محمود فال ۔افریقہ کے ایک مصنف کی کہانی سے ماخوذ

سبط حسن

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ، افریقہ کے ایک ملک میں ایک شخص رہتا تھا۔ اس کا نام محمود فال اور عمر 37برس تھی۔ اس کا رنگ سیاہی مائل تانبے کی طرح تھا۔ ناک، عقاب کی چونچ کی طرح مڑی ہوئی اور چال بہت پھرتیلی۔۔۔ مگر ایسی پھرتیلی نہ تھی جیساکہ اس کی بے قرار سانپ جیسی آنکھیں تھیں۔اس کا خیال تھا کہ اس کا جو کچھ بھی ہے، دراصل وہ دوسروں کی ملکیت ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اُسے دوسروں کے مال کو استعمال کرنے سے نہ روک سکتی تھی۔ وہ کوئی کام نہ کرتا تھا۔ جب محلے کے بچے اس سے کام کے بارے میں پوچھتے تووہ کہتا:۔
’’
بھائی، میں تو بلّیوں کے خاندان میں سے ہوں۔۔۔ تم نے کبھی بلیوں کو کوئی کام کرتے ہوئے، دیکھا یا سنا ہے۔۔۔؟‘‘
محمود جس علاقے میں رہتا تھا، وہاں زمین بے آباد تھی۔ لوگ اپنے جانوروں کو ساتھ لیے سارا دن گھومتے رہتے تھے۔ شام جہاں آجاتی، وہیں اپنے خیمے لگا لیتے اور صبح ہوتے ہی پھر چل پڑتے۔
محمود کچھ کرنے سے گھبراتا تھا۔ اس گھبراہٹ سے ایک دن وہ تنگ آگیا۔ اس نے اپنی خالی جیبوں کے ساتھ مشرق کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا۔ مشرق کی طرف سیاہ فام لوگوں کا علاقہ تھا ۔ محمود نے سفر شروع کیا اور سینیگال چلا آیا۔
سینیگال پہنچ کر محمود نے سب سے پہلے اپنا نام تبدیل کیا۔ اس نے لوگوں کو اپنا نام آئیدرا بتلانا شروع کر دیا۔ آئیدرا دراصل کسی رئیس قبیلے کا لقب تھا۔ اس نام سے محمود پر خوشحالی کے دروازے کھل گئے۔ محمود نے موریطانیہ میں رہتے ہوئے خدا کے پاک کلام کو پڑھا تھا۔ سینیگال میں ہر مسلمان اس بندے کی بہت عزت کرتا تھا، جو خدا کے کلام کو پڑھنا جانتا ہو۔ محمود کو اسی بات پر بڑی عزت ملنے لگی۔ وہ نمازوں کی امامت کرنے لگا۔ لوگ اس سے مسئلے مسائل پوچھنے لگے۔ سب لوگوں نے ماننا شروع کر دیا کہ محمود کا ان کے ہاں آنا بہت ہی برکت والی بات ہے۔ محمود اﷲ کے پاک کلام کی ایسی خوبصورت انداز میں تلاوت کرتا کہ سب پر جادو سا ہو جاتا۔ پانچوں نمازوں کے درمیانی اوقات میں وہ ایک دری پر بیٹھا رہتا۔ تسبیح کے دانوں پر عبادت کرتا رہتا یا پھر لوگوں کو بھلائی کی تلقین کرتا رہتا۔
کھانے کے وقت کئی گھروں سے اس کے لیے کھانا آتا۔ وہ اصرار کرتا کہ وہ لوگوں کے سامنے کھانا تناول نہ کرے گا کیونکہ وہ بہت کم کھاتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا مطلب، انھیں اپنی ضرورت کے مطابق کھانے سے محروم کرنا ہے۔ لوگ، بیمار بچے اس کے پاس لے آتے۔ محمود دم درود کر کے بیمار بچوں پر پھونکیں مارتا اور پھونکوں کے ساتھ اس کا تھوک بھی ان کے چہروں پر گر پڑتا۔ لوگ اسے تبرک کے طور پر بچوں کے اور اپنے چہرے پر مل لیتے۔
آہستہ آہستہ لوگ محمود کو اپنے گھروں میں بلانے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ان کے گھروں میں برکت اور مال کی فراوانی ہو گی۔ لوگ اس کے لیے طرح طرح کے مرغن کھانے پکاتے۔ شروع میں محمود ان کو کھانے سے انکار کرتا رہا اور انھیں صرف چھو کر چھوڑ دیتا۔ بعد میں اس کی کوٹھری پر مرغن کھانے آنے لگے۔ اس کے بعد وہ اکثر پیٹ میں گیس اور بدہضمی کی شکایت کرنے لگا۔
