لیاقت علی
گر مہر کواس کا باپ پیار سے گگلو کہا کرتا تھا ۔ گگلو اب بیس سال کی ہے اور دہلی کے لیڈی سر ی رام کالج میں سال اول کی طالبہ ۔ انگلش لٹریچر میں گر مہر کو خصوصی دلچسپی ہے۔اٹھارہ سال قبل1999 میں گگلو ابھی دو سال جب کہ اس کی چھوٹی بہن بانی محض پانچ ماہ کی تھی کہ ایک دن خبر آئی کہ اس کا باپ کیپٹن مندیپ سنگھ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہوگیا ہے ۔
گر مہر کے والد کا تعلق بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر سے تھا اور اس نے انڈین آرمی کے ایئر ڈیفنس ونگ میں کمیشن میں حاصل کیا تھا۔ گر مہر نے اپنا بچپن باپ کی محبت اور شفقت کے بغیر گذارا۔ ان اٹھارہ سالوں میں کوئی شائد ہی کوئی دن ایسا ہوگا جس دن اس نے اپنے باپ کو یاد نہ کیا ہو۔ باپ کی یاد ہر دم اس کے ساتھ رہتی اور وہ سوچتی کہ اپنے باپ کی موت کا بدلہ کیسے لیا جا ئے۔
گر مہرکو پہلی دفعہ شہرت سوشل میڈیا پر اس وقت ملی جب مئی2016 میں اس کا فیس بک پر رام سبرامنیم سے رابطہ ہوا تھا۔ رام فیس بک پر ’ مثبت تبدیلی کا حصول ‘کے نام سے ایک مہم چلاتا تھا۔ گرمہر اس مہم کا حصہ بن گئی اور اس نے رام کی بنائی ایک خاموش ویڈیو میں اپنی کہانی بیان کی تھی۔
گر مہر نے بتایا کہ ابھی وہ چھ سال کی تھی کہ اس نے ایک بر قع پوش عورت کو چاقو مارنے کی کوشش کی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس کے باپ کو مسلمانوں نے قتل کیا تھا ۔ اس واقعہ کے بعد میری ماں روندر کور نے جو پنجاب سول سروس میں آفیسر ہے، میری کونسلنگ کی اور مجھے سمجھایا کہ میرے باپ کو مسلمانوں نے نہیں جنگ نے قتل کیا ہے ۔ تمھیں افراد سے بدلہ نہیں لینا بلکہ جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے جد و جہد کرنا چاہیے۔ یہ دن اور آج کا دن میں جنگ کے خلاف ہوں۔
گر مہر سمجھتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو باہمی دشمنی ختم کرکے اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا چاہیے۔ گر مہر دونوں ممالک کے نوجوانوں کے باہمی روابط اور تبادلے کی پرزور حامی ہے ۔
گر مہر نے اپنی جنگ مخالف مہم کا آغاز پوسٹرز بنا کرکیا ۔ ایسے پوسٹر ز جن پر جنگ مخالف نعرے درج ہوتے تھے۔ ۔ گر مہر کاایک پوسٹر جس پر لکھا تھا کہ : میرے باپ کو پاکستان نے نہیں جنگ نے مارا بہت مشہورہوا اور نوجوانوں میں اس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی۔
گر مہر کی اس جنگ مخالف مہم کی سب سے زیادہ تکلیف بھارت کی ہندو مذہبی جماعتوں بالخصوص ان کے زیر اثر طلبا تنظیموں کو ہوئی ۔ انھوں نے گر مہر کو ڈرایا دھمکایا لیکن گر مہر ہا ر ماننے والی نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ بھی اپنے باپ کی طرح سپاہی ہے ۔ امن کی سپاہی ، بی جےپی اور ویشوا ہندو پریشد کے عہدیداروں نے حب الوطنی کے نام پر گر مہر کو مطعون کیا لیکن اس کے دفاع میں دہلی کے طالب علم ڈٹ گئے۔
گر مہر کی اس جنگ مخالف مہم نے کئی ایسے سوالات کو جنم دیا ۔ بہت بنیادی سوال یہ کہ حب الوطنی سے کیا مراد ہے اور اس کی تعریف کون متعین کرے گا؟ اور کیا حب الوطنی کی کوئی ایک تعریف متعین کی جاسکتی ہے ؟ کیا حب الوطنی کے نام پر آزادی اظہار پر پابندی لگائی جاسکتی ہے؟ یہ ان سے جڑے دوسرے سوالات۔ بھارت کے سیاسی حلقوں، سماجی تنظیموں اور میڈیا میں ان سوالوں پر بحث جاری ہے۔ بھارتی میڈیا نے گر مہر کے موقف کی بھرپور تائید کی ہے۔
گر مہر کی حمایت میں نکلنے والے طالب علموں کے جلوسوں اور مظاہروں کی پاکستان کی انگریزی پریس میں نمایاں کوریج ہوئی ہے لیکن اس حوالے سے اہم بات تو یہ ہے کہ ہماری گر مہر کہاں ہے؟ کیا ہمارے ہاں کوئی فوجی کی بیٹی یا بیٹا جنگ مخالف مہم کا حصہ بنا ہے بلکہ وہ تو ٹی وی چینلز پر یہ کہتے ہوئے دکھایا جاتا ہے کہ’ مجھے فخر ہے کہ میرے باپ نے شہادت قبول کی میں بھی بڑا ہوکر اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہادت کو گلے لگاوں گا ‘۔