آٹھ مارچ عورتوں کے حقوق کا عالمی دن ہے۔ دنیا بھر میں عورتیں اس دن کی مناسبت سے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جد و جہد کے عزم کا اعادہ کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی عورتیں اپنے حقوق کے حصول کے لئے سر گرم عمل ہیں ۔ نامساعد حالات کے باوجود عورتوں کے حقو ق کے حوالے سے بہت پیش رفت ہوئی ہے لیکن اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سیاسی اور سماجی زندگی کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں صنفی امتیاز اپنی بدترین شکل میں موجود ہے۔ گو کہ پاکستان کا آئین صنف کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی نفی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود مختلف شعبہ ہائے زندگی میں صنفی امتیاز کی حکمرانی موجود ہے بالخصوص ایک ایسے شعبے میں جس کا تعلق انصاف کی فراہمی سے ہے ۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں عورتوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایک سروے کے مطابق قانون کے چار میں تین طالب علم عورتیں ہیں لیکن ہماری عدالتیں ہوں یا وکلا کی منتخب تنظیمیں ان میں عورتوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ پہلی دفعہ 1956کے آئین کے تحت قائم ہوئی تھی ۔ اس سے قبل ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو فیڈرل چیف کورٹ کہا جاتا تھا۔ گذشتہ اکسٹھ سالوں میں کوئی ایک عورت بھی سپریم کورٹ کی جج مقرر نہیں ہوسکی ۔ پیپلز پارٹی کے سینٹربابر اعوان نے سینٹ میں ایک بل پیش کر رکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ایکٹ 1997میں ترمیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عورتوں کے لئے 33فی صد کوٹہ مقرر کیا جائے لیکن سینٹ کی قانون کی قائمہ کمیٹی اس بل کو زیر بحث لانے سے گریزاں ہے ۔
حکومتی وزیر اور سینٹر مختلف بہانوں سے اس بل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ قبل ازیں ایم کیوایم نے بھی قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ میں عورتوں کے لئے 25 فی صدکوٹہ مقرر کرنے کے لئے بل پیش کیا تھا لیکن حکومتی بنچوں نے اس بل کی مخالفت کی تھی جس کی بنا پر اس بل پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تھی ۔ پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ میں فی الوقت چھ خواتین ججز کام کر رہی ہیں ۔
بھارت میں کیرالہ کی فاطمہ بی بی وہ پہلی عورت تھیں جنھیں 1986میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا ۔ اب تک چھ عورتیں بھارتی سپریم کورٹ کی جج رہ چکی ہیں ۔ فی الوقت محترمہ آر بنو متی جن کا تعلق بھارت کی ریاست تامل ناڈو سے ہے بھارتی سپریم کورٹ کی جج ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں کوئی عورت آج تک سپریم کورٹ کی جج مقرر نہیں ہوسکی ۔
پاکستان میں صرف پانچ ہائی کورٹس کام رہی ہیں جن کی ججوں کی تعداد 1300ہے اور ان میں عورتوں کی تعداد محض چار ہے۔ دو لاہور ہائی کورٹ میں، ایک سندھ اور ایک بلوچستان ہائی کورٹ میں۔ اسلام آباد اور پشاور ہائی کورٹ میں کوئی عورت جج نہیں ہے۔
سنہ1994پاکستان کی کسی بھی ہائی کورٹ میں کوئی عورت جج نہیں تھی ۔ اس سال پہلی دفعہ بے نظیر حکومت نے پانچ عورتوں کو ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں جج مقرر کیا تھا ۔لاہور ہائی کورٹ میں تین ، سندھ میں ایک اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک عورت کو جج مقرر کیا گیا تھا۔1994کے بعد 2010میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عورتوں کو ملک کی ہائی کورٹس میں جج مقرر کیا تھا۔ہائی کورٹس میں جج کے طور پر کام کرنے والی عورتوں کو ان کی سنیارٹی کے باوجود کبھی بھی چیف جسٹس ہائی کورٹ نہیں بننے دیا گیا ۔ جب کبھی بھی ایسا موقع پیدا ہوا ان کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ۔