محمود کی صحت بہت اچھی ہونے لگی۔ اس کی اچھی خاصی توند نکل آئی۔ ساتھ ہی اس کے پاس بہت سے سکے جمع ہونے لگے۔ یہاں اتنی سہولتوں کے باوجود محمود کی بلیوں سے دشمنی کسی طور کم نہ ہوئی۔ وہ اکثر سوچتا کہ یہاں کے لوگ ہیں تو بہت اچھے مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بلیاں کیوں پالتے ہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی کوئی بلی دیکھتا، اس کے پیچھے بھاگ دوڑتا یا کسی اور کو اسے بھگانے کے لیے کہتا۔
محمود کی مقبولیت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے اپنے بارے میں بہت سے قصے بھی مشہور کرنا شروع کر دیے۔ اس نے لوگوں کو بتانا شروع کر دیا کہ وہ اتنا بڑا بزرگ بن گیا ہے کہ جہنم کی آگ بھی اسے نہیں چھو سکے گی۔ اس نے لوگوں کو گھروں کی حفاظت کے لیے تعویز بھی لکھ کر دینے شروع کر دیے۔
مہینے گزر گئے۔ محمود نے دیکھا کہ اس کے ماننے والے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک صبح، کسی کو کچھ بتائے بغیر وہ اس جگہ سے چل پڑا۔ وہ جس طرح، اچانک وہاں آیا تھا، اسی طرح اچانک غائب ہو گیا۔
محمود نے سارے سکے ایک تھیلی میں ڈالے۔ تھیلی کو کندھے پر رکھا اور پہاڑوں کی طرف چل پڑا۔ وہ دن رات چلتا رہا۔ راستے میں کہیں آرام کے لیے رُک جاتا۔ سارا راستہ وہ یہی سوچتا رہتا کہ وہ ان سکوں سے کیا کیا خریدے گا۔ یہ بھی کہ وہ انھیں چوروں لٹیروں سے کیسے بچائے گا۔ یہی سوچتے ہوئے اس نے اپنا راستہ بدل لیا۔ اس نے شمال کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ اس طرف چور او رلٹیرے رہتے تھے۔ یہ گروہوں میں اِدھر اُدھر پھرتے رہتے تھے اور جہاں کہیں کوئی مسافر نظر آجاتا، اسے لوٹ لیتے تھے۔ محمود کو ان لوگوں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ بلکہ وہ تو شیطان کا شکریہ ادا کررہا تھا کہ اس نے، اسے ایسی مکاری سکھائی۔ جس کو استعمال کرکے اس نے اتنے سارے سکے کما لیے۔
محمود جس صحرا میں سے گزر رہا تھا، وہاں شدید گرمی تھی۔ سورج کی کرنیں جیسے آگ کے شعلے پھینک رہی تھیں۔ صحرا میں اُگی جھاڑیاں اور گھاس جل چکے تھے۔ گرم ہوا چلتی تو ان جھاڑیوں اور گھاس کو اڑا لے جاتی۔ صحرا کی تپتی خاموشی میں ، گرم لُوسیٹیاں بجاتی ہوئی گزرتی اور صحرا کے سناٹے کو توڑ دیتی۔ جگہ جگہ چکر کھاتے ہوئے، بگولے اٹھ رہے تھے۔ راستے میں مرے ہوئے جانوروں کے پنجر نظر آتے تو محمود کی روح کانپ جاتی۔ اسے اپنی جان کی سلامتی کے سلسلے میں سخت خوف محسوس ہونے لگتا۔ دور دور تک کسی زندہ چیز کا نشان تک نہ تھا۔ صرف ایک درخت نظر آیا۔ عجیب سا درخت تھا، اتنا بڑا چھتر اور ایسے تپتی صحرا میں۔۔۔
محمود کو خیال آیا کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا ہو گا۔ وہ سوچنے لگا کہ پہلے سویا جائے یا کہ نماز پڑھ لی جائے۔ شیطان نے اسے سمجھایا کہ تمھیں پہلے سو جانا چاہیے۔ آخر تو وہ شیطان کا چیلہ تھا، درخت کے نیچے لیٹا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ اس کے ذہن میں سکّوں کا خیال آیا۔ اس نے اپنی پوری آواز میں کسی کو پکارا:۔
