آصف جاوید
معزّزقارئین اِکرام، اہلِ فکر و دانش، اور صاحِبانِ فکرونظر آج آپ سے دل کی باتیں کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ روشن خیالی کا تو مجھے دعوی‘ نہیں ہے، مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ میں سماجی و سیاسی مسائل پرلکھنے والا ایک ادنی‘ قلم کار ضرور ہوں۔ قلم سے میرا رشتہ زمانہ طالب علمی سے ہے۔ مگر اپنی افتادِ طبع ، جولانیِ فطرت اور عملی زندگی کےتقاضوں کی وجہ سے یکسوئی اور مستقل مزاجی سے لکھنے کے مواقع کم ہی میسّر آئے۔ ویسے بھی میں لکھنے سے زیادہ پڑھنے کا قائل ہوں۔ نانا صاحبِ دیوان شاعر اور والدہ اورینٹیل کالج سے فارغ التحصیل ادیب فاضل تھیں۔ اردو ادب اور شاعری کا بہترین ذوق رکھتی تھیں۔ شاید قلم اور کتاب سے رشتہ والدہ کی وراثت اور تربیت کا نتیجہ ہے۔
زمانہ طالب علمی سے مساوی شہری حقوق اور سماجی انصاف کے حصول کے لئے ایک سیاسی جماعت کے بینر تلےسیاسی جدوجہد کا ایک ادنی‘ کارکن رہا ہوں۔ ریاستی دہشت گردی کا بھی شکار ہوا ہوں۔ لہجے میں کڑواہٹ اس ہی وجہ سے ہے۔ اپنی اصل آئی ڈی کے ساتھ سوشل میڈیا بلاگر ہوں۔ آن لائن میگزین “نیا زمانہ ” میں لکھنے سے پہلے میں کینیڈا کے چند اخبارات میں لکھتا رہا ہوں ۔ اخبار اردو خبرنامہ کینیڈا کا مستقل کالم نگارہوں۔ شعیب عادل کی دعوت پر مجھے آن لائن میگزین “نیا زمانہ” سے لکھتے ہوئے تقریبا” سوا سال ہوگیا۔ اِس عرصہ میں نیا زمانہ کے قارئین اور دیگر صاحبانِ فکرو نظر ، اہلِ فکر و دانش کی توجّہ اور محبّت بھرپور طور پر مجھے حاصل رہی ہے۔ جس پر میں ان کا مشکور ہوں۔
قلم کار دوست ایک مشترکہ خاندان کی مانند ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سیکولر، لبرل اور ترقّی پسند ادیب ، قلم کار، اور شاعر دوستوں ے تعلّق اور وقتا” فوقتا” ان کی صحبت میسّر آجانے کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ اور اس تعلّق کی وجہ دیگر ترقّی پسند ادیب وشعراء کے حالات سے آگاہی حاصل بھی ہوتی رہتی ہے۔
امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی سے جاری ہونے والےمذکورہ آن لائن میگزین “نیا زمانہ” کے ایڈیٹر جناب شعیب عادل سے میرا ذاتی تعلّق کم ہے مگر نظریاتی تعلّق بہت پرانا ہے۔ میں یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نیا زمانہ کے اوّلین قارئین میں سے ایک ہوں۔
یہ اُس وقت کی بات ہے، جب نیا زمانہ لاہور سے پرنٹ میگزین کی شکل میں شائع ہوتا تھا مشہور ترقّی پسند ادیب و دانشور جناب احمد بشیر صاحب “نیا زمانہ” کی مجلسِ ادارت میں ہوتے تھے۔اور بڑے بڑے نامور ترقّی پسند ، روشن خیال ادیب و شعراء نیا زمانہ میں لکھتے تھے۔
