محمد شعیب عادل
پاکستانی میڈیا کے چند بچے کھچے صحافی اور لکھاری جنہوں نے ابھی تک اپنی غیر جانبدارانہ ساکھ بنا رکھی تھی وہ بھی آہستہ آہستہ جنرل راحیل شریف کے حلقہ ارادت میں داخل ہوتے جارہے ہیں۔ میڈیا میں انتہا پسندی کے خلاف کاروائیاں کرنے پر جنرل راحیل شریف کا چرچا تو تھا ہی اب کرپشن کے خلاف اقدامات پر بھی ان کی توصیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امیدہے کہ کرپشن ختم کرنے کے لیے 58 سال پہلے جو جہاد فیلڈ مارشل ایوب خان نے شروع کیا تھا وہ اب جنرل راحیل شریف اختتام پر پہنچائیں گے۔
حال ہی میں جنرل شریف کی ڈاکٹرائن کے تحت عامر رانا نے بھی لبرل فاشسٹوں کے خلاف ایک کالم لکھا ہے کہ ’’ یہ لبرل پاکستان میں کیا کر رہے ہیں‘‘ ۔ عامر رانا پچھلے کئی سالوں سے اسلام آباد میں اپنی این جی او ، پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے نام سے چلا رہے ہیں جو چھوٹے موٹے مذہبی رہنماؤں اور لکھاریوں کو سیمنیارز اور اجلاسوں میں بٹھا کر یہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ کیسے کیا جائے ۔ اس کی تفصیلات اس ادارے کی شائع کردہ رپورٹوں سے مل سکتی ہے۔ لیکن اس ادارے نے کبھی بھی پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دینے کی بات نہیں کی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اگر اسلام کی صحیح روح کے مطابق عمل کیا جائے تو اس سے زیادہ پرامن مذہب دنیا میں کوئی نہیں۔
جنرل راحیل شریف کے تاریخی آپریشن .ضرب عضب( جوابھی جاری ہے اور انشاء اللہ جاری و ساری رہے گا) کے بعد پاکستان کے لبرل کچھ زیادہ ہی فاشسٹ لگنا شروع ہو گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ نام نہاد لبرل فاشسٹ سیکولرازم اور جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں تو جنرل صاحب کے مریدوں کو ان کی زبان بھی کڑوی محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے عامر رانا لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے لبرل اپنی اصل میں دیسی ہیں ان کاکچھ حلیہ اشرافیہ (یعنی فوجی ایسٹیبشلمنٹ) سے ضرور ملتا ہوگا ، یہ کسی خاص فلسفے یا نظریہ پر کاربند نہیں ہیں ۔۔ لیکن اپنی کڑوی زبان کی بدولت شہرت رکھتے ہیں‘‘۔
عامر رانانے مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو ’’عملیت پسند‘‘ کا خطاب دیا ہے جنہوں نے پاکستان کی نظریاتی اساس کا نگہبان بننے اوراشرافیہ سے تعلقات استوار کرنے کے لیے سخت تگ و دو کی ہے اور انہوں نے ’’اشرافیہ‘‘ سے مل کر پاکستان کا بیانیہ ترتیب دیا ہے۔ عملیت پسندوں کی تعریف کرتے ہوئے وہ مشہور پاکستانی فلم مولا جٹ کے مکالمے ’’ مولے نو مولا نہ مارے تو مولا نہیں مر سکدا‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ اگر دولت اسلامیہ جیساکوئی دہشت گرد گروہ ریاست کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بنتا ہے تو اشرافیہ( یعنی فوجی ایسٹیبلشمنٹ )کو معلو م ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے کون متبادل بیانیہ دے سکتا ہے‘‘۔
ظاہر ہے’’ اشرافیہ ‘‘نے عملیت پسند تیار ہی اس لیے کیے ہیں کہ جب ضرورت پڑے تو وہ متبادل بیانیہ بھی دے دیں اور جب ضرور ت نہ پڑے تو انہیں نان سٹیٹ ایکٹر قرار دے دیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ اگر جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید، مسعود اظہر، فضل الرحمن خلیل اور مولانا لدھیانوی کے ہمراہ اس برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور یہ جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام اور چھوٹی موٹی دوسری مذہبی جماعتوں کے ساتھ نئے بیانیے کے لیے سڑکوں پر رائے عام ہموار کرتی نظر آئیں گی‘‘۔چونکہ مذہبی جماعتوں نے رائے عامہ سڑکوں پر ہموار کرنی ہے اسی لیے ریاستی اشرافیہ، پارلیمنٹ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔
