ریاست مذہبی انتہا پسندوں کی سرپرستی کرتی ہے

اسلام آباد کے مضافات میں واقع بارہ کہو کی سرسبز پہاڑیوں کے درمیان اٹھل گاؤں میں تین کنال کے رقبے پر قائم پولیس کمانڈو ممتاز قادری کا مزار اور یکم مارچ کو اُس پر چہل پہل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام کے ایک بڑے طبقے کے نزدیک قانون کی بالادستی حرفِ آخر نہیں ہے۔

یہ زیر تعمیر مزار ممتاز قادری کی قبر پر پچھلے سال تعمیر ہونا شروع ہوا جنھیں گذشتہ سال 29 فروری کو اڈیالہ جیل میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے کی پاداش میں پھانسی دی گئی۔

ایلیٹ فورس سے تعلق رکھنے والے ممتاز قادری نے چار جنوری 2011 کی شام چار بجے اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں اُس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اس بنا پر گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا کہ انھوں نے توہین رسالت کے الزام میں قید آسیہ بی بی کے حق میں بات کی تھی اور توہین رسالت کے قوانین کا از سر نو جائزہ لینے کے بارے میں بات کی تھی۔

یکم مارچ 2016 کو راولپنڈی میں ممتاز قادری کا جنازہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کے بڑے اجتماعات میں سے ایک تھا۔اس جنازے کے ایک سال بعد بھی یہ سوال برقرار ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم پر سزائے موت پانے والے ایک قاتل کو اتنی پذیرائی کیوں مل رہی ہے؟

معروف وکیل اسد جمال کے خیال میں معاشرے کی ایک بڑی تعداد میں لوگوں کے نزدیک ممتاز قادری نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔


حقوق انسانی کی سرگرم کارکن فرزانہ باری نے بتایا کہ ممتاز قادری اور ان کے حمایتی ایک مخصوص ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں اور سرکار کی عملداری نہ ہونے کے سبب یہ سوچ پروان چڑھی جس کے سبب انھیں اتنی پذیرائی ملی ہے۔

ممتاز قادری کے پھانسی کے ایک سال کے موقعے پر مزار کے قریب مختلف سٹال کھول لیے گئے تھے جہاں لوگ آنے والے لوگوں کے لیے

پھولوں کے ہار، قمیضوں پر لگانے کے لیے بیجز اور نماز کی ٹوپیاں بیچ رہے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ افراد نے ممتاز قادری کی تصاویر والے پوسٹ کارڈز اور کچھ نے کھانے کے لیے پھلوں کے ٹھیلے بھی لگائے ہوئے تھے۔

مزار کے ارد گرد کی مارکیٹ میں بھی نئی دکانیں کھل گئی ہیں جن میں سے کئی نے باضابطہ طور پر ممتاز قادری کا نام اپنی دکانوں کے لیے استعمال کیا۔

صرف یہی نہیں، بلکہ ممتاز قادری کے مزار کے اطراف میں موجود خالی پلاٹوں کی قیمتوں میں پچھلے ایک سال میں دوگنا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ شاید مزار کی بڑھتی ہوئی تعمیر ہے۔

ممتاز قادری کے سسرال والوں کی طرف سے دیے گئے پلاٹ پر زیر تعمیر مزار پر اب تک 70 لاکھ روپے کی لاگت آ چکی ہے اور ممتاز قادری کے والد ملک بشیر قادری کے مطابق یہ تمام رقم چندے اور خیرات پر لوگوں نے اپنی مرضی سے دی ہے۔ ہم نے کسی سے کوئی پیسے نہیں مانگے۔ لیکن لوگ اپنی خوشی سے دیتے چلے گئے۔ بس ہمارا ارادہ ہے کہ اگلے دو سال میں اس مزار کو مزید پھیلائیں اور بڑا کریں۔

مزار سے چند گز کے فاصلے پر رہائش پذیر شیخ ذوالقرنین کہتے ہیں کہ وہ اس علاقے میں پچھلے آٹھ سال سے رہ رہے ہیں۔ ان کے بقول جو ایک کنال کا پلاٹ پہلے 15 سے 20 لاکھ میں فروخت ہو رہا تھا، اب اس کی قیمت 35 سے 40 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ مزار کے بالکل سامنے ہمارا دس مرلے کا پلاٹ ہے جس کی قیمت ایک سال پہلے پانچ سے دس لاکھ تک تھی، لیکن اب ہم نے اس کی قیمتِ فروخت 15 لاکھ روپے متعین کی ہے۔

مزار کے ارد گرد آبادی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے تناظر میں یہ سوال ایک بار پھر اٹھتا ہے کہ ایک سزا یافتہ مجرم کی اتنی مقبولیت پر حکومت کا رد عمل نہ ہونے کے برابر کیوں ہے؟

اسد جمال کے خیال میں ایسا حکومت کی اپنی کمزور پالیسیوں کی بنا پر ہوا ہے۔ ایسے رویے کے اصل وجہ ہے حکومت کی جانب سے ریاست کی شناخت کا بیانیہ، جس میں ریاست کو چلانے والے آج تک مذہبی جذبات کی سرپرستی کرتے چلے آرہے ہیں اور اب اس کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوگا۔

BBC

One Comment