شعیب عادل نے اس روشن خیال اور ترقّی پسند میگزین “نیا زمانہ” کو جاری رکھنے کی بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ذہنی و جسمانی تشدّد، دفتر پر حملے، جان سے مارنے کی دھمکیاں، رسالے کی بندش، جان بچاکر فرار ہونے اور امریکہ میں پناہ گزین بن کر رہنے، اور پھر نا مساعد حالات، بے بسی، مفلسی، دربدری، اور زندہ رہنے کے لئے مزدوری و مشقّت کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر رسالے کو آن لائن جاری کرنے اور پھر رسالے کو کامیابی سے چلانے کی جان توڑ محنت میں گذشتہ سوا سال سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ پچھلے سال جون کے مہینے میں اپنے دورہِ امریکہ میں اپنی آنکھوں سے خود شعیب عادل کی دربدری، مشکلات، محنت و مزدوری کے ساتھ ساتھ رسالے کو جاری رکھنے کے لئے روزانہ پانچ سے چھ گھنٹے اضافی کام کی مشقّت کا چشم دید گواہ ہوں ۔ مگر آفرین ہے، شعیب عادل پر کہ اُن کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ نا مساعد حالات میں بھی میگزین کو جاری رکھا ہو اہے۔
ماہ نامہ “نیا زمانہ” کا آغاز مئی 2000 میں لاہور سے ہوا تھا۔ اس وقت “نیا زمانہ “پاکستان کا واحد روشن خیال، ترقّی پسند میگزین تھا، اور روشن خیال حلقوں میں بہت مقبول تھا۔ نیازمانہ میں استحصالی اور بنیاد پرست قوتوں اور ان کے ہتھکنڈوں کے خلاف مسلسل 14 سال تک لکھا جاتا رہا۔ جون 2014 میں مذہبی انتہا پسنددہشت گردوں کے میگزین کے دفتر پر حملے، توڑ پھوڑ، گھیراؤ، تشدّد، جان سے مارنے کی دھمکیوں کے بعد مجبوراً نیا زمانہ کی اشاعت بند کرنا پڑی۔ مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی اور نام نہاد جہاد کے خلاف لکھنے پر ایک متشدّد مذہبی گروہ نے ایڈیٹر نیا زمانہ جناب شعیب عادل پر توہین رسالت کا مقدمہ قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ پولیس نے شعیب عادل کو حراست میں لے لیا ۔ کچھ صحافی دوستوں نے شعیب عادل کی مدد کی، اور ان کی بروقت مداخلت کی وجہ سے مذہبی گروہ کی شعیب عادل پر توہینِ مذہب کا مقدمہ قائم کرنے کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی ۔ دوستوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شعیب عادل کو مشورہ دیا کہ اس دفعہ تو آپ کی جان بخشی ہو گئی ہے۔ لیکن آئندہ شاید ہم بھی آپ کی کوئی مدد نہ کر سکیں ، لہذا بہتر ہے کہ آپ یہ ملک چھوڑ دیں ۔
اور یوں شعیب عادل کو بادلِ نخواستہ پاکستان سے ہجرت کرکے امریکہ میں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔
امریکہ میں موجود دوستوں کے مشورے پر شعیب عادل نے امریکہ میں پناہ گزین کی حیثیت سے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ اور جب محنت مزدوری سے تھوڑی سی خوش حالی حاصل ہوئی تو ، تو شعیب عادل کو پھر صحافتی کیڑے نے کاٹا اور امریکہ کے شہر واشنگٹن ڈی سی سے آن لائن میگزین “نیا زمانہ” کا دوبارہ اجراء کیا۔ محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ تن تنہا، روزانہ پانچ سے چھ گھنٹے میگزین کی ادارت اور تدوین کوئی معمولی کام نہیں، جو کرے وہ جانے۔ مگر شعیب عادل اس مشن کو عبادت سمجھتے ہوئے کررہے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے یہ میگزین شعیب عادل کی ذاتی جدوجہد کی بناء پر “نہ نفع نہ نقصان “کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ اپنی جیب سے کئے گئے مالی اخراجات اور ذاتی محنت کا شعیب عادل اقرار نہیں کرتے، یہ ا ن کی بہت بری عادت ہے۔ اللہّ معاف رکھے۔
