قیام پاکستا ن سے لیکر آ ج تک پاکستان آئینی اور سیاسی بحُرانوں کا شکار ہوتا آرہا ہے اور پاکستان کے مختلف حکمران طبقے جمہوریت اور آئین کی پاسداری و تحفظ کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرتے آرہے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت اور آئین ہمیشہ سے طاقت کی نذر ہوتی رہی ہیں۔
سنہ 1947کو پاکستان کے آزاد ہوتے ہی اسےِ مختلف سیاسی، معاشی اور سماجی مشکلات کا سامنا ہوا اور انِ مشکلات سے مقابلہ کرنے کیلئے بیوروکریسی ایک طاقتور ادارے کی حیثیت سے اُبھری جس کی طاقت کو چیلنج کرنے والی کوئی سیاسی قیادت نہ تھی۔ یوں 1956کو پاکستان کا پہلا آئین تشکیل دیا گیا اور 1958تکبیوروکریسی نے ملک کو اپنے مفادات کے تحت چلایا۔
سنہ1958میں جنرل ایوب خان نے 1956کے آئین کو منسوخ کرتے ہوئے مارشل لاء نافذ کیا جس سے پاکستان کی اقتدار پر فوجی حکومتوں کا قیام مستحکم ہو نے لگا۔ مارشل لاء کے نافذ ہوتے ہی جنرل ایوب خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا پہلا ور آخری مقصد جمہوریت کی بحالی ہے لیکن1962میں انہوں نے پاکستان کو ایک نئی آئین سے نوازااورایوب خان کی حکومت10سال تک چلتی رہی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے مارچ 1969کو جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ دی گئی جنہوں ایک بار پھرِ پاکستان کی آئین کو منسوخ کرتے ہوئے مارشل لاء نافذ کیا۔
یہ1970کی دہائی تھی کہ جب مشرقی پاکستان کی سیاسی بے چینی اور سیاسی بحران نے اربابِ اقتدار کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ملک کی سا لمیت کو کیسے بر قرار رکھا جائے؟ مشرقی پاکستان میں مقیم بنگالیوں میں سیاسی شعور بیدار ہوتا گیا اور مغربی پاکستان میں قائم فوجی اقتدار کے خلاف تحریکیں چلانی شروع کردی۔ ان تحریکوں کا مقصد حصولِ اختیار اور خود مختاری تھا تاکہ وہ مغربی پاکستان کے سیاسی تسلط سے آزاد ہو سکے لیکن بجائے اسکے کہ مشرقی پاکستان کے مسائل کا حل نکالا جاتا، کوشش یہ کی گئی کہ انہیں مذہب کے نام پر متحد رکھا جائے۔
اور یہ وہ پس منظر تھا کہ جس میں “نظریہ پاکستان” کو تشکیل دیا گیا جسکا اصل اور سیاسی مقصد یہ تھا کہ ملک کے دونوں حصِوں کو مذہب کے نام پر متحد رکھا جائے اور “قومیت ” کو ردَ کیا جائے لیکن بنگال کی محرومیوں کے ساتھ ساتھ انِ میں جو سیاسی شعور آیا، اس نے مغربی پاکستان کے تسلط اور” نظریہ پاکستان” کے خلاف جس نظریہ کو جنم دیاوہ بنگالی” قوم پرستی” تھی جو بلاآخر دسمبر1971میں علیحدگی کی صورت اختیار کر گئی اور یوں ایک فوجی حاکم کے ہاتھوں سقوطِ ڈھاکہ رونما ہوا۔
سنہ1971 کو جنرل یحییٰ نے اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے سپر دکردیا اور1973کو پاکستان کا تیسرا آئین بنا یا گیا جس کے تحت1977کو دوبارہ انتخابات منعقد ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار کامیاب ہوئی لیکن حزبِ اختلاف نے حکومت پر قومی اسمبلی کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائدِ کیے اور جلسے جلوس و ہنگامے شروع ہونے لگے جس سے فائدہ اٹُھاتے ہوئے ایک مرتبہ پھرِ آمریت کو حکومت پر قبضہ جمانے کا موقع ملاِ۔
جولائی 1977کو ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرکے ایک مرتبہ پھرِ پاکستان کے آئین1973 کو معطل کردیا اور1988 تک انُ کی حکومت چلتی رہی۔ جنرل ضیاء الحق کے وفات کے بعد1988کو دوبارہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔ حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہی، ماورائے آئین اقدامات ہوتے رہیں لیکن نومبر1999کو پھرِ سے پاک فو ج نے نوازحکومت پر قبضہ کردیا اور پھرِ سے آئین کی شامت آئی جو جنرل پرویز مشر ف کے ما تحت2008تک چلتا رہا۔
سنہ2008میں پیپلز پارٹی جمہوری طور پر انتخابات میں کامیاب ہوئی اور2013 میں نواز شریف صاحب بر سر اقتدار آئے لیکن اس لمبے عرصے میں آئین پاکستان مسلسل طاقت کا شکار ہوتا گیا جسے ہر آمرانہ اور نام نہاد جمہوری قوتوں نے اپنے مفادات کے تحت استعمال کیا جو بطور آٹھویں، تیرہویں، سترہویں اور اٹھارویں آئینی ترامیم کی صورت میں پائی جاتی ہیں۔
آج بھی پاکستان میں انِ آمرِ نما جمہوری حاکموں کے ہاتھوںآئین کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ آج بھی ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ دور کی بنائی گئی پالیسیوں کے تحت ملک میں طالبانائزیشن، اسلامائیزیشن اور ملٹری آپریشن کھُلے عا م عروج پر ہے، سرحدی حدود کی رکھوالی کیلئے تشکیل دی جانے والی ایف سی اور رینجرز جیسے پیراملٹری فورسز کو پولیس اختیارات سونپا جاتا ہے جن کی مدُتِ اختیارات میں آئے دنِ توسیع کی جارہی ہیں۔
آئین پاکستان1973کے آرٹیکل245کے مطابق پاکستا ن کے مسلح افواج وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت ملک کی سا لمیت کیلئے طلب کی جائیگی لیکن اسکےِ برعکس پاکستان میں پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کی مشاورت کے بغیر ملک بھرَ میں آپریشن شروع کیا جاتا ہے اور اسِ آپریشن کے جاری ہونے کے باوجود فوجی عدالتوں میں توسیع کیا جاتا ہے جس سے آرٹیکل184 اور199سی جو عدلیہ کی اختیارِ سماعت، آرٹیکل (10، 10اے، اور (19) جو گرفتاری و نظربندی سے تحفظ، منصفانہ سماعت کا حق اور حقِ معلومات جیسے انسانی بنیادی حقوق اور تھیوری آف پر مبنی جمہوریت کا استحصال کیا جاتا ہے۔
آج بھی انِ نا م نہاد جمہوری حکومتوں میں آمریت پائی جاتی ہے ، آج بھی آمرانہ پالیسیاں زندہ اور لاگو ہیں، آج بھی جمہوریت اور آئین کا مذاق اڑُایا جارہا ہے ،آج بھی سولِ حکومت کے روپ میں آمرانہ بہروپیوں کی حکومت قائم ہے اور آج بھی پاکستان میں آئین کو طاقت کے طابع اور نذر کیا جاتا ہے۔
♣
One Comment