ترکی کے صدر طیب ریجب ایردوعان نے ایک بار جمہوریت کو ایک ریل گاڑی سے تشبیہ دی تھی جسے آپ منزل پر پہنچنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور جونہی آپ منزل پر پہنچ جائیں تو اسے چھوڑ دیتے ہیں۔
ترکی کے صدرآج کل بہت زور و شور سے کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے اس قول پر عمل کر دکھائیں۔ جیسے جیسے 16 اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم کی تاریخ نزدیک آتی جا رہی ہے، ویسے ہی حکومتی جماعت اپنے خواب کی تکمیل کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کوئی عیب نہیں محسوس نہیں کر رہی۔
ترک صدر نے جولائی 2016 کی مشکوک فوجی بغاوت کو ”خدائی تحفے“ کا نام دیا تھا۔ اسی خدائی تحفے کی برکت سے ترک حکومت ہر اس انسان کو نظر بند کر چکی ہے جس پر مخالفت کا ذرا سا بھی شبہ تھا۔ حزب مخالف کے حامی صحافی، اخبارات و نشریاتی ادارے بھی پیش بندی کے طور پر کافی عرصہ پہلے بند کئے جا چکے ہیں۔ اب ترکی ذرائع ابلاغ میں اس موضوع پر صرف یک طرفہ ٹریفک جاری ہے۔ ایسے میں اگر صدر ریجب ایردوعان اپنے سر پر سلطانی تاج سجانے میں کامیاب ہو جائیں تو اچنبھے کی بات نہیں ہو گی ۔
ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کی صورت میں ایردوعانی حکومت کے بقول ترکی کو سیاسی و معاشی استحکام حاصل ہو گا۔ ایردوعان کے ایک آمر بن جانے کے دعوے کو رد کرنے کیلئے دلیل دی جا رہی ہے کہ ان تبدیلیوں کے بعد صدر پانچ سال بعد عوام کو جوابدہ ہو گا۔ لیکن مخالفین کے مطابق یہ نظام صدارتی نظام نہیں بلکہ تمام اختیارات ایک انسان کے ہاتھ میں مرتکز کرنے کی کوشش ہے۔ اس ریفرنڈم میں کامیابی کی صورت میں ایردوعان کو وہ اختیارات حاصل ہوں گے جن کا امریکی یا روسی صدر تصور بھی نہیں کر سکتے۔
نئے آئینی نظام میں منتخب صدر کو عمر بھر کیلئے ہر قسم کی قانونی کاروائی سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ اس نظام کے مطابق صدارتی انتخاب ہر پانچ سال بعد ہوا کرے گا۔ کوئی صدارتی امیدوار تین بار سے زیادہ صدر منتخب نہیں ہو سکے گا۔ لیکن ایردوعان کی موجودہ صدارت کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ نیا صدارتی انتخاب 3 نومبر 2019 میں ہو رہا ہے۔ یوں اگر ایردوعان لگاتار تین صدارتی انتخاب جیت پائیں تو وہ 2034 تک ترکی کے صدر رہ سکتے ہیں۔
انتظامی امور کے سلسلہ میں صدر کو پارلیمان کو برخاست کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ صدر ملک کے سالانہ بجٹ کا فیصلہ کرے گا۔ صدر ہر قسم کی قانون سازی کو رد کر سکے گا۔ صدر وزرا کا تقرر کرے گا جو پارلیمانی رکن نہیں ہوں گے۔ تمام اعلیٰ ریاستی منتظمین کو مقرر کرے گا۔ تمام یونیورسٹیوں کے سربراہ اور اعلیٰ تعلیمی بورڈ کے ڈائریکٹر کو مقرر کرے گا۔ صدر تمام غیر ممالک میں سفیروں کو مقرر کرے گا۔ ترکی کے غیر ممالک کے ساتھ تمام معاہدات پر صدر کے دستخط ہوں گے۔
عدلیہ کو قابو میں رکھنے کیلئے ججوں اور پراسیکیوٹر کے اعلیٰ بورڈ کے سربراہ کو صدر مقرر کرے گا۔ اس بورڈ کے آدھے اراکین صدر کے منتخب کردہ ہوں گے۔ ترکی کی آئینی عدالت جو ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، اس کے 15 ممبران میں 12 ممبران صدر مقرر کرے گا۔
ریفرنڈم جیتنے کے بعد جب اس قدر اختیارات جھولی میں آ گرنے کا فائدہ نظر آ رہا ہے تو اس میں کامیابی کے حصول کیلئے صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں مقیم ترکوں کو بھی ریفرنڈم میں حکومتی جماعت کی حمایت پر مائل کرنے کیلئے بھی بہت زیادہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں جرمنی میں مقیم ترک النسل لوگ سب سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ ان کی تعداد چودہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