رانا صاحب پاکستانی لبرلز پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ کسی چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔وہ ان عملیت پسندوں (یعنی مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں) کے خلاف پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں جنہوں نے کئی مرتبہ ریاست کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے اور عملیت پسند جانتے ہیں کہ ان کو کیسے راہ راست پر لانا ہے یا سرحدوں پر شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے ۔ رانا صاحب جماعت الدعوۃ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے خود کش حملوں اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا ۔ یہاں رانا صاحب جماعت الدعوۃ اور لشکر جھنگوی کی سرحد پار کی مصروفیات کا ذکر نہ کرکے تھوڑی ڈنڈی مار رہے ہیں۔
عامر رانا مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان کے طول وعرض میں فلاحی منصوبوں کا جال بھی انہی عملیت پسندوں کے مرہون منت ہے۔ ریاست ان کی خدمات سے صرف نظر کیسے کر سکتی ہے ؟ کیا لبرل لوگ سماجی بہبود کے اتنے بڑے نیٹ ورک چلاسکتے ہیں؟ یہ صد فی صدد رست ہے۔ لبرل اس قابل ہی نہیں کہ وہ ریاست اور میڈیاکی مدد کے بغیر اتنا بڑا نیٹ ورک تشکیل دے سکیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام ریاستی اداروں کا ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے چلتے ہیں۔
مزید لکھتے ہیں کہ اشرافیہ کو لبرل طبقے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اس کے عزائم کی تکمیل کے لیے یہ ضروری مدد فراہم نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے لبرل حضرات انتہا پسندی کی حمایتکرنے سے تو رہے۔ لبرل کبھی بھی اشرافیہ کی مدد نہیں کرسکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کا حق عوام کے نمائندوں کا ہے نہ کہ اشرافیہ کو۔ ریاست کی پالیسیاں طے کرنے کا کام عوامی نمائندوں کا ہے نہ کہ اشرافیہ کا۔ ہاں جب ریاست کا بیانیہ جہاد ی ہوگا اور انتہاپسندوں اور جہادیوں کو میڈیا اور اس کے پروردہ دانشوروں کے ذریعے پرموٹ کیا جائے گا اور وہ بندوق کے زور پر اپنا نقطہ نظر منوائیں گے تو پھر ظاہر ہے لبرل کانقطہ نظر انہیں کڑوا ہی محسوس ہو گا۔
اشرافیہ کو پارلیمنٹ جیسی خرافات کی قطعاً ضرورت نہیں اسی لیے ریاستی اشرافیہ نے اول روز سے ہی جہادی بیانیہ کو فروغ دیا۔ جنگجو ہیرو پرموٹ کئے۔ اس کی ابتداء نصاب سے ہوئی او رپھر نسیم جحازی اینڈ کمپنی نے اس بیانیے کو مضبو ط کیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں عملیت پسندوں کو میڈیا میں نہ صرف کھپایا گیا بلکہ ان کا جہاد ی بیانیہ عوا م پر مسلط کیا گیا۔ ایک طرف نصاب میں جنگجو ہمارے ہیرو قرار پائے تو دوسری طرف اخبارات اور ٹی وی میں افغانستان کی پراکسی وار لڑنے والوں کو ہیرو بنایا۔ اسی لیے تو وہ آج عملیت پسند بن گئے ہیں۔
پاکستان وہ واحد ملک ہو گا جہاں آزادی اظہار رائے کے نام پر دہشت گردوں کا نقطہ نظر باربار سنوایا جاتا ہے اور پھر ان کا سوفٹ امیج پرموٹ کیا جاتا ہے۔ پچھلے سال جیو ٹی وی نے اپنے پروگرام’’ ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ میں لشکر طیبہ کا (حافظ سعید جسے پوری دنیا دہشت گرد قرار دے چکی ہے کا) سوفٹ امیج پرموٹ کیا اور اس پروگرام کے میزبان آزادی صحافت پر لیکچر بھی دیتے ہیں اور’’ امن کے علمبردار‘‘ انہیں عملیت پسند کا خطاب دیتے ہیں۔ لیکن جو ان ہیروز کی مخالفت کریں انہیں لبرل فاشسٹ کہا جاتا ہے ۔
پاکستان کا میڈیا نیلسن منڈیلاکی خدمات کو تو یادکرتا ہےمگر باچاخان، ابوالکلام آزاد اور مہاتما گاندھی کا نام نہیں لے سکتا۔ امن و جمہوریت کی بات کرنے والی ان شخصیات کی جدوجہد کی ریاستی بیانیے میں کوئی اہمیت نہیں۔ جو سیاسی جماعتیں جہادی بیانیہ کے خلاف جاتی ہیںآج بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بن رہی ہیں۔
5 Comments