جا کر ہماری شرح پندرہ فیصد کے قریب ہوئی ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ ملک میں جو دہشت گردی ہورہی ہے اس میں کس طرح کے(دیوبندی اور سلفی) مدارس ملوث ہیں۔
ایک مشہور دیوبندی عالم کا کینٹ کے علاقوں میں داخلہ بند ہے اور وہ وہاں تبلیغ بھی نہیں کر سکتے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عالم کے شاگرد پھر کیسے ان وفاقی تعلیمی اداروں میں مقرر کئے جا سکتے ہیں۔ اگر بریلوی مدارس کے فارغِ التحصیل طلباء کو ان نوکریوں میں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی، تو ہم بھر پور احتجاج کریں گے‘‘۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ کے خیال میں اس فیصلے سے مذہبی اقلیتوں کے لئے اور مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس فیصلے کے حوالے سے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوؤں ، عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے بچوں کو کیا پڑھائیں گے؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں مختلف فرقوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ جب ضیاء کے دور میں اسکولوں میں طریقہ نماز سکھایا جانے لگا تو اس سے گلگت و بلتستان میں بڑے مسائل شروع ہوگئے تھے۔
ایک بچے نے والدین کو کہا کہ تم تو غلط نماز پڑھتے ہو۔ اس کے بعد وہاں مظاہرے شروع ہوگئے، جو کافی عرصہ چلتے رہے۔ اس ملک میں شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی اور دوسرے فرقوں کے اختلافات پہلے ہی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے ان میں مزید شدت آئے گی۔ اس کے علاوہ جب آپ اسکول میں قرآن پاک رکھیں گے ۔ تو بچے تو سمجھ دار نہیں ہوتے۔ اگر کسی سے غلطی سے بھی قرآن گرگیا یا بے حرمتی ہوگئی تو اس کا واویلا کر دیا جائے گا۔ میرے خیال میں یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور سول سوسائٹی کو اس حوالے سے آواز اٹھانی چاہیے‘‘۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’کے پی میں عمران خان علماء کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مرکز میں نواز شریف اور وزیرِتعلیم مذہبی عناصر کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اب اگر فیصلہ ہو ہی گیا ہے تو انہیں یونیورسٹی سے پڑھے لکھے لوگ قران پڑھانے کے لئے رکھنے چاہیئں ورنہ تو ملک میں مزید مسائل بڑھیں گے‘‘۔
قرآن کی سکولوں میں تعلیم کا بل انتہائی متنازعہ ہے اور یہ معاشرے میں بہتری کی بجائے مزید انتشار کا سبب بنے گا۔ ایک ایسا سماج جہاں پہلے ہی فرقہ وارانہ قتل و غارت جاری ہے وہاں قرآن کی تعلیم مزید قتل و غار ت کا سبب بن سکتی ہے۔ کہنے کو تو قرآن کو امن ، محبت و آشتی کا علمبردار قرار دیا جاتا ہے مگر عملی طور پر دنیا میں جتنی بھی قتل و غارت جاری ہے وہ اس کی بنیادی وجہ اس کی تشریح ہی ہے۔
نواز حکومت جہاں ایک جانب روشن خیالی اور اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے اسے اس طرح کے متنازعہ بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرنے چاہیے۔ مذہب ہر شخص کا ایک ذاتی مسئلہ ہوتا وہ کیسے اس پر عمل درآمد کرتا ہے ریاست کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔
ان تمام تر خدشات کے باوجود حکومت کے خیال میں اس فیصلے کے کوئی منفی اثرات نہیں ہوں گے۔ نون لیگ کے رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’غیر مسلم طلباء کو بھی اس بات کے مواقع فراہم کئے جائیں گے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کریں۔ ترجمے کے حوالے سے اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے گا اور بالکل اسی طرح اساتذہ کی بھرتی کے لئے بھی مختلف اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی جائے گی اور سب کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا‘‘۔
10 Comments