گو جرمنی اور ترک حکومت کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں لیکن اس کے باوجود پچھلے ہفتے جرمنی کی دو ریاستوں کے حکام نے سیاسی ریلیوں میں سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ترک وزیر کو خطاب کرنے کی اجازت نہیں۔ جس کے نتیجے میں ترکی کا بہت جارحانہ ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایردوعان نے استنبول میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جرمن حکومت کے متعلق کہا۔
“تمہاری حرکات ماضی کے نازیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ ”مجھے شک تھا کہ جرمنی اپنے ماضی سے پیچھا چھڑا چکا ہے لیکن میں غلط ثابت ہوا“۔
جرمن چانسلر اینجلا میریکل کو مخاطب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا “ تم ہمیں جمہوریت کا درس دیتی ہو اور پھر اس ملک کے وزیروں کو خطاب کرنے سے روک رہی ہو“۔
جرمن شہر کولون کے اجتماع میں ترک حکومت کے وزیر کے خطاب کو منسوخ کئے جانے کو ریفرنڈم میں مداخلت کا نام دیتے ہوئے ترک وزارت خارجہ نے جرمن سفیر کو بلا کر احتجاج کیا ہے۔ ترک وزیر اعظم بنالی یلدرم کے بقول جرمنی اس استصواب رائے میں جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یلدرم کے بقول استصواب رائے میں ترکی میں عوام کا فیصلہ صدارتی نظام کے حق میں ہو گا ، لیکن دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں ”دخل اندازی“ غلط رویہ ہے۔
ترک حکومت کے ان اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات کے مقابلے میں جرمن حکومت کا رد عمل حیرت انگیز حد تک مصالحانہ ہے۔ جرمن حکومت کے پریس آفس نے کہا ہے کہ وہ جرمنی کو نازی جرمنی سے تشبیہ دینے پر اپنا بیان نہیں دیں گے۔ ایک اور بیان میں کہا گیا ہے۔ گو ترکی میں تحریر و تقریر کی آزادی کی حالت قابل رحم ہے، لیکن جب ہم دوسرے ممالک میں اس قسم کی حالات پر کڑھتے ہیں تو ہمیں بھی محتاط ہونا ہو گا کہ اپنے ملک کے آئین کے اندر رہتے ہوئے ہم ان آزادیوں کا احترام کریں اور وہی عمل اختیار کریں جس کا ہم دوسروں سے مطالبہ کرتے ہیں۔
جرمن حکومتی جماعت جہاں مصالحانہ رویہ اختیار کر رہی ہے، وہیں کچھ حلقے جرمنی کو نازی کہنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اینجلا میرکل کی اپنی جماعت سے ہی تعلق رکھنے والے وولکیر کاؤدر نے ترک صدر کے بیان پر یوں تبصرہ کیا ہے۔ ” نیٹو کے ایک ممبر ملک کے صدر کی جانب سے دوسرے ملک پر اس قسم کا بیان حیران کن اور ناقابل قبول ہے“۔
بائیں بازو کی جماعت کے پارلیمانی رکن سویم داگدیلن نے ایردوعان پر جرمن فاشزم کے متاثرین کی تضحیک اور بے عزتی کا الزام لگایا ہے ۔
ترکی صدر کے بیان پر جرمن چانسلر کے لاپرواہی برتنے کو کچھ لوگ ترکی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا نام دے رہے ہیں۔ جس کا پہلا مظاہرہ تب دیکھنے میں آیا تھا جب جرمنی کے جان بوہمرمان نامی ایک کامیڈین نے زی ڈی ایف نامی مقامی ٹی وی چینل پر ایک نظم پڑھی جس میں ایردوعان کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ ترکی حکومت کے دباؤ پر جرمن حکومت نے پر اس کامیڈین پر ”غیر ممالک کے اداروں اور نمائندوں کی ہتک“ کرنے کی شق کے تحت مقدمہ درج کیا گو اسے واپس لے لیا گیا۔
جرمن جریدے دیر شپگل کے تازہ ترین شمارے کے ایک مضمون میں جرمنی کو ترکی کے ساتھ اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے ”اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اردوعان کی پہنائی گئی زنجیروں سے آزادی حاصل کر لی جائے“۔
♥