’’
۔۔۔ارے کوئی ہے۔۔۔؟ ادھر سامنے آؤ۔۔۔‘‘
صحرا میں محمود کی آواز گونجی۔ لوٹ کر پھر واپس آگئی۔ اس نے پھر بلند آواز میں پکارا۔ وہاں اس کے اور درخت کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ وہ اٹھا اور دائیں طرف بھاگا۔ پھر لوٹا اور بائیں طرف بھاگا۔ شمال کی طرف نظر دوڑائی۔ اس کے پیچھے جنوب کی طر ف پہاڑ تھا۔ اس پر نظر دوڑائی۔۔۔ محمود کو تسلی ہوگئی کہ اس کے علاوہ وہاں کوئی اور نہ تھا۔
محمود نے زمین میں، درخت کے تنے کے پاس ایک گڑھا کھودا۔ پھر اٹھا اور چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اس کے دل میں سکوں کو لے کر خوف پیدا ہو رہا تھا۔ اس نے واپس آکر گڑھے کو اور بھی گہرا کیا۔ پھر درخت پر چڑھا اور بہت اوپر جا کر دور افق کی طرف،آنکھوں پر ہتھیلی رکھ کر دیکھا۔ دور دور تک کسی آدمی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ نیچے اترا۔ گڑھے کو مزید گہرا کیا ۔ پھر سارے سکّوں کو اپنی جھولی میں ڈالا۔ ہر سکے کی گنتی کرتے ہوئے انھیں واپس تھیلی میں ڈالنے لگا۔ سارے سکے، تھیلی میں ڈالنے کے بعد انھیں گڑھے میں رکھا اور اوپر ریت ڈال دی۔ اس کے دل میں اطمینان اور تسلی تھی کہ اس کے سکے اب محفوظ ہو گئے ہیں۔ گڑھے والی جگہ کے ساتھ ٹانگیں پساریں اور لیٹ گیا۔ اسے خیال آیا کہ اس نے خدا کی راہ میں، ان سکوں میں سے کچھ نہیں دیا۔ آسمان کی طرف منہ کر کے کہنے لگا:۔
’’
تمھارا حصہ ادھر محفوظ ہے، اسے ضرور دے دوں گا۔۔۔‘‘
محمود خاصا تھکا ہوا تھا۔ وہ خدا سے باتیں کرتا ہوا سو گیا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ صحرا میں سے گزر رہا ہے۔ اسے اونٹوں کی ایک قطار نظر آئی۔ اونٹوں کی گردنوں میں گھنٹیاں تھیں۔ گھنٹیوں کی آواز اسے بہت بھلی محسوس ہوئی۔ اس کی تنہائی کسی قدر کم ہوئی اور دل میں مسرت کی ہلکی سی لہر نے کروٹ لی۔ اسی دوران محمود کو لگا کہ شاید کسی نے اس کا خزانہ لوٹ لیا ہو۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی سیاہ فام، بالکل گنجا اس کے قریب آیا ہے۔ سیام فام نے اس کے پہلو میں دفن سکوں کو نکالا۔ پھر اس کا سر مونڈ دیا اور چلتا بنا ۔ خواب میں ایسا ہونا محمود کے دل میں گھبراہٹ کا باعث بنا۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ ہر طرف اندھیرا تھا مگر دور افق پر پورا چاند چمک رہا تھا۔ چاندنی نے اندھیرے کی چادر کو قدرے کم گہرا کر دیا تھا۔ محمود نے جمائی لی اور ریت پر بیٹھ گیا۔
اسے نماز پڑھنے کا خیال آیا۔ مگر سوچنے لگا کہ پانی تو ہے نہیں، تیمم کر لیا جائے۔ اس نے تیمم کرنے کے لیے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرا۔ اس کی داڑھی غائب تھی۔ پھر اس نے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے سر کے بال بھی غائب تھے۔ محمود گھبرا گیا۔ اسے لگاجیسے دور صحرا سے لوگوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ اس نے سوچا شاید اسے دھوکا ہوا ہے۔ آوازیں دراصل اس کے اپنے دل سے اٹھ رہی ہیں۔ صحرا میں تو کوئی بھی نہ تھا۔ آخر اس کی داڑھی اور سرکس نے مونڈ دیا۔۔۔؟