پشاور ہائی کورٹ کی جج محترمہ خالدہ رشید سنیئر موسٹ ہونے کی بنا پر ہائی کورٹ چیف جسٹس مقرر ہونے کا استحقاق رکھتی تھیں لیکن انھیں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں بھیج دیا گیا ۔ جب انھوں نے بیرون ملک تعنیاتی پر احتجاج کیا تو انھیں تمام مراعات کے ساتھ ریٹائرمنٹ لینے کی پیش کش کی گئی تھی۔لاہور ہائی کورٹ کی جج فخر النسا کھوکھر کے ساتھ بھی اس سے ملتا جلتا سلوک کیا گیا اور انھیں سنیار ٹی کے باوجود ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بنانے کی بجائے ماحولیاتی ٹریبونل کا چیئر مین بنا دیا گیا تھا۔
اعلی عدلیہ کے ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ میں بھی عورتوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کچھ سال قبل جو اعداو و شمار موجود تھے ان کے مطابق پنجاب میں دو ہزار دو صد سول ججز کام کر رہے تھے ان میں خواتین ججوں کی تعدا د 112تھی۔ ماتحت عدلیہ میں خاتون جج ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا گریڈ تو حاصل کر لیتی ہے لیکن عام طور پر اسے کسی ضلع کا ڈسٹرکٹ جج مقرر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ پنجاب کے چھتیس اضلاع میں شاید ہی کوئی ضلع ہو جس کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کوئی خاتون جج ہو۔
اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کے علاوہ وکلا کے منتخب اداروں ، صوبائی بار کونسلوں اور پاکستان بار کونسل میں بھی خواتین وکلا کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مثبت تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی تھی جب پنجاب بار کونسل کی وائس چیئر مین ایک خاتون کو منتخب کیا گیا تھا وگرنہ اپنی پوری تاریخ میں پنجاب بار کونسل کی سربراہ کبھی کوئی عورت نہیں بن سکی تھی ۔
پنجاب بار کونسل کے ارکان کی تعدا د 75ہے لیکن ان میں عورتوں کی تعداد محض دو یا تین ہے۔ خواتین وکلا کو عام طور پر غیر اہم عہدوں پر منتخب کر لیا جاتا ہے لیکن وہ عہدے جو فیصلہ سازی کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں عورتوں کو ان عہدوں کے لئے منتخب نہیں کیا جاتا ۔
مثال کے طور پر لاہور بار ایسوی ایشن جس کے ممبرز کی تعدا د تقریبا تیس ہزار کے قریب ہے اس نے کبھی بھی کسی عورت کو صدر کے عہدے کے لئے منتخب نہیں کیا لیکن نائب صدور عورتیں ایک سے زائد مرتبہ بن چکی ہیں۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ بار ایسوی ایشن کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں آج تک صرف تین عورتیں صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکی ہیں۔ وکلا کا سب سے اعلی ترین منتخب ادارہ پاکستان بار کونسل ہے ۔ اس میں کبھی کوئی عورت ممبر منتخب نہیں ہوسکی ۔ یہ اپنے قیام سے اب تک مرد وکلا کے قبضے میں ہے۔
ججوں کی تقرری میں چونکہ اب وکلا کے منتخب ادارے بھی رول ادا کرتے ہیں اور ان پر مرد وکلا کا قبضہ ہونے کی بنا پر ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ا س ادارے کے ارکان کسی خاتون وکیل کو جج کے لئے نامزد کریں۔ وکلا کی اکثریت کا تعلق دیہی سماج اور سماجی اور ثقافتی پس منظر پسماندہ ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ عورتوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔
پاکستان 1995میں ہوئی بیجنگ کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں کی روشنی میں عدلیہ میں صنفی امتیاز کم کرنے کا پابند ہے لیکن 22سال گذرنے کے باوجود پاکستان نے اس ضمن میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی اور تاحال پاکستان کی عدلیہ زبر دست صنفی عدم تواز ن کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان نہیں کہ یہ عدم تواز ن ختم ہو نا دور کی بات ہے اس میں خاطر خواہ کمی ہوسکے ۔
♥
One Comment