کسی بھی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے فنڈز ناگزیر ہوتے ہیں۔ نیا زمانہ کے آن لائن ایڈیشن کا اجرا ءشعیب عادل نے اپنے کچھ ذاتی دوستوں کے مالی تعاوّن سے کیا تھا۔ جن کے لیے شعیب عادل ہمیشہ شکر گذار رہتے ہیں۔ مگر اب صورتحال مشکل ہے۔ میگزین کا کام بڑھ گیا ہے، باقاعدہ دفتر، کل وقتی مترجم و تدوین کار، ویب سائٹ ڈیولپمنٹ ،آئی ٹی اور گرافک آرٹ ایکسپرٹس ، کو ادائیگیاں کرنے کے لئے ، اور “نیا زمانہ “کو جاری رکھنے کے لیے فنڈز کی مسلسل فراہمی کی ضرورت رہتی ہے۔
میگزین کو کسی بھی ذریعے سے کسی بھی قسم کی مالی امداد حاصل نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی سپانسر شپ کا بندوبست ہوسکا ہے۔ مالی مشکلات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ شعیب عادل تن تنہا یہ کام نہیں کرسکتے ہیں۔ لہذا تمام قارئین اور اہلِ فکر و دانش سے اپیل کی جاتی ہے کہ “نیا زمانہ “کی مالی امداد کریں۔ تاکہ روشن خیال اور ترقّی پسند افکار و خیالات کا مسلسل ابلاغ جاری رہِ سکے اور وطن ِ عزیز پاکستان کو مذہبی اور استحصالی دہشت گردی کے چنگل سے آزادی مل سکے۔ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوسکے، سماجی انصاف بحال ہوسکے۔
یورپ ، امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے قارئین اگر ایک ڈالر ،ایک پاؤنڈ، یا ایک یورو یومیہ کے حساب سے ہر ماہ تیس ڈالر، تیس پاؤنڈ یا تیس یورو، یا جو بھی کم سے کم رقم جو وہ بخوشی عطیہ کر سکتے ہوں ، میگزین کی ویب سائٹ کے اوپر بائیں جانب بنائے گئے ڈونیشن باکس میں آن لائن اپنے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ہر ماہ کردیا کریں تو، ادارے کی مالی مدد جاری ہوجائے گی۔ میگزین کی اشاعت جاری رہے گی اور دیگر توسیعی منصوبہ جات پر عمل بھی ہوتا رہے گا۔ قارئین کو اور بھی زیادہ معیاری مواد ابلاغ ہوتا رہے گا۔ معیار کو بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکے گی۔
ورنہ شعیب عادل کی جانِ ناتواں ایک دن اس بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے زمیں بوس ہوجائے گی۔ پاکستان اور دنیا کے دوسرے حصّوں میں مقیم قارئین اور ہمدرد اپنی اپنی سہولت کے مطابق ، اپنی اپنی گنجائش کے مطابق کم سے کم رقم بھی آن لائن عطیہ کرسکتے ہیں۔ کم سے کم رقم کے عطیات کی کوئی حد نہیں، پانچ ، دس ڈالر یا پاؤنڈ یا چند سو روپوں کی امداد بھی بخوشی قبول کی جائے گی ۔ قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ بس خلوصِ نیت چاہئے۔ یہ صرف ایک درخواست ہے۔ قارئین اکرام و صاحبانِ فکر و نظر ، اگر اس مشن کی اہمیت کو سمجھتے ہوں، اور بخوشی عطیات دے سکتے ہوں ۔ تو ضرور دیدیں، ورنہ درگزر کردیں۔
فقیرانہ آئے صدا کرچلے، میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے۔
7 Comments