یہ کام ہو نہ ہو، شیطان نے کیا ہے۔۔۔!‘
نہیں، شیطان تو میرا دوست ہے، وہ کیونکر ایسا کر سکتا ہے۔۔۔؟‘
خدا پر یقین کرو، ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔‘
محمود بلند آواز میں قہقہے لگانے لگا۔ پھر اپنے آپ سے کہنے لگا:۔
’’
جب تم نے سادہ لوگوں کو لوٹا، انھیں دھوکہ دیا۔۔۔ اس وقت شیطان تمھارا سب سے بڑا دوست تھا۔۔۔ اب خدا پر یقین سے کیا فائدہ۔۔۔؟‘‘
محمود نے اپنے کانوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیے۔۔۔ وہ ان آوازوں سے بھاگنا چاہتا تھا۔ اسے ایک دم سکّوں کا خیال آیا۔ پھر سوچنے لگا، ’نہیں، اسے پہلے نماز پڑھ لینی چاہیے۔ پہلے ہی دو نمازیں قضا ہو گئی ہیں۔ نمازیں پڑھ کر سکّوں کے بارے میں معلوم کرے گا تو خدا اس کا ساتھ دے گا۔۔۔‘
نہیں، پہلے سکّوں کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے۔۔۔ ان کے بغیر تووہ کہیں کا بھی نہ رہے گا۔۔۔ تجھے کھانے کو بھی کچھ نہ ملے گا۔۔۔‘
محمود نے فوراً درخت کے تنے کے ساتھ ریت کو کھودنا شروع کر دیا۔ وہ پاگلوں کی طرح، بڑی تیزی سے ریت باہر کی طرف پھینک رہا تھا، جیسے وہ کوئی انسان نہیں ، لومڑی یا نیولا ہو۔ اگر اس وقت کوئی بھی محمود کے پاس آجاتا تو وہ اسے کاٹ کھاتا۔ اسے پسینہ آرہا تھا۔ پیاس سے اس کی زبان کا نٹا بن گئی تھی۔ محمود نے اپنے پاؤں پر ریت کا ایک ڈھیر بنا دیا۔ اس ڈھیر کو ایک طرف کیا اور گردن جھکا کر گڑھے کو پھر سے کھودنا شروع کر دیا۔ وہ گڑھے کی تہہ تک پہنچ گیا۔
محمود نے گڑھے میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے ہاتھ میں بالوں کا گچھا آگیا۔ اس نے بالوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے کیا۔ سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔ اس کے حلق سے ایک چیخ نکلی مگر اسے لگا کہ چیخ کی کوئی آواز نہ تھی۔ پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ کہنے لگا:
’’
اے میرے مولا، میرے ساتھ ایسا نہ کر۔۔۔ میرا تمھارے ساتھ بہت پرانا تعلق رہا ہے۔۔۔‘‘
محمود کے دل میں خیال آیا۔ اسے نماز پڑھ کر گڑھا کھودنا چاہیے تھا۔ اس نے فوراً نماز شروع کی۔
اﷲ اکبر‘
’’
میرے اﷲ ، تو ہی بتا، میرے سکے کس نے چرائے؟‘‘
میں اصل میں سویا ہی نہ تھا، خواب سوتے میں نہ تھا۔۔۔ وہ تو سچ مچ میرے ساتھ ہو رہا تھا۔۔۔‘
محمود کا دھیان نماز پڑھتے ہوئے، اﷲ کی طرف تو تھا مگر اس کی عبادت کے لیے نہیں ، اپنے گم شدہ سکوں کے لیے۔۔۔
میرے سکے چوری ہو گئے، اس نے میرا سر اورداڑھی مونڈ دی۔۔۔ تو چپ چاپ تماشا دیکھتا رہا۔۔۔ اے میرے مولا، اسے روک دینا تھا۔۔۔‘
میرا دل نہیں چاہتا کہ اب نمازجاری رکھوں۔۔۔
محمود نے نماز چھوڑ دی اور درخت کے ارد گرد تین چکر لگائے۔ وہ بڑبڑا رہا تھا:۔
’’
اس علاقے کے سب لوگ چور ہیں۔۔۔‘‘
محمود کو سخت غصہ آرہا تھا۔ وہ بالکل پاگلوں کی طرح صحرا میں دوڑنے لگا۔ پھر اسے خیال آیا:۔
’’
چور بننے کے لیے اﷲ پر یقین رکھنا ضروری تو نہیں۔۔۔‘‘

Comments are closed.