جنید الدین
۔1۔۔۔۔ کسان جو فاکنز کو نہیں پڑھتے
اس کہانی میں کہانی اندر سے شروع ہوگی۔ اس کا ہیرو آپکا تخیل تخلیق کرے گا۔ “اے” اور میں صبح سویرے اٹھتے ہیں۔ کیونکہ یولیسس یا وار اینڈ پیس کے برعکس کہانی کا قرطاس محدود ہے،دوسرا آپ اسلم، اکرم یا امیر جیسے ناموں سے اکتا چکے ہیں چنانچہ آپ کو ایسا کوئی نام یاد رکھنے کی زحمت نہیں اٹھانی چاہیے۔ ہم رات کے دودھ کی چائے بناتے ہیں۔ اس میں سوکھی روٹی ڈبوتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی کسان کی انفرادی تصویر بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہم چند بھینسوں کو اصطبل سے نکالتے ہیں، انکے آگے چارہ ڈالتے ہیں اور “اے” انہیں دوہنے لگ جاتا ہے۔ میں نے سن رکھا ہے انگریز گائے پالتے ہیں۔ ان کا خیال ہے بھینس سست ہوتی ہے یا بیوقوف یا نا سمجھ، لیکن انہی تین میں سے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتی ہے۔ گائے انہیں چست رکھتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے فاکنر کو نہیں پڑھا۔ اس کی کہانیوں سے مئی کی گرمی کشید نہیں کی۔ اور نہ ہی کبھی یہ سوچا ہے کہ کل جب “اے” کسی کام سے دوسرے گاؤں جائے گا تو یہی بھینسیں دودھ دینے سے انکار کیوں کر دیں گی۔
۔2۔۔۔کافکا کو سمجھنا
جبکہ لوگوں کو لکھنے کا مان ہوتا ہے، میں میرے پڑھے پر فخر کرتا ہوں۔ بورخیس
ملک حسن میرا دوست ہے۔ وہ میرے سب دوستوں کا دوست ہے۔ وہ ادب کا طالبعلم ہے۔ ہم اکٹھے پڑھے ہیں۔گورنمنٹ کالج میں ہماری پہلی ملاقات شیکسپئیر کی آفاقیت پر تھی۔ ہم نے ہیملٹ پر بات کی۔ اس نے اوتھیلو نہیں پڑھا تھا۔ میں آج تک میکبتھ نہیں پڑھ سکا۔ ہم جب ملتے ہیں، ادب پہ بولتے ہیں۔ سیاسی ادب، گوتھک ادب، نسل پرستانہ ادب اور وجودی ادب پہ۔ حسن کے مجھ سے زیادہ دوست ہیں۔ اس کا زیادہ تر وقت دوسروں کیساتھ گزرا ہے۔ اس کے باوجود جو کچھ میں جانتا ہوں، دوسرے نہیں جانتے۔ حسن کتابیں خریدتا ہے، پڑھتا نہیں۔ اسے پڑھنے کا شوق زیادہ، سمجھتا کم ہے۔ وہ ہر کتاب آدھی پڑھتا ہے، یا پیش لفظ، یا صرف انتساب۔ اس کے پاس ایڈورڈ سعید کی کتابیں ہیں،وہ بھی ادھ پڑی ہوئی۔مضحکہ خیز۔
ایک دن میں نے اسکی آنکھ میں چمک دیکھی۔ جب آپ اسے دیکھیں وہ مسکرا رہا ہے،سمجھیں وہ کہانی سمجھ چکا ہے۔
میں نے اسے فائل کھولتے دیکھا۔ یہ کافکا کی کہانی تھی۔ اگلے لمحہ اس کے چہرے پر پریشانی تھی۔ اسکی تفسیر نہیں تھی۔ کیا آپ کافکا کو سمجھ سکتے ہیں؟